محمد ریاض احمد
اُس نوجوان خاتون کا قصور ہی کیا تھا جس کے باعث ظالموں نے اس سے اس کی تمام خوشیاں چھین لی اس کے چہرے پر خوف و دہشت اس قدر طاری ہے کہ کسی گوشے سے معمولی آواز بھی آتی ہے تو وہ خوف سے کانپنے لگتی ہے۔ اس کی نظریں اِدھر اُدھر دوڑ کر اپنی بیٹی دلنواز بیگم پر آکر رُک جاتی ہیں جس کے ساتھ ہی وہ اس معصوم کو بڑی زور سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچ کر سینے سے لگالیتی ہے۔ اب تو کسی بھی غم پر اس کی آنکھوں سے آنسو رواں نہیں ہوتے ، خوشیوں کا تو وہ تصور بھی نہیں کرتی کیونکہ ہنسی و مسکراہٹ تو اس خاتون کو فراموش کرچکی ہیں۔ ایسا لگتاہے کہ اس میں کوئی جذبات کسی قسم کے احساسات بلکہ جان بھی باقی نہیں رہی بلکہ وہ ایک زندہ نعش بن گئی ہے ۔ یہ کیفیت مائنمار ( برما ) کے بدھسٹ دہشت گردوں اور فوج کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوئی نور عائشہ کی ہے جس کے ساتھ اس قدر ظلم کیا گیا کہ اس کی داستان الم سننے والے روئے بناء نہیں رہ سکتے۔ نور عائشہ کی نظروں کے سامنے اس کے شوہر کو برمی فوج نے بیدردی کے ساتھ شہید کردیا ۔ اس نے فوج کے ہاتھوں اپنے ایک نہیں دو نہیں 5 بچوں کو زندہ جلتے ہوئے اور دو کو گولیوں سے چھلنی ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ حد تو یہ ہے کہ امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والے آن سان سوچی کے ملک کے سپاہیوں نے اس مظلوم و کمزور خاتون کی بار بار اجتماعی آبرو ریزی بھی کردی۔ شائد ان درندوں نے آن سان سوچی کو یہ احساس دلادیا کہ برما میں وہی ہوگا جو بدھسٹ دہشت گرد اور ان کی حامی فوج چاہے گی۔ 42سالہ نور عائشہ دنیا کو اپنی دردناک کہانی کچھ اس طرح سناتی ہے:
’’ تقریباً 20برمی سپاہیوں کا ایک گروپ میرے مکان کے سامنے آکر رُک گیا (یہ واقعہ اکٹوبر کے وسط کا ہے اس وقت برمی فوج نے روہنگیا مسلمانوں کے بے شمار گاؤں کو آگ لگادی تھی ) ان لوگوں نے ہم سب کو کھلے میدان میں باہر آنے کا حکم دیا اور پھر جب ہم باہر آئے تب میرے 8بچوں میں سے 5 کو الگ کرکے انھیں ہمارے ہی گھر کے ایک کمرہ میں بند کردیا اور پھر گن بم چلادیا اس طرح وہ کمرہ جلکر خاکستر ہوگیا۔‘ نور عائشہ کے مطابق برمی فوج نے ان کے 5 بچوں کو زندہ جلادیا، دو کمسن بیٹیوں کی اجتماعی عصمت ریزی کرکے انہیں بھی موت کے گھاٹ اُتار دیا، پھر شوہرکو موت کی نیند سلاکر ان ظالموں نے اس کے جسم کو بھی نوچ کھایا۔ خوش قسمتی سے نور عائشہ کی 5 سالہ بیٹی دلنواز بیگم اس لئے بچ گئی کیونکہ وہ ایک پڑوسی کے گھر میں چھپ گئی تھی ۔
برما میں فوج اور بدھسٹ دہشت گردوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہونے والی صرف نور عائشہ ہی نہیں ہے بلکہ ایسی مسلم خواتین ہزاروں کی تعداد میں ہیں جو اپنا سب کچھ لٹا کر بنگلہ دیش کی سرحد پر پناہ لئے ہوئے ہیں لیکن افسوس کہ ان کا غم کسی کو دکھائی نہیں دیتا، ان کی چیخیں اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی سن کر مجرمانہ غفلت برتتا ہے۔ ان کی فریادوں کو عالمی برادری بڑی آسانی کے ساتھ نظرانداز کردیتی ہے جبکہ ملیشیاء اور ترکی جیسے ملکوں کو چھوڑ کر ساری مسلم دنیا خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اسلام کا نام لینے والے ان ملکوں کے حکمراں بھی روہنگیا کے مسلمانوں پر برمی فوج کی بربریت پر آواز اٹھانے میں عار محسوس کررہے ہیں۔ انہیں شائد اندازہ نہیں کہ آج دشمن روہنگیائی مسلمانوں کا قتل عام کررہا ہے ان کی عورتوں اور بچوں کی عصمت ریزی کرکے خود کو بڑا طاقتور محسوس کررہا ہے، مسلمانوں کے گاوؤں اور گھروں کو جلاکر جشن منارہا ہے کل وہی دشمن بے فکر و بے حس مسلمانوں کے ملکوں اور گھروں پر بھی دستک دے سکتا ہے حالانکہ مسلمانوں اور ان کے مسائل سے اپنی بے حسی اور مجرمانہ غفلت کیلئے بدنام اقوام متحدہ بھی اب روہنگیائی مسلمانوں پر حکومت برما اور اس کی فوج کی بربریت پر تڑپ اُٹھا ہے لیکن مائنمار کی حکومت بڑی بے شرمی اور ہٹ دھرمی کے ساتھ روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 9اکٹوبر کو برما کے سرحدی گارڈس پر حملہ میں9 پولیس والوں کی موت ہوئی تھی جس کے جواب میں برما کی فوج مسلمانوں کے قتل عام پر اُتر آئی ہے۔ اکٹوبر سے تاحال 20000 سے زائد روہنگیائی مسلمان بنگلہ دیش کی سرحد میں داخل ہوئے ہیں۔ حال ہی میں گارجین نے بنگلہ دیش سرحد پر واقع عارضی کیمپوں میں مقیم روہنگائی مسلمانوں سے بات کی، ان میں سے سیدہ خاتون نے برمی فوج کے دل دہلادینے والے مظالم کی داستان سناکر سب کو آنسو بہانے پر مجبور کردیا۔ اس خاتون نے بتایا کہ برمی فوج نے 30 خواتین کو ایک میدان میں جمع کیا اور بندوق کی نوک پر ان میں سے 15 کو الگ کرکے اجتماعی عصمت ریزی کی۔ اس وقت سیدہ خاتون 5 ماہ کی حاملہ تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ صرف 11 اور 12اکٹوبر کو مائنمار کی فوج نے 1000 سے زائد گھروں کو آگ لگائی۔ 300سے زائد روہنگیائی مسلم مرد و خواتین اور بچوں کو قتل کیا۔ کم از کم100 خواتین اور بچوں کے ساتھ برمی فوج کے درندوں نے منہ کالا کیا اور 40 کو زندہ جلادیا۔ حد تو یہ ہے کہ مائنمار کی حکومت روہنگیائی مسلمانوں کی حالت زار معلوم کرنے کے خواہاں عالمی اداروں کے نمائندوں اور صحافیوں کو بھی ان علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سابق سکریٹری جنرل کوفی عنان نے اگرچہ علاقہ کا دورہ کیا لیکن ان کے جاتے ہی روہنگیائی مسلمانوں پر ناقابل تصور مظالم ڈھائے گئے۔ رونگھٹے کھڑے کردینے والے ان تمام مظالم کے باوجود سارا عالم اسلام خاموش کھڑا ہے اور اس کی بے حسی اور بیدردی پر سوائے افسوس اور غم کے کیا کیا جاسکتا ہے۔ اب ہماری بے حسی کا حال یہ ہے کہ ہم اپنے مظلوم بھائی بہنوں پر ساری دنیا میں ہورہے ظلم و جبر پر افسوس کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے جس کا خمیازہ آنے والے دنوں میں مسلمانوں کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ مسلمانوں کی اس حالت زار کے درمیان ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ ملیشیاء کے وزیر اعظم نجیب رزاق نے کولالمپور میں ایک ریالی سے خطاب کرتے ہوئے مائنمار میں روہنگیائی مسلمانوں پر کئے جارہے مظالم کو روہنگیائی مسلمانوں کا قتل عام اور نسل کشی سے تعبیر کیا جس سے عالمی سطح پر روہنگیا مسلمانوں کے مصائب منظر عام پر آئے ۔ نجیب رزاق نے سچ ہی کہا ہے کیونکہ پچھلے چار برسوں سے روہنگیائی مسلمانوں کو برما میں جانوروں کی طرح ذبح کیا جارہا ہے، سرعام ان کی خواتین کی عصمتوں کی نیلامی ہورہی ہے لیکن ان کی مدد کیلئے پہنچنے والا کوئی نہیں۔ ایسے میں نجیب رزاق اور ان کے ملک کے شہری قابل ستائش ہیں کہ حکومت برما کو اپنی ریالی کے ذریعہ ایک وارننگ دی ہے اور بتایا کہ مسلمان نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہر مظلوم اور کمزور کی مدد کرتا ہے۔
mriyaz2001@yahoo.com