رکن پارلیمنٹ کی ایک حلقہ کی تقریر چار حلقوں میں اثرانداز

بے باکی میں ہندوؤں کو متحد کردیا، یوپی میں بی جے پی مذہب کی بنیاد پر کامیاب
حیدرآباد۔12مارچ (سیاست نیوز) اتر پردیش انتخابات میں بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے مسلم امیدوار میدان میں اتارے جانے کے باوجود اسمبلی میں مسلم ارکان اسمبلی میں قابل لحاظ گراوٹ کے متعلق تجزیہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ریاست اتر پردیش میں سماج وادی اور بہوجن سماج کے ووٹ میں آنے والی گراوٹ کا سبب دلت کا ہندو بن جانا ہے۔ بتایاجاتا ہے کہ اترپردیش میں انتخابات کے دوران دلتوں اور پسماندہ طبقات کی بنیاد کے علاوہ اعلی ذات کی بنیادوں پر ووٹ ڈالے جاتے تھے جس کے سبب سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کا محفوظ ووٹ بینک ہونے کے ساتھ ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی کا اپنا محفوظ ووٹ بینک ہوا کرتا تھا جس میں شدت پسند ہندوؤں کی بڑی تعداد تھی۔ اسی طرح کانگریس کا اپنا نظریاتی ووٹ بینک بھی موجود تھا لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی نے اترپردیش انتخابات کی جو حکمت عملی تیار کی تھی اس کے مطابق بی جے پی کو صرف ان لوگوں کو نشانہ بنانا تھا جو ہندو ہوتے ہوئے شدت پسندی کا نظریہ نہیں رکھتے تھے اور سیکولر ذہن کے حامل تھے لیکن نفرت کی سیاست کے ذریعہ بی جے پی نے اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے دلت و پسماندہ رائے دہندوں کو ہندو بنانے میں کامیابی حاصل کرلی اور اس کے لئے مسلم سیاسی جماعتوں کی نفرت کی بیساکھی کا استعمال کیا گیا ۔ ریاست اترپردیش میں مقامی جماعت نے 36امیدوار میدان میں اتارے جن میں ایک کی ضمانت بچانے میں مقامی جماعت کو کامیابی حاصل ہوئی لیکن ان امیدواروں کی میدان میں موجودگی ہی حالات کوکشیدہ بنانے میں کارگر ثابت ہوئی۔ اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے سیاسی قائدین اب اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کس طرح جماعتکی موجودگی کے ذریعہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ووٹ کو مستحکم بنانے کی کوشش کی گئی۔ سماج وادی پارٹی قائدین نے بتایا کہ انتخابی مہم کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی نے عوام میں نفرت کی سیاست کے پرچار کے لئے 2012کی ایک اشتعال انگیز تقریر اور مقامی جماعت کے امیدواروں کیلئے مقامی جماعت صدر کے جلسوں اور خطابات کا حوالہ دیتے ہوئے سیکولر ذہن کے حامل اکثریتی رائے دہندوں میں خوف کا ماحول بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آگرہ سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر نے بتایا کہ جس جماعت نے اپنے آبائی مقام پر کبھی 36امیدوار میدان میں نہیں اتارے اس جماعت کی جانب سے اترپردیش میں 36امیدواروں کو میدان میں اتارنا اور 6 مرحلوں کے انتخابات کی تکمیل تک اپنے امیدواروں کیلئے بے اثر مہم کا چلایا جانا کس کے لئے بااثر ثابت ہوا یہ واضح ہوچکا ہے۔ مقامی جماعت نے جن 36حلقہ جات اسمبلی پر اپنے امیدوار میدان میں اتارے تھے ان میں 19نشستوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی اور ایک نشست پر بی جے پی کی حلیف اپنا دل کے امیدوار کو کامیابی حاصل ہوئی ۔ مابقی 16 نشستوں پر سماج وادی امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے جن میں 8مسلم ارکان اسمبلی ہیں۔ سیاسی مبصرین نے انتخابی نتائج کے متعلق بتایا کہ بی جے پی کوحاصل ہونے والی کامیابی کی وجوہات میں سب سے اہم وجہ اکثریتی طبقہ کے رائے دہندوں میں مذہب کی بنیاد پر رائے دہی کے احساس کا پیدا ہونا ہے اور اس احساس کو پیدا کرنے میں مقامی جماعت، بخاری کے علاوہ ڈاکٹر ایوب کی انتخابی مہم بھی رہی اور ان کو ڈھال بناتے ہوئے بی جے پی نے یہ تاثر دیا کہ مسلم متحدہ طور پر مذہب کی بنیاد پر ووٹ دیں گے اسی لئے اکثریتی طبقہ کو بھی دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بی جے پی کو کامیابی دلوانی چاہئے۔ اتر پردیش میں 36امیدواروں کو میدان میں اتارنے کے علاوہ ان کے لئے ہیلی کاپٹر میں انتخابی مہم کے متعلق بھی اب سوالات کئے جانے لگے ہیں اور خود اتر پردیش کے لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ انتخابی ماحول میں فرقہ واورانہ زہر گھولنے میں ان امور نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق بی جے پی نے ان حالات کا بہترین انداز سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے 36امیدواروں کے لئے کی گئی تقاریر کے ساتھ 2012کی تقریر کا اثر صرف 4دیگر اسمبلی حلقہ جات تک پہنچانے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔