غضنفر علی خان
طویل جدوجہد، سینکڑوں ہلاکتوں، قید و بند کی صعوبتوں، قربانیوں کے بعد ریاست تلنگانہ کا قیام عمل میں آ گیا ہے۔ 29 ویں ریاست کی حیثیت سے تلنگانہ ریاست قائم ہوگی۔ اس کے قیام کے لئے موجودہ چیف منسٹر مسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے پچھلے تقریباً 12 برسوں سے کشمکش، جدوجہد اور کوشش کی۔ 2 جون 2014ء سے ایک نئی تاریخ شروع ہوئی ہے۔ چیف منسٹر نے پہلا اقدام مسلم طبقہ کیلئے حوصلہ افزاء کیا۔ اس ریاست میں بہت سی باتیں ہیں جو بالکلیہ طور پر پہلی بار ہوئی ہیں۔ چندرشیکھر راؤ پہلی مرتبہ چیف منسٹر تلنگانہ بن گئے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ انہوں نے وعدہ پورا کرتے ہوئے ایک مسلمان کو نہ صرف ڈپٹی چیف منسٹر بنایا بلکہ جناب محمد محمود علی کو وزارت مال جیسا اہم قلمدان بھی سپرد کیا۔ اس طرح سے محمد محمود علی ریاست کی تاریخ کے پہلے مسلم ڈپٹی چیف منسٹر بن گئے۔ ان سے مسلم طبقہ نے بڑی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ ’’تکمیل ضابطہ‘‘ کے لئے ایک مسلمان کو کابینہ میں شامل کیا جاتا تھا اور عام طور پر وزارت اوقاف ان کے حوالہ کردی جاتی تھی گویا مسلمان وزیر نمائش اور دکھاوے کے لئے ہوتا تھا اور اس کو کسی اہم قلمدان کا اہل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ پہلی مرتبہ محمد محمود علی کو چیف منسٹر کے سی آر نے اپنا نائب مقرر کیا۔ حلف برداری کی تقریب میں بھی چیف منسٹر کے حلف کے بعد ڈپٹی چیف منسٹر ہی کا نام پکارا گیا۔
خوش آئند بات یہ بھی ہوئی کہ نائب وزیراعلیٰ (ڈپٹی چیف منسٹر) نے اردو میں اللہ عزوجل کے نام پر حلف لیا۔ چندرشیکھر راؤ نے علحدہ تلنگانہ تحریک کے دوران بارہا کہا تھا کہ وہ کسی مسلمان کو ڈپٹی چیف منسٹر بنائیں گے۔ یہ بھی پہلی بار ہوا کہ ’’کسی چیف منسٹر نے مسلم طبقہ سے کئے گئے وعدے کو پہلے ہی مرحلہ میں پورا کردیا۔ چیف منسٹر ہونے کے ناطے ان کے اور بھی وعدے ہیں مثلاً مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینا، ملازمتوں میں ان کا حصہ رکھنا، اوقافی جائیدادوں کو خردبرد سے محفوظ رکھنا، زبان اردو کو ترقی دینا وغیرہ وغیرہ۔ منشائے گفتگو یہ ہیکہ ابھی کئی وعدوں کی تکمیل کرنا ہے لیکن یہ بھی صحیح ہیکہ چیف منسٹر موصوف کو اپنے مشن کو پورا کرنے کے لئے مناسب وقت دینا ضروری ہے۔ مسٹر چندرشیکھر راؤ اچھے سیاست داں ہیں کوئی بازیگر یا جادوگر نہیں کہ جادوی چھڑی گھمائی اور مسائل حل کردیئے۔ چیف منسٹر اور ڈپٹی چیف منسٹر دونوں ہی کو یہ اندازہ ہونا چاہئے کہ وہ کسی مخصوص طبقہ کے نہیں بلکہ تلنگانہ کے لگ بھگ 4 1/2 کروڑ عوام کے نمائندہ ہیں۔ انہیں وراثت میں کئی مسائل بھی آئے ہیں۔ ریاست کی تقسیم کے بعد تلنگانہ کے وسائل اور ذرائع بھی کم ہوگئے ہیں جو مسائل متحدہ آندھراپردیش میں تھے تو ان کے حل کے لئے مناسب ذرائع بھی تھے۔ اب وسائل کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام کوئی آسان نہیں ہے۔ بڑے حوصلہ اور ہمت سے ریاست تلنگانہ کو سنبھالنے میں کافی وقت لگ جائے گا۔ جہاں تک تلنگانہ کی اس نئی حکومت کا تعلق ہے اس میں شامل وزراء کو حکومت چلانے کا تجربہ بھی کم ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر کئی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ انہیں حکومت سازی بھی آتی ہے اور سرکار چلانے کے فن سے بھی واقف ہیں۔ نئے کابینی وزراء کو ان کے دیرینہ تجربہ سے خود کچھ سیکھنا چاہئے۔
ریاست کا نظم و نسق بہتر ہوگا یہ توقع اس لئے کی جاسکتی ہیکہ چیف منسٹر موصوف کے علاوہ علاقہ تلنگانہ سے پوری طرح واقف بیورو کریٹس حکومت کے ساتھ ہیں جن کا انتخاب بڑی حد تک خود چیف منسٹر نے کیا ہے۔ یہ بات مثبت ہوئی کہ آئی اے ایس اور آئی پی ایس اور دیگر کیڈر کے عہدیداروں کے انتخاب میں چیف منسٹر کے سی آر کا بڑا دخل رہا ہے۔ اس لئے یہ توقع کی جارہی ہیکہ ایڈمنسٹریشن چلانے میں انہیں کوئی دقت نہیں ہوگی۔ پہلے چیف منسٹر کی حیثیت سے وہ نئی ریاست تلنگانہ کی تاریخ پر اپنے نقوش یقیناً چھوڑ سکتے ہیں۔ ان سے امید بھی یہی ہیکہ جس ریاست کے قیام میں انہوں نے انتھک جدوجہد کی اس کی آبیاری میں وہ کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ ان سب امکانات کا دخل رہے گا۔ ایک اور اہم بات یہ ہیکہ چیف منسٹر کے سی آر اپنی پارٹی تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے تمام 63 منتخبہ ارکان اسمبلی کو تو وزارتیں نہیں دے سکتے تھے۔ اس لئے کابینہ کی ابتدائی تشکیل کے بعد ظاہر ہیکہ کئی ایسے ایم ایل ایز ہوں گے جنہیں مایوسی ہوں گی۔ یہ ارکان آج بھی وزارت کے خواہاں ہوں گے۔ ان میں کوئی ایسا طاقتور تو نہیں کہ کے سی آر کے خلاف علم بغاوت بلند کرے لیکن دل میں ایک خلش ضرور ہوگی جس کا چیف منسٹر کو خیال رکھنا پڑے گا۔ فی الحال جو وزارتیں دی گئی ہیں وہ ناکافی ہیں۔ اتنی بڑی ریاست کے لئے اور وزراء چاہے یقینی طور پر چیف منسٹر اپنی کابینہ میں توسیع کریں گے اس لئے مایوسی کے شکار ایم ایل ایز کو ناامید ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ان کا مقصد کابینی درجہ کا وزیر بننا ہی تھا تو یہ بہت چھوٹی بات ہے۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایک مقصد ایک تحریک کے لئے کام کیا انہیں کشادہ دلی سے سوچنا چاہئے۔ بہرحال یہ تو تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کا داخلی مسئلہ ہے۔ اس پر اپنے تدبر اور حکمت عملی سے چیف منسٹر قابو پالیں گے۔
جناب محمد محمود علی کے علاوہ پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے ایک اور لیڈر کو بھی ڈپٹی چیف منسٹر کا عہدہ دے کر چیف منسٹر نے بیک وقت اقلیتی طبقہ اور پسماندہ طبقات کو اعتماد میں لیا ہے۔ یہ آگے چل کر خوش آئند ثابت ہوگا۔ عوامی سطح پر اپنی حلف برداری کے بعد پہلی تقریر میں انہوں نے سرکاری ملازمین کو بھی خصوصی increment دے کر انہیں خوش کردیا ہے اس کے لئے انہیں میڈیکل ایڈ اور علاج معالجہ کی سہولت کا وعدہ کرکے سرکاری ملازمین جیسے اہم طبقہ کا بھی چیف منسٹر نے اعتماد حاصل کیا ہے۔ اقلیتیں، پسماندہ طبقات، سرکاری ملازمین ایسے طبقات ہیں جس کی ضرورتیں پوری کرکے ہی کوئی حکومت ثابت قدمی سے کام کرسکتی ہے اور یہی چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ نے کیا ہے شروعات تو بہت حوصلہ افزاء ہیں امید کی جاسکتی ہیکہ کارکردگی بھی حوصلہ افزاء رہے گی۔ انگریزی زبان کا ایک مقولہ ہیکہ ’’جس کام کا آغاز اچھا ہوتا ہے گویا وہ کام آدھا تکمیل ہوجاتا ہے‘‘۔ یہ قول ریاست تلنگانہ کی کے سی آر حکومت پر صادق آتا ہے۔ مسلم طبقہ اور سارے ریاستی عوام کو انتظار کرنا ہوگا کہ کتنے دنوں، مہینوں یا برسوں میں یہ حکومت ان کی امیدوں کو پورا کرے گی۔ تلنگانہ کی ریاست اپنی گنگاجمنی تہذیب کے لئے بھی خاص شہرہ رکھتی ہے۔ آج سے نہیں بلکہ ماضی قدیم میں بھی یہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی مثالی نوعیت کی رہی ہیں۔ یہی ہمارا مشترکہ تہذیبی اثاثہ ہے جس کی حفاظت نئی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن یہ صرف حکومت ہی کی ذمہ داری نہیں دونوں عوام کو بھی اپنی مشترکہ تہذیبی اثاثے کی حفاظت کرنی چاہئے۔ تلنگانہ کا علاقہ ہمیشہ مذہبی منافرت اور تنگ نظری سے پاک رہا ہے۔ یہ خصوصیت ہر دور میں تھی اور اب ریاست تلنگانہ کے وجود میں آنے کے بعد اس تہذیبی ورثہ کا تحفظ اور اس کو پروان چڑھانے کا کام نئی حکومت کا ہے۔ کروڑہا عوام نے علحدہ تحریک تلنگانہ کا ساتھ دے کر اس کو کامیاب بنایا۔
اسکامیابی کو اپئے تکمیل تک پہنچانے کیلئے عوام کو اسی طرح مل جل کر جدوجہد کرنی پڑے گی۔ اقلیتی طبقہ کو بھی سمجھنا چاہئے کہ ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے یہ عہدہ حاصل کرنے کا اعزاز پہلی مرتبہ حاصل کیا ہے۔ انہیں بھی کام کرنے کا مناسب موقع دیا جانا چاہئے۔ شکر ہیکہ اوقاف کا قلمدان ان کے سپرد نہیں کیا گیا بلکہ چیف منسٹر نے اقلیتوں، پسماندہ طبقات کے تمام امور براہ راست اپنی نگرانی میں رکھے ہیں۔ اب امکان ہیکہ محکمہ اوقاف کی کارکردگی بہتر ہوگی اور وہ شکایتیں جو دیرینہ ہیں اور بجا بھی ہیں چیف منسٹر کی نگرانی کی وجہ سے مسلم عوام کو نہیں ہوں گی۔ ریاست تلنگانہ میں ایک اور قابل غور بات یہ ہوئی ہیکہ قیام تلنگانہ کے ساتھ ہی ریاست میں ایک طاقتور سیاسی خاندان ’’کے سی آر‘‘ ابھر گیا ہے۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ، ان کے صاحبزادے کے ٹی آر، ان کی صاحبزادی کویتا اور ان کے بھانجے ہریش راؤ نے زبردست انتخابی کامیابی حاصل کی ہے۔ تحریک تلنگانہ کے دوران بھی اس خاندان نے بے حد جرأتمندی اور ثابت قدمی سے جدوجہد کی۔ بہت کم ایسا ہوتا ہیکہ کسی خاندان کے افراد کسی ریاست کے علاقہ کی سیاست میں اتنی کامیابی حاصل