اقوام متحدہ کی دل کو دہلادینے والی رپورٹ
اسٹیفنی نبیہے
میانمار کی ملٹری نے جس طرح مسلم روہنگیائی شہریوں کا قتل عام اور انسانیت سوز و انسانیت کو شرمسار کرنے والی اجتماعی عصمت ریزی کی ہے جس میں نسلی تطہیر اور نسل کشی بھی شامل ہے ۔ اقوام متحدہ کے تحقیقات کاروں نے اپنی مکمل تحقیقات کے بعد پوری ذمہ داری سے میانمار کے ’کمانڈر ان چیف ‘اور 5 جنرلس کو قانوناً ماخوذ کرنے کی سفارش کی اور کہا کہ انہوں نے باوجود اعلیٰ ترین قانونی عہدوں پر موجود رہنے کے اپنے ماتحت ملٹری کو ظلم و ستم کرتے ہوئے دیکھتے رہے اور انہیں حکماً روکا نہیں ۔ سیول حکومت جس کی قائد نوبل انعام یافتہ آنگ سون سوچی نفرت انگیز تقاریر جس سے معاشرہ میں نفرت کے بیج بوئے جارہے تھے ‘ جہاں ( قانونی) دستاویزات کو شعلہ بُرد کیا جارہا تھا ‘ جہاں رکھائین کا چن اور شان ریاستوں میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزریاں ببانگ دہل انجام دی جارہی تھیں ‘ روکنے میں صریح طور پر ناکام ثابت ہوئیں ۔ اس طرح سے وہ( آنگ سان سوچی ) نے ظلم و جرائم میں مدد و تعاون دینے کی مرتکب پائی گئیں ‘ رپورٹ میں یہ بات کہی گئی ۔ ایک برس قبل ‘ حکومت کے نمک خوار ظالم فوجیوں نے میانمار کی ریاست ’’ رکھائین ‘‘ میں انسانیت سوز بہیمانہ ظالمانہ اقدام اس بنیاد پر کئے کہ ان پر ’’ اراکان روہنگیا سالویشن آرمی‘‘ نے 30 پولیس پوسٹس اور ایک ملٹریبیس پر حملہ کیا تھا۔
اس بہیمانہ ظالمانہ اقدام کے نتیجہ میں تقریباً 7لاکھ روہنگیاؤں کو فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا اور اب وہ پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے خستہ حال کیمپس میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ جہاں ان کا ایک سال بھی مکمل ہوگیا ہے ۔ اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ ملٹری کی کارروائی جس میں دیہاتوں کو جلاکر خاکستر کرنے کے بشمول اصلاً ( روہنگیائی مسلمانوں کیلئے ) تحفظ و سلامتی کیلئے زبردست خطرہ متصور کیا گیا ۔
اقوام متحدہ نے نسل کشی اور نسلی تطہیر کے عمل کو قومی ‘ مذہبی ‘ نسلی گروپ وغیرہ کی مکمل یا کم از کم جزوی بربادی و خاتمہ کی اجتماعی کوشش قرار دیا ۔ اس رپورٹ کے مندرجہ بالا نکات و اصلاحات نہایت ہی کم استعمال کئے جاتے ہیں جس کا بین الاقوامی قانون میں نہایت محتاط انداز میں ان کا استعمال ہوتا ہے لیکن چند دیگر ممالک جیسے بوسنیا و سوڈان اور اسلامی ریاستوں کی یزیدیوں کے خلاف مہم جیسے عراق اور شام میں متذکرہ بالا ٹرمنالوجی کا استعمال انتہائی مجبوری میں کیا گیا ۔ ریاست رکھائین میں جرائم جس انداز میں منظم کئے گئے اور جس طرح انہیں عمل میں لایا گیا اس کا انداز ہ اس کی شدت اور اس کے نفاذ میں جس حکمت عملی کا استعمال کیا گیا جس میں نسلی تطہیر اور نسل کشی بھی شامل ہے ان تمام چیزوں کو دیگر معاملات کے ساتھ مربوط رکھا گیا ۔ اقوام متحدہ کے آزاد حقائق کی کھوج لگانے والے مشن نے میانمار کے سلسلہ میں یہ بات کہی ۔
اپنی 20صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا کہ ’’ ہمارے پاس مناسب معلومات موجود ہیں جس کے تحت تحقیقاتکیلئے اور قانوناً ماخوذ کرنا سینئر عہدیداروں کو کبھی بھی ممکن ہے جو تتمادو(Tatmadow) آرمی چین کے کمانڈ میں ہے ‘ انہیں کبھی بھی ’’ کامپیٹنٹ کورٹ ‘‘ نسل کشی و نسلی تطہیر کے ضمن میں جہاں ریاست رکھائین میں اُن کے مفوضہ فرائض پر جواب طلب کرسکتی ہے ۔ میانمارحکومت نے جسے اقوام متحدہ کے رپورٹ کی آن لائن نقل ( کاپی) عمومی طریقہ کار کے مطابق بھیجی گئی پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ۔ فون پر رابطہ کرنے پر میانمار کے ملٹری ترجمان میجر جنرل ’’ تُن تُن نئی‘‘ نے کہا کہ وہ مذکورہ رپورٹ پر فوری تبصرہ نہیں کرسکتے ۔
اقوام متحدہ کے پیانل جس کی قیادت انڈونیشیائی اٹارنی جنرل مرزوقی داروسمان کا کہنا تھا کہ میانمار آرمی کے کمانڈر انچیف ‘ سینئر جنرل من آنگ ہلینگ و دیگر 5 جنرلس کو بھی قانوناً ماخوذ کرتے ہوئے انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے گا ۔اس میں بریگیڈیئر جنرل آنگ آنگ ‘ 33ویں انفنٹری ڈیویژن کے کمانڈر جو ساحلی دیہات کے ان ڈن میں آپریشنس کے ذمہ دار تھے ذمہ داریوں سے پہلوتہی کے الزام میں جہاں پر 10روہنگیائی لڑکوں اور مردوں کو اغوا کرتے ہوئے ہلاک کردیا گیا تھا بھی شامل تھے ۔ اس ضمن میں رائٹرس کا رابطہ من آنگ ہلینگ یا آنگ آنگ سے پیر کو نہ ہوسکا ۔
اس قتل عام کو طشت ازبام کرنے والے رائٹرس کے دو صحافی ( جرنلسٹ) تھے ۔32سالہ والون اور 28سالہ کیاسواو جنہیں گذشتہ ڈسمبر میںگرفتار کیا گیا تھا اور ان پر ملک و اہم خفیہ سربستہ آفیشیل رازوں سے پردہ اٹھانے کے جرم میں عدالت میں مقدمہ چلایا گیا تھا ۔ مذکورہ کورٹ نے اپنا فیصلہ پیر کو دینا تھا تاہم ایک مختصر سماعت کے بعد کارروائی 3 ستمبر تک ملتوی کردی گئی۔ ۔
اپریل میں سات سولجرس کو دس سال جیل میں قید بامشقت کی سزا انہیں اس قتل عام کے جرم میں سنائی گئی ۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ سُو چیجو نوبل انعام یافتہ ہے نے نہ ہی حکومت کے ہیڈ ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری پوری کی ‘ نہ ہی اخلاقی ذمہ داری پوری کی ‘ نہ ہی ظلم کی بیخ کنی کرنے کی کاوش کی اور نہ ہی معصوم و بے گناہ نہتے شہریوں کو اس ظلم سے محفوظ رکھنے کیلئے کوئی متبادل راستہ اختیار کیا ۔ ’’ سوچی ‘‘ کے ترجمان ’’ زے ہتے‘‘ تبصرہ کیلئے فوری طور پر دستیاب نہ ہوسکے ۔ اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے عہدیدار زید رعدالحسین نے روہنگیا کے بہیمانہ انسانیت سوز قتل عام کو ’’ درستی کتاب کی نسلی تطہیر کی ایک مثال ‘‘ قرار دیا ۔ ’’ سوچی ‘‘ کی حکومت نے ’’ سیکورٹی فورسیس‘‘ پر روہنگیائی پناہ گزینوں کے ظلم کے تمام ادعا جات کو یکسر مسترد کردیا ۔
واضح رہے کہ اگرچیکہ میانمار حکومت نے روہنگیائی پناہ گزینوں کو واپس لینے کیلئے ٹرانزٹ سنٹرس بھی قائم کئے ہیں ‘ تاہم اقوام متحدہ کے امدادی ایجنسیز نے ریاست رکھائین کو واپسی کو ابھی تک محفوظ قرار نہیں دیا ہے اور کہا کہ واپسی پر ان کے تحفظ و سلامتی کی کوئی گیارنٹی نہیں ہے ۔
اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل تمام مجرمین کو ذمہ دار قرار دے ‘ بطور خاص میانمار کو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ ( آئی سی سی ) یا ایڈہاک ٹریبول کو تخلیق کرتے ہوئے اس کو ذمہ داری تفویض کرے ۔ تحقیق کاروں نے یہ بات کہی ۔ علاوہ ازیں ‘ سیکورٹی کونسل اُن مجرمین / ملزمین پرجوانتہائی خطرناک / خوفناک مظالم / جرائم انجام دینے والوں کے جو بین الاقوامی جرائم کے تحت آتے ہوں ‘ ان پر انفرادی تحدیدات عائد کرنے کے علاوہ ’’ سفری پابندیاں ‘‘ عائد کرے اور ان کے رقمی اثاثوں کو منجمد کرے ۔ مزید براں ہتھیاروں کے خرید و فروخت پر میانمار پر سخت ترین تحدیدات کی جائیں ۔ چار دیگر جنرلس جنہیں قانوناً ماخوذ کیا گیا ان میں آرمی ڈپٹی کمانڈر ان چیف ‘ نائب سینئر جنرل سو ون ‘ بیورو آف اسپیشل آپریشنس ۔3 کے کمانڈر ‘ لیفٹننٹ جنرل آنگ کیا زا ‘ ویسٹرن ریجنل ملٹری کمانڈ کے کمانڈر ‘ میجر جنرل مونگ مونگ سو اور 99ویں لائیٹ انفنٹری ڈیویژن کے کمانڈر ‘ بریگیڈیئر جنرل تھان او شامل ہیں ۔
رائٹرس کو چار مذکورہ جنرلس سے پیر کو تبصرہ کیلئے دستیاب نہیں ہوئے ۔ پینل نے ‘ جو گذشتہ سال قائم کیا گیا تھا ۔ 875 ظلم سے متاثرہ اور گواہان سے جو بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں ہیں‘ نے دستاویزات کو انتہائی باریک بینی سے تنقیح و تجزیاتی مشاہدہ کیا ۔ ویڈیوز ‘ تصاویر اور سیٹلائٹ امیجس کا بھی بغور مشاہدہ کیا ۔ رپورٹ میں روہنگیائی مسلمانوں پر روا کئے گئے ظلم و جبر کی سنگینی کا اندازہ اس رپورٹ کے مندرجہ سے ہوتی ہے جس میں کہا گیا ’’ کئی دہوں سے ریاست ( رکھائین ) میں ان کی نسل کشی و نسلی تطہیر کے لئے منصوبہ بند سازش رچی گئی جس سے مجبور ہوکر یہ مظلوم میانمار سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔ علاوہ ازیں ان پر انتہائی منظم انداز سے ظلم کیا گیا ۔ پیدائش سے لیکر موت تک وہ اس ظلم و جبر کو نہیں بھلا سکتے ۔ روہنگیائی‘ جواپنے آپ کو ریاست رکھائین کے وطنی بتاتے ہیں ‘ انہیں میانمار کے اکثریتی بدھسٹ طبقہ شہری ماننے سے یکلخت و یکسر انکار کرتا ہے بلکہ انہیں دخل انداز قرار دیتا ہے ۔
اس رپورٹ میں فیس بک کو بھی روہنگیاؤں پرظلم و جبر کو اقوام متحدہ کے پینل نے ذمہ دارگردانا ہے۔ اُس پر الزام ہے کہ اس سوشل میڈیا فیس بُک نے نفرت انگیز و اشتعال انگیز مواد کی تیز ترین ترسیل سے اس آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا ہے ۔’’ اگرچیکہ حالیہ مہینوں میں فیس بک نے کچھ بہتری لائی ہے تاہم وہ بہت ہی آہستہ فرام ہے اور انتہائی غیر موثر ہے جبکہ فیس بک کے پیغامات اور پوسٹس کو حقیقی دنیا کے ’’ ڈسکریمنٹ ‘‘ اور تشدد کو لازمی طور پر آزادانہ اور اچھی طرح مشاہدہ کے بعد ہی اسے آگے بھیجنا چاہیئے ۔ پینل نے یہ تمام باتیں ماہ مارچ میں وہی ممبران کی طرف سے پیش کی گئیں ۔ جب کہ فیس بک نے اپنے ’’ ای میل ‘‘ والے بیان میں تبصرہ سے انکار کیا تاہم کہا کہ اُس نے رپورٹ کو تفصیل سے مشاہداتی انداز میں نہیں پڑھا ہے ۔ فیس بک نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جو دس دن قبل رائٹرس کے تحقیق کاروں کی رپورٹ کے ضمن میں جاری کیا گیاتھاجس میں روہنگیائی پناہ گزین مسلمان کیلئے نفرت انگیز تقاریر سے بچاؤ میں ناکام ہونے پر اور دیگر مسلمانوں کے معاملہ میں میانمار کے مسئلہ کو حل کرنے میں انتہائی سست کہا گیا اور اس اہم ترین مسئلہ کو حل کرنے کیلئے ’’ برمی مقررین ‘‘ کو مقرر کرے اور ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اس مصیبت کودعوت دینے والا مواد کو پہچان کر اسے فوری ہٹا دیتے ۔
یہاں ایک بات بہت اہم ہے کہ انٹرنیشنل کورٹس نے نسل کشی اور نسلی تطہیر کے معاملہ میں مخلوط ریکارڈ رکھتے ہیں ۔ سال 2008ء میں اقوام متحدہ کی کورٹ میں سابق آرمی کرنل تھیونسٹے باگوسورا کو ملزم قرار دیتے ہوئے کہ 8لاکھ افراد کا قتل عام کا اصل سرغنہ ہے جو روانڈا میں سال1994 میں ہوا تھا کو قید بامشقت برائے نسل کشی و نسلی تطہیر کیلئے اور انسانیت سوز جرائم کیلئے سزا سنائی گئی ۔ اس کی سزا میں بعد ازاں 35سال کی کمی کی گئی ۔
اسی طرح سال 2016ء میںسابق بوسنیائی سرب قائد رادووان کردزک کو اقوام متحدہ کے ججس نے ’’ نسل کشی و نسلی تطہیر‘‘ کیلئے 1995 کے سربربینیکا قتل عام کیلئے ماخوذ کیا گیا ۔ وہ اس میں ماخوذ کرنے پر اپیل کررہا ہے ۔ علاوہ ازیں آئی سی سی نے صدر سوڈان عمرالبشیر کو 2009 میں اور 2010میں جنگی جرائم بشمول نسلی تطہیر و نسل کشی میں انہیں ماخوذ گرفتاری کے وارنٹس جاری کئے تھے ۔ یہ نسل کشی سوڈان کے دارفور صوبہ میں سال 2003 میں ہوئی تھی ۔ ( قابل توجہ ہے کہ اتناسب کچھ ہونے کے باوجود ) وہ ابھی دفتر میں برسرعہدہ ہیں یعنی صدر کے عہدہ پر برسرکار اور چمٹے ہوئے ہیں ۔