ڈاکٹر سید داؤد اشرف آرکائیوز کے ریکارڈ سے
سابق ریاست حیدرآباد یا مملکت آصفیہ میں اکثر برائیاں جڑ پکڑی ہوئی تھیں، جن میں چند سماجی لعنتیں بنتی جارہی تھیں۔ ان برائیوں اور لعنتوں کو ختم کرنے کے لئے ریاست حیدرآباد کی حکومت اور اس کے حکمرانوں نے نہایت اہم اقدامات کئے۔ ان اقدامات میں قوانین اور قواعد کا نفاذ بھی شامل ہے جن کے ذریعے ان برائیوں کو ناپسندیدہ ممنوع اور غیرقانونی قرار دیا گیا۔ ان لعنتوں میں ستی کی لعنت سب سے زیادہ بھیانک تھی۔ برطانوی ہند کے دور میں ستی کی رسم کے خاتمے کے لئے اقدامات کئے گئے۔ برطانیہ اور یورپ جیسے اُس دور کے ترقی یافتہ علاقوں میں ستی جیسی برائی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ برطانوی سامراج نے ہندوستان کو محکوم بنایا۔ اپنی کالونی میں تبدیل کیا، اس کا معاشی استحصال کیا لیکن اس نے ہندوستان کو نئی دنیا کی ترقیات اور برکتوں سے بھی فیض یاب کیا۔ جدید تعلیم، مواصلات کی ترقی خاص کر ملک بھر میں ٹرینوں کے جال کا بچھایا جانا، آثار قدیمہ کا تحفظ اور مختلف سماجی اور دیگر نوعیت کی اصلاحات حکومت برطانوی ہند کی اچھی اور پسندیدہ خصوصیات میں شامل ہیں۔ ریاست حیدرآباد میں بھی جو دیسی ریاست ہونے کی وجہ سے بری حد تک جداگانہ موقف رکھتی تھی اور جس کی بڑی حد تک اپنی خود مختار حکومت تھی۔ سماجی لعنتوں اور دیگر برائیوں کو ختم کرنے کے لئے تاریخ ساز اقدامات کئے گئے۔ ان میں سے بعض اقدامات برطانوی ہند کی حکومت کی طرف سے توجہ دہانی کا نتیجہ بھی تھے۔
آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں حکومت ریاست حیدرآباد کی جانب سے سماجی، مذہبی اور دیگر اصلاحات سے متعلق نافذ کردہ اشتہارات (اعلانات)، احکام، فرامین، گشتیات وغیرہ محفوظ ہیں۔ ان اہم دستاویزات کی بنیاد پر تحقیق کام کے نتیجے میں مضامین سپرد قلم کئے جارہے ہیں۔ ان مضامین سے جہاں سابق ریاست حیدرآباد کی عوامی و معاشرتی زندگی پر روشنی پڑے گی، اس کی چند برائیوں اور ان برائیوں کو دور کرنے کی کوششوں کا بھی اندازہ ہوسکے گا۔ اس سلسلے کے پہلے مضمون میں ستی پر امتناع، ٹھگی و ڈکیتی کے خاتمے، اطفال کی خرید و فروخت کے انسداد، اجناس کے دام بڑھانے کے لئے سٹہ کھیلنے پر مخالفت کے علاوہ دیگر سماجی برائیوں کے تدارک کے لئے کئے گئے اقدامات کا احاطہ کیا جارہا ہے۔ یہ اقدامات ریاست حیدرآباد کے چھٹے حکمران میر محبوب علی خان آصف سادس کے عہد تک کا احاطہ کرتے ہیں۔
لارڈ ولیم بینٹنگ مدراس کا گورنر رہ چکا تھا۔ اسے 1828ء میں گورنر جنرل بناکر دوبارہ ہندوستان بھیجا گیا۔ وہ 1828ء سے 1835ء تک اس عہدے پر فائز رہا۔ اس نے اپنے دور میں کئی اصلاحات نافذ کیں جن میں ستی کی رسم کا خاتمہ، راجپوتانے میں دخترکشی کی روک تھام اور ٹھگی و ڈکیتی کے انسداد کے لئے ٹھگی، ڈکیتی کے محکمے کا قیام شامل ہے۔ بینٹنگ نے سب سے پہلے ستی کی رسم کا انسداد کیا۔ اس سلسلے میں یہ اعلان کیا گیا کہ آئندہ شوہر کی لاش کے ساتھ ہندو بیوہ کو جلایا گیا تو اس کام میں جتنے لوگ شریک ہوں گے، ان سب پر خون کا مقدمہ چلایا جائے گا۔ حکومت برطانوی ہند نے اپنے علاقوں میں ستی کے انسداد کے لئے اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ اس سماجی لعنت کا خاتمہ کرنے کے لئے دیہی ریاستوں کو بھی توجہ دلائی۔ ستی کی رسم پر امتناع عائد کرنے کے سلسلے میں حکومت برطانوی ہند اور حکومت ریاست حیدرآباد کے مابین جو مراسلت ہوئی تھی، اس سے متعلق سیل آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز کے ریکارڈ کے ذخیرے میں محفوظ ہے۔
حکومت ریاست حیدرآباد نے 1267ھ م 1850 میں ستی کی مخالفت کے سلسلے میں تعلق داروں، جاگیرداروں وغیرہ کے نام اشتہارات (اعلانات) جاری کئے تھے مگر خاطر خواہ نتائج نہ نکلنے پر حکومت نے دوبارہ حسب ذیل اشتہار مورخہ 25 شوال 1293ء ھ م 12 نومبر 1876 جاری کیا۔
’’قبل ازیں 1267ھ م 1850ء میں حکومت کی جانب سے ستی کی ممانعت کے سلسلے میں تعلق داروں و جاگیرداروں وغیرہ کے نام اشتہارات جاری کئے گئے تھے لیکن اس کے باوجود لوگ ستی پر امتناع سے واقف نہیں ہیں۔ اس لئے بعض اوقات اس بارے میں کوشش کی جاتی ہے۔ اس بات کے پیش نظر دوبارہ اطلاع دی جاتی ہے کہ اگر آئندہ کوئی یہ اقدام کرے گا تو اس کے حق میں نتیجہ بہت برا ہوگا اور اگر تعلق دار، نائب، جاگیردار اور زمین دار وغیرہ اس بارے میں غفلت سے کام لیں گے تو حکومت کی جانب سے سخت بازپرس کی جائے گی‘‘۔
مولوی چراغ علی نے اپنی کتاب Hyderabad Under Sir Salar Jung, Vol. III P 324-325 میں لکھا ہے کہ نظام کے علاقے میں 1833ء سے قبل بچے بالکلیہ کھلے عام فروخت کئے جاتے تھے۔ خریدنے والوں کو فروخت کی قانونی ضمانت کے طور پر کوتوال بلدہ کی جانب سے مہرشدہ صداقت نامہ دیا جاتا تھا۔ مہاراجا چندو لال نے 1833ء میں بچوں کی خرید و فروخت کی ممانعت کے بارے میں ایک اعلان جاری کیا تھا مگر اسے اس وقت تک سختی سے نافذ نہیں کیا گیا جب تک کہ ریزیڈنٹ جنرل فریزر کی جانب سے ایک سپاہی کی لڑکی کے بارے میں جسے چرایا گیا اور فروخت کردیا گیا تھا، احتجاجی خطوط وصول نہیں ہوئے۔ اس لڑکی کو ماں باپ کے پاس پہنچا دینے کے بعد مہاراجا چندو لال نے ایک نیا اعلان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ جو کوئی بچوں کی فروخت کے جرم میں ملوث رہے گا، اسے بھاری جرمانہ کیا جائے گا۔ غریب اشخاص کو بچوں کے لئے ادا کی گئی رقم کے مساوی جرمانہ کیا جائے گا اور دیگر اشخاص پر دوگنی رقم جرمانے کے طور پر عائد کی جائے گی۔
اس اعلان کے باوجود بچوں کی خرید و فروخت کا سلسلہ جاری رہا۔ چونکہ بچوں کی خرید و فروخت، مذہبی اور اخلاقی طور پر جائز نہیں تھی، اسی لئے حکومت نے اس بارے میں دوبارہ امتناعی احکام جاری کئے۔ اس اشتہار مورخہ 2 ربیع الثانی 1273ھ م یکم ڈسمبر 1856 کو موثر بنانے کے لئے لکھا گیا کہ بچوں کی خرید و فروخت اسلامی قانون میں ممنوع ہے۔ اس سلسلے میں جو اشتہار جاری کیا گیا تھا، اس کا متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
’’چونکہ بچوں کی خرید و فروخت شرع شریف میں ممنوع ہے۔ اس لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ کوئی شخص کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے بچوں کی خرید و فروخت نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی شخص حکومت کے حکم کے خلاف اس امر ممنوعہ کا ارتکاب کرے گا تو خریدنے والا اور فروخت کرنے والا ہر دو حکومت کے مجرم سمجھے جائیں گے اور سزا پائیں گے‘‘۔
مولوی چراغ علی کے مطابق بچوں کی خرید و فروخت کے امتناع کے بارے میں اشتہار ماہ ربیع الثانی 1283ھ م 1876ء میں دوبارہ جاری کیا گیا۔
مولوی چراغ علی اپنی متذکرہ بالا تصنیف کی جلد سوم میں لکھتے ہیں کہ ان ہی دنوں ریاست حیدرآباد میں ٹھگی اور ڈکیتی جرائم کی روک تھام کی جانب توجہ دی گئی۔ ان جرائم میں ملوث نمایاں اور اہم مجرم روہیلے تھے۔ ان مجرموں سے نمٹنے کے لئے خصوصی عہدیداروں کو جنہیں ضلع داروں کا نام دیا گیا تھا، ان اضلاع میں مقرر کیا گیا تھا جہاں لٹیروں کی کثرت تھی۔ ضلع داروں کو ہتھیاروں سے مسلح سپاہیوں کی بڑی طاقتور فورس فراہم کی گئی جو تمام مزاحمتوں اور مدافعتوں پر غلبہ پانے کی اہل تھی۔ ضلع دار ہر جگہ اپنے آپریشنوں میں کامیاب رہے۔ انہوں نے انکاؤنٹروں میں ہمیشہ ہی روپیوں کو شکست دی۔ روپیوں کی بڑی تعداد یا تو ماری گئی یا انہیں گرفتار کرکے شہر کے جیل خانے ’’سلطان شاہی جیل‘‘ میں قید کردیا گیا۔ بعدازاں ایک ہزار قیدی ریاست کے حکمران افضل الدولہ بہادر آصف خامس (پنجم) کے احکام اور ریزیڈنٹ کرنل ڈیوڈ سن کے اتفاق رائے سے آزاد کردیئے گئے۔ قید سے رہا کئے جانے والوں کو فوج میں بھرتی کرلیا گیا۔ چند بدترین کردار کے حامل مجرموں کو حراست ہی میں رکھا گیا۔ اس سلسلے میں مزید گرفتاریوں عمل میں آئیں۔ 1276ھ م 1869ء میں ٹھگی اور ڈکیتی مقدمات کے لئے شہر میں ایک خصوصی عدالت قائم کی گئی جن کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہوا، انہیں رہا کردیا گیا اور جنہیں مجرم قرار دیا گیا، انہیں ان کے جرم کے لحاظ سے سزا دی گئی۔ چند روپیوں کو جو مجرم قرار دیئے گئے تھے۔ برطانوی تعزیرات نوآبادیات بھیج دیا گیا۔ بہت سوں کو عمر قید یا طویل میعاد کے لئے سزا دی گئی اور چند کو سزائے موت دی گئی۔ ان سخت اقدامات کے نتیجے میں جلد ہی ان مجرمین کی جماعت کا خاتمہ ہوگیا۔ ان مجرموں کے مزید ظلم و زیادتی سے رعایا کی حفاظت و سلامتی کو یقینی بنایا گیا اور حکومت کو فلاح و بہبود کے دیگر اقدامات کی طرف توجہ دینے کا موقع ملا۔
بیوپاری اجناس کی مصنوعی قلت پیدا کرکے یا آپس میں سٹہ کھیل کر اناج کو مہنگا کردیا کرتے تھے۔ اناج کی مہنگائی سے رعایا کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور سٹہ کھیلنا اخلاقی برائی تھی۔ اس لئے اس کی روک تھام کیلئے حکومت نے حسب ذیل اشتہار مورخہ 25 شوال 1293ھ م یکم ڈسمبر 1856ء جاری کیا۔ ’’بازاروں میں بیوپاری غلے کے نرخ کے اضافے کے لئے خود آپس میں سٹہ کھیلتے ہیں۔ یعنی اناج کی موجودگی کے بغیر ایک کے بعد دیگر خاص نرخ مقرر کرکے فروخت کرتے ہیں۔ یہی اناج کی مہنگائی اور بیوپاریوں کے لئے نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ اس وجہ سے اعلان عام کیا جاتا ہے کہ اگر آئندہ کوئی بیوپاری اس طریقے پر دوبارہ عمل کرے گا تو حکومت کی جانب سے سخت بازپرس کی جائے گی۔
متذکرہ بالا اصلاحات اور تینوں اشتہارات سالار جنگ اول کے دور مدارالمہامی (1853ء تا 1883ء) سے تعلق رکھتے ہیں۔ سالار جنگ اول کی مدار المہامی کا دور ریاست حیدرآباد کی تاریخ کا نہایت اہم دور ہے۔ انہوں نے ریاست کے مختلف شعبوں میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کے ذریعہ بدامنی کو دور کیا تھا اور ابتر نظم و نسق اور مالی بحران سے دوچار ریاست کو ہر اعتبار سے مضبوط و مستحکم ریاست میں تبدیل کردیا تھا۔
سالار جنگ اول کے دور مدارالمہامی میں ریاست حیدرآباد کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ اسی لئے یہ اشتہارات فارسی میں شائع اور تقسیم کئے گئے تھے۔ اس مضمون میں ان اشتہارات کا اُردو ترجمہ دیا گیا ہے۔
تذکرہ بالا اہم سماجی اصلاحات کے علاوہ ریاست حیدرآباد کے چھٹے حکمران میر محبوب علی خان آصف سادس (دور حکمرانی 1869ء تا 1911ء) کے عہد کے خاتمے تک چند دیگر سماجی برائیوں کے انسداد اور اصلاحات کے لئے بھی اہم اقدامات کئے گئے۔ ان میں سے ایک سماجی برائی کے انسداد کے لئے کئے گئے اقدامات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔
میر محبوب علی خان آصف سادس کے عہد میں حکومت کے علم میں یہ بات آئی کہ عرب اور روہیلے یہاں کی لڑکیوں اور عورتوں سے نکاح کرکے انہیں دوسرے ملکوں کو لے جاتے ہیں اور فروخت کردیئے ہیں۔ اس بارے میں تحقیقات کرکے تفصیلی رپورٹ ریاست کے وزیراعظم میر لائق علی خان سالار جنگ دوم (دور وزارتِ عظمیٰ 1884ء تا 1887ء) کے پاس پیش کی گئی جس پر ان کی جانب سے حکم جاری کیا گیا کہ عربوں اور روہیلوں کا حیدرآباد کی عورتوں سے نکاح کرنے کے بعد انہیں دوسرے ملکوں میں لے جاکر فروحت کرنا نہایت مذموم حرکت ہے۔ انہوں نے اس قسم کی سرگرمیوں کی سختی سے روک تھام کرنے اور اس قسم کی شادیوں پر کڑی نظر رکھنے کے لئے ضروری اقدامات کرنے کے احکام دیئے۔
میر لائق علی خان سالار جنگ دوم کی جانب سے شائع کردہ اشتہار (اعلان یا حکم) مورخہ 26 جمادی الاول 1303ھ م، 3 مارچ 1886ء فارسی میں تھا جس کا اُردو ترجمہ درج ذیل ہے۔
’’یہ بات حکومت کے علم میں آئی ہے کہ بعض عرب اور روہیلے اس ریاست میں رہنے والی لڑکیوں، عورتوں سے نکاح کرکے انہیں اپنے ہمراہ دوسرے ملکوں کو لے جاتے ہیں اور وہاں اپنی منکوحہ بیویوں کو فروخت کردیتے ہیں چونکہ یہ امر نہایت ناپسندیدہ اور مذموم ہے۔ اس لئے اس اشتہار (اعلان یا حکم) کے ذریعہ عوام کو اطلاع دی جاتی ہے کہ نکاح کرنے کی خواہاں لڑکیوں، عورتوں اور ان کے اولیاء کو بھی عربوں اور روہیلوں وغیرہ سے نکاح کے سلسلے میں احتیاط ملحوظ رکھنا ضروری ہے اور مناسب ہے کہ نائب دارالقضاء سے اقرار نامہ اور معتبر ضمانت نامہ حاصل کرنے تک کسی روہیلے یا عرب سے ہرگز نکاح کے لئے اقدام نہ کریں‘‘۔