روہت ویمولا کو دلت ہونے کی سزا ملی

ظفر آغا
آخر روہت ویمولا کا گناہ کیا تھا ؟ حیدرآباد یونیورسٹی کا یہ نوجوان ریسرچ اسکالر خودکشی کرنے پر کیوں مجبور ہوا ؟ اب ہم اور آپ ہی نہیں بلکہ دنیا بخوبی سمجھتی ہے کہ حیدرآباد یونیورسٹی کے نوجوان روہت ویمولا کا گناہ صرف یہ تھا کہ وہ ایک دلت تھا ۔ اور اب یہ بات بھی عیاں ہے کہ اس ملک میں دلت ہونے سے زیادہ بڑا سماجی گناہ کوئی اور نہیں ہے ۔ اس ملک میں اگر کوئی غلطی سے بھی دلت خاندان میں پیدا ہوگیا تو وہ اچھوت ہوگیا ۔ یعنی سماج میں وہ سب سے نچلے درجے کا انسان قرار پاتا ہے جس کا کوئی حق نہیں اور سماج میں کوئی مقام نہیں ہوتا ہے ۔ آئین اس کو کوئی بھی حق کیوں نہ دے لیکن سماج اس کو کوئی حق دینے کو تیار نہیں ہوتا ہے ۔ یہ ہے ہندو سماج میں ایک ایسی سماجی لعنت جس کو ہندو سماج آج تک دور نہیں کرسکا ہے ۔

روہت ویمولا اسی ہندو سماج کا ایک دلت نوجوان تھا  ۔اس کے ماں باپ تمام دلت سماج افراد کی طرح انتہائی غریب اور سماجی طور پر نچلے طبقے کے افراد ہیں۔ روہت ایک ذہین طالب علم تھا ، اسی صلاحیت کی بنا پر ریسرچ اسکالر تک کی منزل تک پہنچ گیا ۔ پھر اس کا گناہ یہ بھی تھا کہ دلتوں کے خلاف ہوئے مظالم کے خلاف ہی نہیں بلکہ ہر سماجی ناانصافی کے خلاف جد وجہد بھی کرتا تھا ۔ مظفر نگر فسادات پر بنائی گئی فلم جب حیدرآباد کے اعلی ذات کے طالب علموں نے یونیورسٹی میں دکھانے پر روک لگائی تو روہت نے احتجاج کیا ۔ اس پر اس کا وظیفہ (فیلوشپ) روک دیا گیا اور اس کو چار لڑکوں سمیت ہاسٹل سے نکال کر پھینک دیا گیا ۔ اس نے اپنے خلاف ہونے والی ناانصافی کے خلاف ہر دروازہ کھٹکھٹایا ، جب اس کو کہیں سے انصاف کی امید نہ بچی تو آخر اس نے خودکشی کرلی اور اب تمام سیاسی جماعتیں اس کی بے وقت موت پر ہنگامہ آرائی کررہی ہیں ۔

لیکن کیا روہت ویمولا کی موت سے اس ملک میں ہزاروں سال سے چلی آرہی ذات پات کی اونچ نیچ ختم ہوجائے گی ؟ کیا روہت کی موت ہندو سماج کا ضمیر جھنجھوڑ کر سماجی ناانصافی کی لعنت ختم کرنے میں کامیاب ہوجائے گی ؟ اگر ایسا ہوجائے تو روہت کی موت کو ایک بڑا کارنامہ سمجھا جائے گا ۔ لیکن ایک روہت کیا سینکڑں روہت کی موت بھی دلتوں کے ساتھ چلی آرہی سماجی ناانصافی کو شاید ابھی صدیوں تک ختم نہیں کرسکتی ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہندو سماج ہر قسم کا ریفارم تسلیم کرنے کو تیار ہے لیکن وہ ذات پات پر مبنی سماجی ناانصافی کو ختم کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہے ۔ اسی لئے جب اس ملک میں منڈل سفارشات کے ذریعہ پسماندہ ذاتوں کو سرکاری نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں ریزرویشن دیا گیا تھا تو اس ملک کی اعلی ذاتوں نے قہر بپا کردیا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ پھر روہت ویمولا کی موت پر ہر پارٹی کے لوگ حیدرآباد پہنچ کر آنسو کیوں بہارہے ہیں ؟

دراصل دلتوں کے ساتھ ناانصافی پر ہندوستانی سیاسی جماعتوں کا آنسو بہانے کی روایت آج سے نہیں بلکہ جنگ آزادی کے دور سے چلی آرہی ہے اور اس معاملے کی بنیاد کافی حد تک ہندو ۔ مسلم مسئلہ میں پیوست ہے ۔ جنگ آزادی کے دوران جب یہ بات طے ہوگئی کہ اس ملک سے انگریزوں کے جانے کے بعد جمہوری نظام قائم ہوگا تو ہندو سماج کے سامنے ایک سوال کھڑا ہوگیا  اور وہ سوال تھا کہ جمہوری نظام میں اس سماج کو برتری حاصل ہوگی جو نمبر کے اعتبار سے اکثریت میں ہوگا ۔ اس وقت تک یہ بات یقینی طور پر اس ملک میں طے نہیں تھی کہ ہندو کون ہے ۔ ہندو سماج تو ذات پات میں بٹا تھا ۔ اور ہندو مذہبی کتابوں اور سماجی چال چلن کے اعتبار سے ہندو محض آریائی یعنی اعلی ذات کے افراد تھے ۔ اور پسماندہ دلت ذاتوں کے لوگ اکثر ہندو دیوی دیوتاؤں میں یقین رکھتے تھے ، لیکن اعلی ذات کے افراد ان کو ہندو نہیں مانتے تھے بلکہ ان کو اچھوت کا درجہ دیتے تھے ۔ اس اعتبار سے جمہوری نظام میں اگر اس وقت کا ہندو سماج غیر مسلم سماج ذات پات کی بنیاد پر اعلی ذاتوں اور غیر اعلی ذاتوں کے درمیان تقسیم ہوجاتا تو برصغیر ہند کے مسلمان اکثریت میں ہوجاتے اور آزاد ہندوستان کے سیاسی نظام میں ان کو برتری حاصل ہوجاتی ۔ چنانچہ یہ سوال 1930 کی دہائی میں Separate Election کے مسئلہ پر ہندو سماج کے سامنے اٹھ کھڑا ہوا ۔ مسلمانوں نے مسلم لیگ کے پرچم تلے اور دلتوں نے امبیڈکر کی قیادت میں اس وقت Separate Election تسلیم کرلیا ۔ گاندھی جی کی قیادت میں کانگریس اس باریکی کو سمجھ گئی اور گاندھی جی نے اسکے خلاف آمرن انشن کردیا ۔ امبیڈکر نے مجبور ہو کر اور گاندھی جی کے دباؤ میں دلتوں کے حقوق کے لئے ایک معاہدہ کیا جو پونا پیکٹ کے نام سے مشہور ہوا ۔ اس پونا پیکٹ کے تحت کانگریس نے دلتوں کو سیاسی طور پر ہندو تسلیم کرتے ہوئے ان کو تمام اسمبلیوں ، پارلیمنٹ ، سرکاری نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں 25 فیصد ریزرویشن دے دیا جو آج تک چلا آرہا ہے  ۔

گاندھی جی کی قیادت میں یہ فیصلہ ہندو سماج نے مسلمانوں کی اکثریت اور برتری کے خطرے کے دباؤ میں کیا تھا اور یہ فیصلہ محض ایک سیاسی فیصلہ تھا جس کا سماجی اونچ نیچ ختم کرنے سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ تب ہی تو اعلی ذات آج تک دلتوں کو ہندو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے ۔ جب بھی دلت ملک کے زیادہ تر مندروں میں قدم نہیں رکھ سکتے ہیں یا اعلی ذات کے علاقوں میں رہنے والے ان کے کنوؤں سے پانی نہیں پی سکتے ہیں ۔ دلت اس ملک میں صدیوں سے اچھوت تھے اور آج بھی اچھوت ہیں ۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس پر گاندھی جی سے لے کر ہر لیڈر اور پارٹی نے آج تک پردہ ڈالا ہے ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اعلی ذات سماج آج بھی دلتوں کو پوری طرح ہندو یا سماجی برابری دینے کو تیار نہیں ہے ۔ اسی لئے روہت ویمولا کی موت پر چند دنوں تک سیاسی ہنگامہ ضرور ہوگا ، سیاسی پارٹیاں اس مسئلہ پر روٹیاں سینکیں گی لیکن دلتوں کی سماجی برابری کا جو صدیوں پرانا مسئلہ ہے وہ ابھی بھی ختم ہونے والا نہیں ہے ۔

کسی بھی قوم کے سماجی مسائل کا حل دوسری قوم کے افراد نہیں کیا کرتے ہیں ۔ اس لئے دلتوں کی سماجی ناانصافی کا حل خود دلت سماج کو ہی تلاش کرنا ہوگا ۔ چونکہ جمہوری نظام ایک نمبر گیم ہوتا ہے اس لئے ان کو ہندوستان میں کچھ سیاسی حقوق تو مل گئے ہیں ، وہ بھی اس لئے کہ آزادی کے بعد اعلی ذات ہندو اس ملک میں مسلم برتری تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے ۔ اس لئے دلت سماج کو سماجی انصاف حاصل کرنے کے لئے خود سماجی لڑائی لڑنی پڑے گی ۔ لیکن اس جد وجہد سے قبل ان کو یہ طے کرنا ہوگا کہ آیا وہ ہندو سماج کا حصہ ہیں یا نہیں ۔ اگر وہ ہندو سماج کا حصہ بن کر رہتے ہیں تو ذات پات پر مبنی ہندو سماج ان کو نچلی ذات کا انسان ہی تصور کرتے رہیں گے ۔ اور غلطی سے اگر کوئی روہت ویمولا بن جائے گا تو اس کا وہی حشر ہوگا جو روہت کا ہوا ۔ اس لئے اب دلت سماج کے لئے وقت آگیا ہے کہ وہ یہ طے کریں کہ آیا وہ ہندو ہیں یا نہیں !