روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش سے واپس لینے مائنمار کا بالآخر اتفاق

ورکنگ گروپ کی تشکیل کا فیصلہ، آنگ سان سوچی کے خصوصی نمائندے سے بنگلہ دیش کے وزیرخارجہ کی بات چیت
ڈھاکہ ۔ 2 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) مائنمار نے بالآخر اپنے ان پانچ لاکھ سے زائد روہنگیاؤں کو واپس لینے کی آج تجویز پیش کی جو فوجی کارروائی کے بعد سرحد عبور کرتے ہوئے بنگلہ دیش فرار ہوگئے تھے۔ اس دوران ان دونوں ملکوں نے اقلیتی مسلمانوں کی وطن واپسی میں تعاون و رابطہ کیلئے ورکنگ گروپ تشکیل دینے سے بھی اتفاق کرلیا۔ واضح رہیکہ بدھ اکثریتی مائنمار کی ریاست راکھین میں ایک پولیس چوکی پر روہنگیا مسلم عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیوں اور تشدد کے سبب گذشتہ پانچ ہفتوں کے دوران پانچ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ کیلئے پہنچ گئے تھے اور بنگلہ دیش انہیں واپس لینے کیلئے مائنمار سے بارہا مرتبہ اصرار کرچکا ہے۔ بنگلہ دیش کے وزیرخارجہ نے ایچ محمود علی نے مائنمار کی رہنما آنگ سان سوچی کے ایک سینئر نمائندے سے بات چیت کی۔ مائنمار کی اسٹیٹ کونسلر آنگ سان سوچی کے دفتر کے وزیر کیاؤٹنٹ سوئے سے بات چیت کے بعد محمود علی نے کہا کہ دونوں ملکوں نے روہنگیاؤں کی وطن واپسی کے عمل کی نگرانی کیلئے ایک مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دینے سے اتفاق کرلیا ہے لیکن اس کی ہیئت ترکیبی پر متعاقب فیصلہ کیا جائے گا۔ بنگلہ دیش کے وزیرخارجہ نے کہاکہ آنگ سان سوچی کے خصوصی نمائندہ سے پرامن اور ’’پرامن ماحول‘‘ میں بات چیت ہوئی اور پناہ گزینوں کی آسان و اطمینان بخش انداز مںی واپسی کا مجوزہ سمجھوتہ ان کے حوالہ کیا گیا۔ یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ اس بحران کی پرامن یکسوئی کیلئے عنان کمیشن کی رپورٹ روبہ عمل لائی جائے۔ محمود علی نے مزید کہا کہ ’’سلامتی تعاون پر بھی ثمرآور مذاکرات کئے گئے اور بنگلہ دیش نے ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف بنگلہ دیش کی موجودہ سخت ترین پالیسی کا اعادہ کیا۔ اس سوال پر کہ آیا مشترکہ ورکنگ گروپ کی تشکیل کیلئے کوئی پابند وقت لائحہ عمل مقرر کیا گیا ہے۔ محمود علی نے کوئی راست جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ’’عمل شروع ہوگیا‘‘ لیکن بنگلہ دیش کے وزیرداخلہ اسدالزماں خاں بہت جلد مائنمار کا دورہ کریں گے۔ شمالی ریاست راکھین میں 25 اگست کو مائنمار پولیس چوکی پر مبینہ دہشت گرد حملے کے بعد شروع کردہ فوجی کارروائی اور تشدد کے سبب لاکھوں روہنگیا مسلمان فرار ہوکر بنگلہ دیش پہنچ گئے ہیں جس کے ساتھ ہی بنگلہ دیش میں موجود روہنگیا پناہ گزینوں کی تعداد 800,000 ہوگئی ہے۔ اس تشدد کے نتیجہ میں نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی عالمی سطح پر سخت مذمت کی جارہی ہے اور انہیں شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ سوچی نے کہا کہ وہ 1993ء میں بنگلہ دیش کے ساتھ طئے شدہ سمجھوتہ کے تحت توثیق کا عمل شروع کرنے تیار ہے۔ علاوہ ازیں کسی مسئلہ کے بغیر تمام پناہ گزینوں کو واپس لیا جائے گا۔