ریاستوں کے مفادات اور مرکز

اکیلے خود وہ مقابل ہمارے کیا ہوتے
ہمارے بھی ہیں وفادار ہاتھ میں اُن کے
ریاستوں کے مفادات اور مرکز
قومی سیاست کو ان دنوں منافع بخش کاروبار بنادیا گیا ہے۔ یہ ان لوگوں کے لئے شاندار پیشہ ہے جو صرف لینا جانتے ہیں دینا کچھ نہیں چاہتے۔ مرکز کی موجودہ حکومت کے بارے میں علاقائی سیاستدانوں کا بھی یہی خیال قوی ہوتا جارہا ہے کہ یہ حکمراں صرف لینا جانتا ہے دینا نہیں۔ شیوسینا سے لیکر تلگودیشم تک مرکز کی بی جے پی حکومت کے رویہ سے ناراض ہیں۔ آندھراپردیش کے چیف منسٹر این چندرا بابو نائیڈو نے جب اپنی پارٹی کے دو مرکزی وزراء کے استعفیٰ کا اعلان کیا تو یہ سمجھا جارہا تھا کہ وہ این ڈی اے سے بھی علحدہ ہوجانے کا فیصلہ کریں گے لیکن فی الحال وہ ایک ناخوشگوار دوری کے ساتھ پارلیمنٹ میں حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ آندھراپردیش کو خصوصی موقف دینے کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر چندرا بابو نائیڈو نے مرکز پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ نائیڈو نے مرکز سے دوری کی عارضی حد مقرر کرلی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حد سے نکلنے پر بھی ان کے لئے کوئی سیاسی فائدہ ہونے والا نہیں ہے لہٰذا مرکز کو صرف دباؤ میں رکھا جائے۔ اگر نائیڈو بالفرض این ڈی اے سے علحدہ بھی ہوجاتے ہیں تو نفع و نقصان کا ان کو انتخابات تک علم نہیں ہوسکے گا اسی لئے چندرا بابو نائیڈو نے سیاسی چالاکی سے بی جے پی کے ساتھ عملی تعلقات کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب وہ کچھ دن تک اپنے رائے ہندوں کو یہی باور کراتے رہیں گے کہ ریاست آندھراپردیش کے حق میں انہوں نے اپنی جانب سے جو کچھ کرسکتے تھے کیا ہے۔ یہ تو بی جے پی اور وائی ایس آر کانگریس پارٹی ہے جنہوں نے آندھرا کے عوام کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے۔ آندھراپردیش کے ساتھ اب ان سیاسی پارٹیوں نے خودغرضانہ سیاست شروع کردی ہے۔ تلگودیشم یہ ظاہر کرے گی کہ بی جے پی نے اپنے وعدوں کو پورا نہیں کیا۔ ریاست کو خصوصی موقف دینے میں اس پارٹی کے ٹال مٹول نے تلگودیشم کو مودی حکومت سے اپنے وزراء کو علحدہ کرنے کیلئے مجبور ہونا پڑا۔ آندھراپردیش کیلئے ایک دارالحکومت کی تیاری اور دیگر عوامی اسکیمات پر عمل آوری کیلئے خصوصی فنڈس کی ضرورت ہوتی ہے اور مرکز ہی فنڈس کی فراہمی کا اہم وسیلہ ہے لیکن جب مرکز سے توقع ہی اٹھ چکی تو تلگودیشم کے سامنے ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ این ڈی اے سے دوری اختیار کرے مگر اس فیصلہ میں بھی نائیڈو نے سیاسی ترکیب سے کام لیاہے۔ اب بی جے پی بھی تلگودیشم کی جانب سے چلی گئی چال کی منفی تشہیر کرتے ہوئے سوشیل میڈیا کے ذریعہ نائیڈو کو بدنام کرنے کی کوشش کرے گی۔ بی جے پی جانتی ہے کہ سوشیل میڈیا کا استعمال کس طرح کیا جاتا ہے مگر بی جے پی کیلئے نقصاندہ بات یہ ہیکہ آندھراپردیش میں اس کا کوئی مضبوط کیڈر نہیں ہے۔ اس علاقہ میں کمزور پارٹی کی حیثیت سے وہ تلگودیشم کا مقابلہ کرسکے گی یہ ممکن نہیں ہے مگر این ڈی اے کی اتحادی پارٹیوں کی ناراضگی سے بی جے پی کو کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے تو 2019ء کے انتخابات میں وہ بغیر اتحاد کئے ہوئے مقابلہ کرے گی۔ آندھراپردیش بی جے پی یونٹ کے صدر کے ہری بابو کو اس بات کا یقین ہے کہ تلگودیشم کی علحدگی کے بعد بی جے پی کو آندھراپردیش میں اپنے سیاسی عزائم مضبوط و وسیع کرنے میں مدد ملے گی لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب آندھراپردیش کے عوام بی جے پی کو خاطر میں لائیں۔ اس وقت جنوبی ہند میں بی جے پی کیلئے کوئی لہر دکھائی نہیں دیتی اسے یہاں اتحادی جماعتوں کا سہارا ضروری ہوگا۔ وزیراعظم مودی کا سحر بھی ماند پڑنے لگا ہے۔ ایسے میں علاقائی پارٹیوں کو اپنی ریاستوں کے مفادات کی حفاظت کرنے کیلئے میدان عمل میں آنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ نائیڈو اسی ضرورت کے تحت این ڈی اے کے ساتھ اپنی دوستی کی دہائی دے کر خصوصی موقف حاصل کرنا چاہتے تھے مگر وہ ناکام رہے۔ اب اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے ان کے نزدیک مودی حکومت کے خلاف ناراضگی کا مظاہرہ کرنا ضروری تھا تاکہ عوام کو یہ بات معلوم ہوجائے کہ تلگودیشم نے آندھراپردیش کیلئے ہر سطح پر کوشش کی ہے۔ گذشتہ چار سال سے مودی حکومت کی اندھی عقیدت میں انہوں نے ریاست کا نقصان کیا ہے بلکہ نائیڈو نے این ڈی اے حکومت کی ہر بات اور ہر فیصلہ کی حمایت کی۔ جی ایس ٹی اور نوٹ بندی جیسے تلخ فیصلوں کی بھی انہوں نے تائید کی تھی لیکن اس کے عوض انہیں ریاست آندھراپردیش کے لئے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا اور وہ سال 2017ء تمام وزیراعظم مودی سے ملاقات کا وقت طئے کرنے میں بھی ناکام ہوتے رہے جبکہ مودی نے نائیڈو کے سیاسی حریف وائی ایس جگن موہن ریڈی کو ملاقات کا وقت دیا۔ یہ ایک ایسا جھٹکہ تھا جس کو نائیڈو برداشت نہیں کرسکے مگر اب جو کچھ فیصلہ کیا گیا اس کے بعد کا اصل مرحلہ تو ابھی درپیش ہے جس کیلئے نائیڈو کو مکمل تیاری کرنی ہوگی۔ علاقائی سیاسی میدان میں اپنی بالادستی قائم رکھنے کیلئے ایک فعال پالیسی و حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی۔
امریکہ ۔ شمالی کوریا میں قربت !
عالمی سیاست میں اصولی اختلافات ہوتے ہیں تو اس پر غوروفکر کے ساتھ مسائل حل کرلئے جانے کی کوشش ہوتی ہے۔ مروت کی جگہ جب نفرت اور عداوت کو بڑھاوا دیا جاتا ہے تو جنگ چھڑ جاتی ہے۔ امریکہ نے نفرت عداوت کے ذریعہ کئی مسلم ممالک کے ساتھ تصادم کی راہ اختیار کی لیکن جب یہی نفرت اور عداوت کا پلڑا کسی دوسرے ملک کے سامنے کمزور پڑجائے تو یہ صورتحال امریکہ کیلئے دیدنی ہوتی ہے۔ آج امریکہ اسی صورتحال سے دوچار ہے۔ مسلم ممالک کو آنکھیں دکھانے والا امریکہ شمالی کوریا کے سامنے بھیگی بلی بنا کھڑا نظر آرہا ہے۔ یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے صدر کم جونگ اُن سے ملاقات کرنے کی حامی بھری ہے۔ ان دونوں قائدین کی ملاقات کی کوشش دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اور تلخیوں کو کم کرنے کیلئے ہے۔ شمالی کوریا کی نیوکلیئر صلاحیتوں کے آگے امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑا تو یہ سمجھا جائے کہ عالمی سطح پر طاقت کا محور بدل رہا ہے۔ بہرحال صدر امریکہ اور صدر شمالی کوریا کی ملاقات کی تیاریاں ایک نئی تبدیلی کی جانب اشارہ کررہی ہیں۔ چین کو اس ملاقات سے درپردہ طور پر کچھ تحفظ ذہنی ہوسکتا ہے پھر بھی اس سے شمالی کوریا کی امریکہ کے ساتھ پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنے میں چین کو بھی فائدہ ہے۔ جنوبی کوریا کے صدر نے حال ہی میں اولمپک مقابلوں کے موقع پر صدر امریکہ اور صدر شمالی کوریا کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کی تھی۔ گذشتہ ماہ سیول میں منعقدہ اولمپک کھیلوں کے موقع پر صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی دختر ایوانکا ٹرمپ نے جنوبی کوریا کا دورہ کرتے ہوئے اس تقریب میں شمالی کوریا کے کھلاڑیوں کی ستائش کی تھی۔ دشمنی کو بالائے طاق رکھ کر جب یہ دو کٹر حریف ملک باہم دوستی کی جانب قدم اٹھارہے ہیں تو یہ ایک بہتر تبدیلی متصور ہوگی۔ جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان نے امریکہ اورشمالی کوریا کو قریب لانے میں پیشرفت کی اور ذاتی طور پر شمالی کوریا کے صدر کم کی بہن سے خواہش کی تھی کہ وہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کریں۔ بہرحال شمالی کوریا کے صدر کے ساتھ صدر ٹرمپ کی مذکورہ ملاقات پر ساری دنیا کی نظریں مرکوز ہیں۔ اسی طرح عالمی سطح پر اگر اندازخاص و عام بدلنے کی فکر ہے تو عالم اسلام میں اختلافات کو ہوا دینے والے نظام ابتری کو بدلنے کی فکر کرنا اسلامی ممالک کے ذمہ داران کی ذمہ داری ہے۔