رہبر ہو تو منزل کا پتہ کیوں نہیں دیتے

کرن بیدی بی جے پی میں …مخفی ذہنیت بے نقاب
ناموس رسالت پر سناٹا… غیرت ایمانی کہاں گئی

رشیدالدین

نظم و نسق اور بالخصوص آل انڈیا سرویسز میں آر ایس ایس اور سنگھ پریوار ذہنیت کے حامل عناصر کی موجودگی کوئی نئی بات نہیں۔ اس طرح کی ذہنیت کسی نہ کسی موقع پر آشکار ہوجاتی ہے۔ ملک کی پہلی خاتون آئی پی ایس کا اعزاز رکھنے والی سابق پولیس عہدیدار کرن بیدی کے بارے میں کسی کے شان و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کسی مرحلہ پر فرقہ پرست طاقتوں کی تائید کریں گی لیکن پولیس سرویس کا 40 سالہ طویل تجربہ رکھنے والی اس عہدیدار نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ 40 برس تک وہ اپنی ذہنیت کو چھپائے ہوئی تھیں اور دہلی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو ان کی ضرورت محسوس ہوئی تو کرن بیدی نے سیکولرازم اور کرپشن مخالف مہم کا لبادہ اتار پھینکا اور اپنی اصلیت ظاہر کردی۔ ملک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کی وظیفہ کے بعد آر ایس ایس اور بی جے پی میں شمولیت کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ فوج ، سیول اور پولیس سرویسز کے علاوہ دیگر اہم محکمہ جات سے وابستہ اہم شخصیتیں سابق میں آر ایس ایس میں شامل ہوچکی ہیں۔ ہندوستانی مسلح افواج کے سربراہ جنرل وی کے سنگھ نے کرپشن کے خلاف جدوجہد میں انا ہزارے کا دامن تھاما تھا لیکن گزشتہ عام انتخابات سے قبل وہ بی جے پی میں شامل ہوگئے اور اب مرکزی وزارت میں ہیں۔ فوج اور آل انڈیا سرویسز میں فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والے افراد موجود ہوں تو عوام سے یکساں سلوک کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔

اعلیٰ سرویسز میں دستور اور قانون کی پاسداری کا عہد لیا جاتا ہے لیکن اس طرح کی ذہنیت سے کیا امید کی جائے گی کہ وہ قانون اور دستور کی بالادستی قائم رکھیں گے۔ ’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘ کے مصداق حقوق انسانی اور ناانصافیوں کے خلاف جدوجہد کا ناٹک کرتے ہوئے بھولے بھالے عوام کو بے وقوف بنانے والی کرن بیدی دہلی کی چیف منسٹر کا خواب سجاکر انتخابی میدان میں کود پڑی ہیں۔ پتہ یہ چلا کہ نظم و نسق میں 40 سال کیوں نہ ہوجائیں لیکن ذہنیت تو وہی زندہ رہتی ہے، جس کی بنیاد رکھی گئی۔ کرن بیدی کی بی جے پی میں شمولیت پر سیکولر طاقتیں بھلے ہی حیرت میں ہوں لیکن آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے نظریہ سے کرن بیدی نے صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرتے ہوئے بی جے پی کے حق میں ’’ماسٹر اسٹروک‘‘ کھیلا ہے۔ نئی دہلی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو کسی ایسے چہرہ کی تلاش تھی جو اروند کجریوال کو ٹکر دے سکے کیونکہ وہ دیگر سیاسی قائدین کے مقابلہ کلین امیج کے باعث عوامی مقبولیت رکھتے ہیں۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں چیف منسٹر کے عہدہ کے امیدوار ڈاکٹر ہرش وردھن کی مرکزی کابینہ میں شمولیت کے باعث دہلی میں بی جے پی ان کا متبادل پیش کرنے کے موقف میں نہیں تھی۔ لہذا اپنے خفیہ ہمدرد کو ٹرم کارڈ کے طور پر میدان میں اتارا۔ اس طرح بی جے پی کی انتخابی مہم میں نہ صرف رنگ آگیا بلکہ اروند کجریوال کیلئے خطرہ بڑھ چکا ہے۔ دہلی کی گدی اب کجریوال کیلئے آسان نہیں کیونکہ انتخابی مہم جارحانہ فرقہ پرستی کے چنگل میں پھنستی دکھائی دے رہی ہے۔

بی جے پی نے ابھی تک کرن بیدی کو چیف منسٹر کے امیدوار کے طور پر پروجکٹ نہیں کیا لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ کجریوال کے مقابل وہی پارٹی امیدوار ہوں گی۔ عوام کو یاد ہے کہ کرپشن اور کالے دھن کے خلاف انا ہزارے کی مہم میں اروند کجریوال کے ساتھ جنرل وی کے سنگھ اور کرن بیدی بھی شریک تھے ۔ بابا رام دیو نے بھی آندولن میں حصہ لیا تھا لیکن انتخابات میں بی جے پی کی تا ئید کی تھی۔ کرسی اور اقتدار کا لالچ کسی بھی حد تک جانے کی ترغیب دیتا ہے، اس کا کھلا ثبوت جنرل وی کے سنگھ اور کرن بیدی ہیں۔ جس وقت اروند کجریوال نے سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے عام آدمی پارٹی قائم کی تو اس کی مخالفت کرنے والوں میں یہ دونوں پیش پیش تھے لیکن آج ان کے اصول کہاں گئے؟ دہلی کے پولیس کمشنر کے عہدہ پر فائز نہ کئے جانے سے ناراض ہوکر رضاکارانہ سبکدوشی اختیار کرنے والی کرن بیدی بی جے پی میں شمولیت کے بعد کہہ رہی ہیں کہ انہیں کسی عہدہ کی خواہش نہیں۔ ان کے دوہرے معیارات پر تلگو زبان کی کہاوت فٹ ہوتی ہے کہ ’’شیطان وید کا درس دینے لگے‘‘۔ خود کو گاندھیائی قرار دینے والی کرن بیدی اس پارٹی کا حصہ بن گئیں جو گاندھی جی کے قاتل کو دیش بھکت مانتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ انسان لاکھ ڈرامہ بازی اور دکھاوا کرلے ، اس کی اصلیت بدل نہیں سکتی۔ دہلی میں بی جے پی کا کوئی ایسا کارنامہ نہیں اور نہ ہی مودی حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ کی امید کی جاسکتی ہے ، لہذا ایک چھپے ہوئے مہرہ کو بے نقاب کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ دہلی میں اب ان دو شخصیتوں کا ٹکراؤ ہوگا جو کرپشن اور کالے دھن کے خلاف لڑائی میں ایک آواز تھے۔ بی ایس پی سربراہ مایاوتی دہلی میں درپردہ طور پر بی جے پی کی مدد کیلئے میدان میں کود پڑی ہیں۔ انہوں نے تمام 70 نشستوں پر مقابلہ کا اعلان کردیا ۔ آخر سیکولر ووٹ کی تقسیم کے ذریعہ وہ کس کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہیں؟

جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کی ملک بھر میں جاری سرگرمیوں کا ایک اور مظاہرہ کرناٹک میں دیکھنے کو ملا جہاں بی جے پی نے شیر میسور ٹیپو سلطان کی یوم پیدائش تقاریب کے سرکاری طور پر انعقاد کی مخالفت کی ۔ اتنا ہی نہیں بی جے پی نے انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہونے والے اس قومی ہیرو کو فرقہ پرست قرار دیتے ہوئے اپنی پراگندہ اور بیمار ذہنیت کا ثبوت دیا ہے۔ ٹیپو سلطان پر جبری تبدیلی مذہب اور میسور ریاست کو اسلامی ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش کا الزام ووٹ بینک سیاست کے سواء کچھ نہیں۔ تاریخ کے صفحات ٹیپو سلطان کی حب الوطنی ، انگریزوں کے خلاف مسلسل جنگ اور بہادری کے واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔ ان کی رعایا پروری اور مختلف انتظامی امور میں اصلاحات کو مورخین نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ فرقہ پرستی کے نشہ میں ڈوبے یہ متعصب ذہنیت رکھنے والے اس حقیقت سے کیا انکار کر پائیں گے کہ انگریز اپنے بچوں کو ٹیپو سلطان کے نام سے ڈرا کر سلاتے تھے۔ جب ٹیپو سلطان شہید ہوگئے تب انگریز ان کی نعش کے قریب جانے سے بھی گھبرا رہے تھے کہ کہیں شیر جاگ نہ جائے ۔

ظاہر ہے کہ جس ملک میں گاندھی جی کے قاتل دیش بھکت قرار دیئے جائیں وہاں ٹیپو سلطان جیسے مجاہد آزادی کو فرقہ پرست قرار دینا کوئی عجب نہیں۔ افسوس کہ فرقہ پرست طاقتوں کی ان سرگرمیوں پر سیکولر جماعتیں اور مسلم علماء و اکابرین خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ آخر ڈر اور خوف کی کیا وجہ ہے؟ اتنا ہی نہیں مسلمانوں کے مذہبی ، سیاسی اور سماجی رہنماؤں کو توہین رسالت اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے معاملہ پر بھی جیسے سانپ سونکھ گیا ہے۔ ناموس رسالت کے مسئلہ پر حمیت اسلامی اور غیرت ایمانی اگر نہیں جاگتی تو پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور عقیدت کے دعوؤں سے کیا حاصل ہوگا۔ حدیث مبارکہ کی روشنی میں کوئی بھی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اولاد ، والدین اور تمام انسانوں سے زیادہ اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہ ہو۔ اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں مذہبی رہنما اور مصلحان قوم اپنا محاسبہ کریں۔ مسلمانوں کی نمائندگی کے دعویدار اور ٹھیکیدار جماعتیں و تنظیمیں دراصل اصلاح معاشرہ قیادت بن چکی ہیں۔ ہر کسی کو اپنی دکان کی برقراری اور فنڈس کی فکر لاحق ہے۔ چند دن قبل ہی میلاد النبیؐ کے موقع پر دنیا کے مختلف حصوں اور ہندوستان بھر میں جلسوں ، جلوس اور دیگر پروگرام منعقد کرتے ہوئے حضور اکرمؐ سے محبت اور عقیدت کا اظہار کیا گیا لیکن ابھی ماہِ ربیع الاول ختم بھی نہیں ہوا کہ محبت و عقیدت کا جذبہ ماند پڑچکا ہے۔ کیا ہماری عقیدت اور محبت بھی صرف مقررہ تاریخ سے وابستہ ہوچکی ہے؟ عقیدت کا اظہار زبانی نہیں بلکہ عمل سے ہونا چاہئے۔ اگر دنیا بھر کے مسلمان اپنی زندگی میں سنتوں کو اختیار کرتے تو کسی گستاخ کی مجال نہیں تھی کہ وہ کارٹون تیار کرے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں پر بے حسی میں بلا لحاظ مسلک تمام رہنما ایک ہی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ فرانس کے ہفتہ وار چارلی ہیبدو نے گستاخانہ کارٹونس کی دوبارہ اشاعت کے ذریعہ عالمی سطح پر شر انگیزی کی ہے ۔

اس سے بڑھ کر تکلیف دہ حرکت کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ 58 مسلم ممالک میں سے سوائے ترکی کے کسی نے اس گستاخانہ حرکت کے خلاف آواز نہیں اٹھائی ۔ کسی بھی مسلم ملک کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ فرانس کے سفیر کو واپس کردیں یا پھر اپنے سفیر کو فرانس سے واپس طلب کرلیں۔ دنیا میں قیام امن کے دعویدار اقوام متحدہ کو اس گستاخی کی مذمت کرنی چاہئے تھی۔ تمام مذاہب کے احترام کی بات کرنے والے مغربی ممالک کی زبان پر تالے کیوں ہیں؟ جو ایک یہودی اور عیسائی عبادت گاہ پر حملہ کی صورت میں آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ مذہبی ، دینی اور ملی اداروں اور ان کے ذمہ دار جب ان کے مفادات پر ضرب لگتی ہے تو احتجاج کیلئے سڑکوںپر نکل آتے ہیں لیکن ناموس رسالت کے مسئلہ پر جمہوری انداز میں احتجاج کیلئے بھی تیار نہیں۔ تمام جماعتوں کے دفاتر دہلی میں ہیں لیکن کسی نے فرانس کے سفارت خانہ کو احتجاجی یادداشت حوالہ کرنا توکجا بذریعہ فیکس یا پوسٹ روانہ کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔ ایک قومی نیوز چیانل نے بھی متنازعہ کارٹونس دکھائے لیکن اس پر بھی کسی مسلم نام نہاد قومی قیادت نے آواز بلند نہیں کی۔ کہاں ہے وہ دہلی کے شاہی امام اور جمیعت العلماء کے دونوں گروپ جو ہمیشہ حکومت اور سیاسی جماعتوں کی راہداریوں میں دکھائی دیتے ہیں؟ جب ناموس رسالت کے مسئلہ پر مذہبی ، دینی اور ملی قیادتوں اور جماعتوں کی یہ بے حسی ہو تو پھر روز محشر کس صورت سے شافع محشر کا سامنا کریں گے ؟ بے حسی کی اس صورتحال پر ہمیں بے ساختہ احمد فراز کا یہ شعر یاد آگیا ؎
رہزن ہو تو حاضر ہے متاع دل و جاں بھی
رہبر ہو تو منزل کا پتہ کیوں نہیں دیتے