رہبرِ انسانیت زاہد علی خان صاحب

نسیمہ تراب الحسن
روزنامہ سیاست سے میرے میکہ والے اور سسرالی دونوں وابستہ رہے لہذا اس سے انسیت میری روح کی گہرائیوں میں سرایت کرچکی ہے پھر عمر کے ساتھ اس سے لگاؤ گہرا ہوتا گیا ۔ صحافت اور اخبار کی خوبیوں میں سیاست کے تذکرے رہتے ، عابد علی خان صاحب کی باتیں ہوتیں کہ کس طرح انہوں نے اپنے نوابی ٹھاٹ باٹ سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور اہل خاندان کی مخالفت کو نظر انداز کردیا ۔ جاگیرداریت کی شان و شوکت سے انحراف کیا اور معاشرے کو ذمہ دار بنانے کیلئے روزنامہ سیاست کی بنیاد ڈالی ۔ چونکہ اس زمانے میں اردو صحافت سارے ملک میں سنسنی خیزی اور اشتعال انگیزی کا شکار تھی ، معاشرے میں افراتفری کی فضا چھائی تھی ۔ عابد علی خان پیدا تو ہوئے تھے ایک ایسے خاندان میں جہاں کسی طرح کی فکر و پریشانی کا سایہ بھی نہ تھا ۔ ننھیال و ددھیال اعلی جنگ الدولہ ، نظام دکن کی شاہی حکومت سے روابط رکھنے والے اجداد لیکن دل بڑا حساس پایا تھا ۔ انہیں قدامت پرستی اور جہالت سے بیر تھا ، چنانچہ انہوں نے تعلیم اور محنت مشقت سے ناطہ جوڑ لیا ۔ یہ وہ دور تھا جب کہ دنیا بھر کے نوجوان ترقی پسند اور امن دوستی کی تحریکوں سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ ان میں جوش و خروش سے حصہ لے رہے تھے ۔ میر حسن، سجاد ظہیر ، کیفی اعظمی کی کارکردگی سے متاثر ہو کر عابد علی خان ان کے ساتھ ہوگئے ۔ اسی زمانے میں قاضی عبدالغفار صاحب کا اخبار ’’پیغام‘‘ سب کی نگاہوں کا مرکز تھا ۔ انہوں نے قاضی عبدالغفار صاحب کی صحبت میں صحافت کا سبق سیکھ لیا ۔ اپنے عزیز دوست محبوب حسین جگر کا ہاتھ تھاما اور اللہ کا نام لے کر ’’سیاست‘‘ کی اشاعت شروع کردی ۔ اپنا خون پسینہ بنا کر اور اپنے ساتھی کے خون جگر سے اخبار کو پروان چڑھایا۔ خدا تو جانتا ہی ہے لیکن اہل حیدرآباد بھی عابد علی خان کی جانفشانی کے قائل ہوگئے ۔ سب کے دلوں پر ان کی جد و جہد ، استقامت ، اولوالعزمی اور قابلیت کا سکہ بیٹھ گیا ۔ دن گذرتے گئے ، سیاست کے مداحوں میں اضافہ ہوتا گیا ۔ کیوں نہ ہوتا اس میں سیاسی تجزیے ، سماجی مشکلات ، اخلاقی مسائل ، دینی معلومات اور ادبی مضامین ، تہذیب و تمدن کی حکایتیں ، قومی یکجہتی سبھی کی عکاسی ، الغرض قارئین کے دل جیتنے کیلئے سب کچھ موجود تھا ۔ ظاہر ہے مقبولیت لازمی تھی۔

عابد علی خان صاحب کہاں اور میں کہاں ، مختلف محفلوں میں ملاقات ہوتی تو سلام ہی ایک ذریعہ تھا ، لیکن جگر صاحب سے بہت دفعہ بات چیت ہوئی ۔ مجھے لکھنے کا شوق تو اسکول ، کالج کے زمانے سے تھا مگر اپنے پر اعتماد نہ تھا ، میری ٹیچر زینت ساجدہ نے رائے دی کہ اپنے مضامین سیاست میں دیا کرو ۔ استاد کا کہا کیسے ٹالتی ۔ ایک دن ہمت کرکے سیاست کے دفتر کی سیڑھیاں چڑھ گئی ۔ جگر صاحب نے خندہ پیشانی سے بلا کراپنے پاس بٹھایا ۔ شفقت کا پیکر ، خلوص سے گفتگو نے دل کو سہارا دیا ۔ جب اخبار میں اپنا مضمون دیکھا تو بڑا سکون ہوا ۔ میں کوئی ایسی لکھنے والی نہیں تھی لیکن جگر صاحب کی ہمت افزائی نے مجھے ہی نہیں ، نہ جانے کتنے لوگوں کوآگے بڑھنے کا موقع دیا ۔ ہر بار ان سے ملنے کے بعد ان کی علم دوستی ، ملنساری ، اردو ادب سے سچی لگن کے جذبات واضح ہوجاتے ۔ ان کے نزدیک اپنے پرائے یکساں تھے ۔
یہ بات تو ہر خاص و عام کی زبان پر ہی نہیں دل کی گہرائی میں سمائی ہے کہ عابد علی خان اور محبوب حسین جگر روزنامہ سیاست کے دو ہاتھ تھے جو اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے میں ہر دم سرگرداں رہتے ۔ عابد علی خان صاحب کی زندگی اردو ، حیدرآباد اور روزنامہ سیاست کے مثلث پر مبنی تھی ۔ اردو کو انہوں نے ہندوستانی تہذیب کا ترجمان سمجھا ، حیدرآبادی تہذیب و تمدن کو بہترین اقدار کا خزانہ اور روزنامہ سیاست کو سماجی مسائل اور سیاسی کارناموں کا آئینہ بنانا ضروری جانا اور اس کے لئے اپنی آخری سانس تک اپنے دماغ اور قلم کی تمام صلاحیتیں صرف کردیں ۔ ان تمام مقاصد کو پورا کرنے میں جگر صاحب اور عابد علی خان ایک جان دو قالب بنے رہے ۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے بیٹے زاہد علی خان کو صحافت کے میدان کے نشیب و فراز سے روشناس کیا ۔ صحافت کی نظری اور عملی تربیت دے کر ایک ذمہ دار صحافی بنادیا تاکہ مستقبل میں صحافت کی اپنی وراثت اطمینان سے ان کے حوالے کرسکیں ۔

زاہد علی خان نے جب روزنامہ سیاست کی باگ ڈور سنبھالی تو اپنے والد کا چچا جگر صاحب کی جملہ روایات کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اپنی ذہانت سے موجودہ دور کے تقاضوں کے مدنظر بہت سی نئی اسکیموں کو شامل کرلیا۔ اس میں شک نہیں کہ زاہد علی خان کو سجا سجایا آفس ، تجربہ کار کام کرنے والا عملہ ملا تھا لیکن صحافت کھیل نہیں ، ہزار فتنے ، ہزار طرح نکتہ چینی اور قدم قدم پر معترض آوازیں زندگی کو دشوار بنادیتی ہیں ۔ یقینا عابد علی خان اور جگر صاحب نے روزنامہ سیاست کو سایہ دار شجر بنادیا تھا لیکن زاہد علی خان کی غیر معمولی اہلیت ، فنی آگہی ، بلند نگاہی اور انسان دوستی نے اس کو برگد کے درخت کے مماثل مضبوط جٹاؤں سے جڑا بنادیا ۔ باپ نے ویژن آف عثمانیہ بنایا تو بیٹے نے آئی ہسپتال بنا کر لوگوں کو ویژن دی ۔ پریس ملا تھا لیکن انٹرنیٹ ، ای میل سے اس کا رشتہ جوڑ دیا ۔ حیدرآباد ، مختلف ریاستوں ، اضلاع میں روزنامہ سیاست کی دھاک بیٹھ چکی تھی لیکن زاہد علی خان نے اس کو سات سمندر پار پہنچا کر بیرونی ممالک میں اپنے اخبار کی ساکھ قائم کردی ۔ ظاہر ہے کہ یہ زاہد علی خان کی قابلیت ہے کہ وہ اس زمانے میں مختلف فکری و فنی کارناموں پر نظر رکھتے ہیں اور اسی کے تحت مختلف نئی اسکیمیں بناتے جارہے ہیں ۔ عابد علی خان نے جو ایجوکیشنل ٹرسٹ بنایا جس سے اردو کے تحفظ و بقا و ترویج و ترقی کو نمایاں حیثیت حاصل ہوئی اس کی کارکردگی کا خاص اقلیتوں میں بالخصوص مسلمانوں میں حصول تعلیم کے جذبے کو فروغ دینے کی خاطر مختلف اسکالرشپ ، ٹریننگ اور دوسری سہولتیں بہم پہنچائیں ۔ محبوب حسین جگر کیریئر گائیڈنس ، انگلش اسپوکن کلاسس ، مختلف پیشہ ورانہ کورسیس جیسے ایمسیٹ ، بی یو ایم ایس ، مسلم طلباء کیلئے ٹریننگ ، آر پی ایف ملازمت کیلئے ٹریننگ کیمپس کا معقول انتظام ، کمپیوٹر کورس اور اس کی تربیت اور سب سے بڑھ کر ڈونیشن کے خلاف قدم اٹھانا روزنامہ ساست کے قابل قدر کارنامے ہیں ۔ اس کے علاوہ خواتین کے واسطے بیوٹیشن کورس ، فیشن ڈیزائننگ ، مختلف طرح کے پھول بنانا، گلدستے بنانا ، پکوان کی کلاسس ایسے فائدہ مند پروگرامس ہیں جس کے سہارے ہر سمجھدار انسان خود مکتفی ہو کر خوشحال زندگی بسر کرسکتا ہے ۔ الغرض زاہد علی خان انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے ہر طرح سے دست تعاون دراز کررہے ہیں ۔ چاہے وہ محتاج افراد ہوں ، بے کس و بے سہارا ہوں ، معاشی پریشانیوں کا شکار ہوں ، ظلم و ستم کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہوں یا کسی بھی طرح سے مالی امداد کے محتاج ہوں ۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملت کے سلگتے مسائل کی طرف دل سے توجہ دینا اور ان کو حل کرنا ہی زاہد علی خان کا وصف سمجھا جانا چاہئے ۔

زاہد علی خان کی ہمہ جہت اسکیمیں اور ان پر عمل آوری کا کینوس اتنا وسیع ہے کہ تفصیل لکھوں تو مقالہ ہوجائے گا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری آسانی سے مل جائے گی مگر مجھے ایک بات یاد آرہی ہے جو میرے دل میں کھٹکتی رہتی ہے ۔ میں نے ایک مشہور ہستی کے بارے میں مضمون لکھ کر ایک دانشور صحافی کو بھیجا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ سب باتیں بہت لوگ لکھ چکے ہیں۔ آپ کچھ الگ لکھ کر بھیجیں ۔اب اگر میں زاہد علی خان کے دوبدو پروگرام میں شادی کے رشتے کروانے کا لکھوں ، غریب بچیوں کی سونی ہتھیلیوں پر مہندی رچانے کا قصہ بتاؤں ، لاوارث نعشوں کی تجہیز و تکفین پر اظہار خیال کروں ، خواتین کے کینسر فنڈ کی بات چھیڑوں ، اخبار کی ردی سے فائدہ مند انوکھی اسکیم کی تعریف کروں ، لائبریری میں پرانی نایاب کتابوں اور مخطوطوں کی حفاظت کا قصیدہ پڑھوں  ، عالمی اردو کانفرنس کے کامیاب انعقاد کا تذکرہ کروں ، اردو ادب کے فروغ کیلئے مختلف طرح کے پروگرامس کی سرپرستی کا حال سناؤں یا شاعروں ، ادیبوں کی ہمت افزائی کی داستان بیان کروں یا پھر کاروان اردو وراثت کی ضیافت یاد کروں تو کونسا تیر مارنے کا سوال ہے ۔ یہ سب تو روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔ لیکن دو باتیں ایسی ہیں جو غالباً دوسروں کے لئے اہم نہ سہی میرے لئے ناقابل فراموش ہیں ۔ ایک تو یہ کہ زاہد علی خان کسی ادبی محفل کی صدارت کررہے تھے ۔ انہیں کہیں جانا ضروری تھا معذرت کرکے جانے لگے تو یہ کہا کہ میری جگہ نسیمہ تراب الحسن بیٹھیں گی ۔ میں تو دم بخود رہ گئی ۔ میں اس پر ناز کروں تو کیا بے جا ہوگا ۔ دوسرا قصہ بھی سن لیجئے ۔ ایک بڑے فنکشن میں زاہد علی خان صاحب اسٹیج پر تشریف فرما تھے اور میں سامعین میں بیٹھی تھی کہ ایک صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ زاہد علی خان کو لونگ چاہئے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ آپ کے پاس سے لے آؤ ۔ بات معمولی تھی مگر مجھے خوشی اس سے ہوئی کہ اتنے بڑے مجمع میں نہ جانے کتنے پان کھانے والے ان کے سامنے ہوں گے لیکن مجھ سے اتنی توقع رکھنا زاہد علی صاحب کا اپنی سوچ پر کامل یقین کا ثبوت ہے ۔ بہرحال یہ کہنا پڑتا ہے کہ لوگوں کے دل جیتنا آسان نہیں ۔ معاشرہ کی فلاح و بہبود کیلئے حتی الامکان اسکیمیں نہ صرف بنانا بلکہ انہیں روبہ عمل لاکر لوگوں کو سہولت پہنچانا ، حفظان صحت کی خاطر میڈیکل کیمپ کا انعقاد ، حج و عمرہ کی تربیت کا انتظام کرکے اپنے مقصد کو اطمینان اور واقفیت کیساتھ ادائیگی کی جانکاری دینا ، ایسی باتیں ہیں کہ لوگ زاہد علی خان کو رہبر انسانیت مانتے ہیں ۔ رفاہی ، فلاحی اسکیمیں جس میں فسادات ، سیلاب سے تباہ حال افراد کے لئے فنڈس جمع کرنا اور مستحق لوگوں تک پہنچانا بھی زاہد علی صاحب کا نصب العین بن گیا ہے ۔ زاہد علی خان کی دوررس نگاہیں معاشرے کی بگڑتی حالت کو سمجھ جاتی ہیں اور وہ اس کے سدھار کیلئے سوچ بچار کرکے قدم اٹھاتے ہیں ۔ نئی نسل کو کامیاب اور خود مکتفی بننے کا راستہ دکھاتے ہیں ۔ ان سب باتوں کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ روزنامہ سیاست ایک اخبار ہی نہیں ، قوم کو جگانے کا مسیحا ہے ۔ کیوں کہ اس میں شائع ہونے والے فکر انگیز مضامین اس کے گواہ ہیں کہ انہیں اصلاح معاشرہ کی کتنی فکر ہے ۔ انہوں نے اخبار میں سپلیمنٹ اور خصوصی ایڈیشن میں صحت سے جڑی مختلف پریشانیوں ، سماج میں فرسودہ رسم و رواج و روایتوں ، لین دین کے شرمناک طور طریقوں ، جھوٹی شان و شوکت کے بے جا مصارف کے متعلق نہ صرف دوسرے مفکرین کے خیالات شائع کئے بلکہ خود بھی بڑے موثر انداز سے مضامین لکھے ، جہاں انہوں نے دین اسلام کی خوبیوں ، احادیث اور مذہبی مضامین شائع کئے ، وہیں ادب سے بھی وابستہ رہے ۔ میرا کالم میں مجتبیٰ حسین کی طنز و مزاحیہ شگفتہ تحریریں دوسرے ادیبوں کے تنقیدی تحقیقی مضامین ، تبصرے ، ادبی ڈائری کی صورت دکھائی دیتی ۔ پرانی تہذیب جو حیدرآباد کو دوسرںو سے ممتاز بناتی ہے ان کی کہانیاں دلچسپ ، معلوماتی اور ادبی لحاظ سے سب کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اور روزنامہ سیاست کی زینت بنی ہوئی قارئین کیلئے موجود رہتی ہیں ۔ دقیق مضامین قدیم حیدرآباد کے مرقعے پڑھنے والوں کے دل ود ماغ کو تازگی بخشتے ہیں ۔ غزلیں ، نظمیں ،نعت ، حمد وثناء سے مرصع اخبار ، بین الاقوامی خبروں سے پڑھنے والوں کو مطمئن کردیتا ہے ۔ زاہد علی خان صاحب کی کارکردگی کا تذکرہ ایک مضمون میں سما جائے ممکن نہیں ، چنانچہ اتنا کہنا کافی ہے کہ روزنامہ سیاست کی مقبولیت اور زاہد علی خان کی عقل و فراست کا اندازہ اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ آج کل بڑی بڑی بین الاقوامی کانفرنسیس میں ان کی شرکت ضروری سمجھی جاتی ہے ۔ امریکہ ہو یا سعودی عرب کے عزت  مآب حکمراں زاہد علی خان صاحب سے اپنے پاس آنے کی درخواست کرتے ہیں ۔ کسی شخص کی قابلیت ، دانشمندی اور عظمت کا ثبوت اس سے زیادہ کیا ہوسکتا ہے ۔