روس دوغلی جنگ میں ماہر بن گیا سائبر حملے بڑا ہتھیار

عرفان جابری

روسی صدر ولادمیر پوتین شاذونادر کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہیں، لیکن انھوں نے اپنے ملک کو ڈیجیٹل دَور میں پہنچایا ہے۔ روس کبھی ٹکنالوجی کے معاملے میں پچھڑا ہوا تھا: سویت لوگ گلوبل انٹرنٹ سے 1990ء تک نہیں جڑپائے تھے، اور سرکاری سکیورٹی سرویسیس کیلئے ٹکنالوجی سے ہم آہنگی بڑی دشوار تھی۔ تاہم 1996ء تک روس میں ہیکروں (سادہ الفاظ میں انٹرنٹ اور سکیورٹی سسٹم میں نقب زنی لگانے والے) کی نئی نسل تیار ہوگئی، جس نے سرکاری سرپرستی میں پہلی بار امریکہ کے ملٹری نٹ ورک تک ٹکنالوجی کے ذریعے رسائی حاصل کرلی؛ دسیوں ہزار فائلیں بشمول ملٹری ہارڈرویئر ڈیزائن، ملٹری تنصیبات کے نقشے اور فوجی دستوں کی ترکیب وغیرہ چوری کرلئے۔ 2008ء میں رشین ہیکرس نے ایسا کام کردکھایا جو پنٹگان کے عہدیدار لگ بھگ ناممکن باور کرتے تھے: ایک راز کا نٹ ورک توڑا گیا جو پبلک انٹرنٹ سے مربوط تک نہ تھا۔ ظاہر ہے روسی جاسوسوں نے سستے thumb drives جو وائرس سے شدید متاثر تھے ، کابل میں نیٹو ہیڈکوارٹرز کے قریب پبلک انٹرنٹ سنٹرز تک پہنچا دیئے اور بس جوا کھیلا کہ کوئی امریکی سرویس مین یا وومن اسے خرید کر کسی محفوظ کمپیوٹر میں استعمال کریں گے۔ گزشتہ دہے میں سائبر حکمت عملی روس کی اپنے پڑوسیوں پر دبدبہ قائم کرنے کوششوں کا لازمی جز رہی ہے۔
2007ء کے موسم بہار کی ایک شام ایستونیا کے صدر تھامس ہینڈرک ایلویز اپنی قیامگاہ پر لیاپ ٹاپ کمپیوٹر استعمال کررہے تھے۔ انھیں آن لائن ہونے میں مشکل پیش آرہی تھی۔ نیوز سائٹس بند پڑی تھیں۔ بینکس کام نہیں کرپا رہے تھے۔ گورنمنٹ سائٹس بھی بند تھے۔ صدر موصوف نے سمجھا کہ یہ ضرور کوئی فنی خرابی کا معاملہ ہونا چاہئے۔ انھوں نے حال میں بتایا کہ ’’اولین ردعمل یہ نہیں رہا کہ ہم حملے کی زد میں ہیں۔ لیکن چند فون کالز کے بعد وہ جان گئے کہ ایستونیا کے کلیدی اثاثوں پر کوئی حملہ آور ہورہا ہے۔ پیام بھیجنے، روایتی اور ویڈیو فون کالنگ کیلئے مقبول اسکائپ (Skype) کا مقام تشکیل اور دیگر ٹیکنیکل فرمس کا مسکن ایستونیا ٹکنالوجی کے حلقوں میں ’eStonia‘ سے معروف ہے؛ یہ دنیا کے سب سے زیادہ داخلی طور پر مربوط ممالک میں سے ہے۔ لیکن ایستونیا کا روس سے اس بات پر تنازعہ چل رہا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے زمانے کے ایک سوویت سپاہی کے مجسمہ کو دارالحکومت تالین کے مرکزی مقام سے ہٹا دیا جائے کیونکہ اسے ایستونیائی قوم ’قبضہ کی علامت‘ باور کررہی تھی۔ روسی حکومت نے کھلے طور پر انتباہ دیا تھا کہ اس مجسمہ کو منتقل کرنا تاریخ میں سنگین مداخلت اور ’’ایستونیا کیلئے تباہ کن‘‘ ہوگا۔
ایستونیا میں بالآخر وہ مجسمہ منتقل کردیا گیا۔ لگ بھگ فوری بعد روسی زبان میں کے چیاٹ رومس میں ہدایات ڈالی گئیں کہ کس طرح امیچر ہیکر بن سکتے ہیں۔ ہیکروں کو ایستونیا کی سائٹس قطعی طور پر ’hack‘ کرلینے کی ضرورت نہ تھی۔ انھوں نے بس سرویس کی فراہمی روکنے کا کام کیا جو دو ہفتے جاری رہا۔ تحقیقات کاروں نے کبھی بھی اس حملے کے اصل ذریعہ کی نشان دہی نہیں کی، لیکن ایلویز جو اکٹوبر 2016ء میں صدارت سے سبکدوش ہوگئے، ان کا ماننا ہے کہ یہ روسی حکومت اور منظم جرائم کے ارکان کے درمیان گٹھ جوڑ رہا۔ ’’اسے پبلک ۔ پرائیویٹ پارٹنرشپ کہہ سکتے ہیں۔ یہ سرکاری عناصر تھے جنھوں نے مافیا والوں کو ادائیگی کی۔‘‘ اگرچہ یہ واقعہ شاید ہی کہیں بین الاقوامی شہ سرخیوں میں آیا، لیکن یہ بہت اہم واقعہ ہوا: سرکاری سرپرستی میں سیاسی مقاصد کیلئے کیا گیا سائبر حملہ۔ اوباما دور کے سینئر پنٹگان آفیسر و اِنچارج سائبر پالیسی مائیکل سلمیئر نے کہا: ’’جو کچھ ایستونیا سے ظاہر ہوا یہی ہے کہ روس سیاسی مقاصد کیلئے نئے مگر جارحانہ انداز میں کام کرنے والا ہے۔ یہاں جرم ہی کیا ہوا؟ ایستونیا والوں نے بس ایک مجسمہ کو منتقل کیا۔‘‘اس دوران روس کی دفاعی حلقوں میں ساکھ بڑھتی رہی، اُس کے عزم و حوصلہ کے پہلو سے، فنی صلاحیتوں کے اعتبار سے اور رفتارکی خاصیت سے بھی۔ ایستونیا حملہ کے بمشکل ایک سال بعد جارجیا کے ساتھ ایک خطہ پر تنازعہ ہوا۔ روسی دبابے اور طیارے متنازعہ علاقہ میں ٹھیک اسی وقت گھس گئے جب ہیکروں نے حکومت، میڈیا اور بینکوں کی خدمات والی 54 ویب سائٹس ناکام بنا دیئے۔ انھوں نے ملٹری انفارمیشن چرالی اور قوم کے انٹرنٹ کو مفلوج کردیا۔ جارجیائی افسران اپنے دستوں کو احکام بھیجنے کیلئے جدوجہد کرتے رہے، اور حیران شہریوں کیلئے جانکاری پانے کا کوئی طریقہ نہ تھا کہ کیاہورہا ہے۔ مائیکل سلمیئر کا کہنا ہے کہ جارجیا کے خلاف کارروائی شاید پہلی مرتبہ اس نوعیت کی دیکھنے میں آئی جہاں روایتی زمینی حملے کے ٹھیک ساتھ ساتھ سائبر کارروائی کی گئی۔ اس سے ظاہر ہوا کہ ایسی تکنیک مربوط آپریشنس میں کارگر ہوسکتی ہے اور روسیوں نے اسے عملاً کردکھایا۔
دریں اثناء امریکہ بھی ’سائبروار‘ میں قابل لحاظ حد تک کامیاب رہا۔ 2008ء میں اسرائیلی انٹلیجنس کے ساتھ ہم آہنگی میں امریکہ نے پہلی بار کسی اور ملک کے کلیدی انفراسٹرکچر پر ڈیجیٹل حملہ شروع کیا۔ اس نے وائرس Stuxnet کے ذریعہ ایران کے نیوکلیر ڈیولپمنٹ پروگرام میں خلل پیدا کیا۔ اس کے باوجود سفارتی تشویش بعض امریکی اقدامات میں مزاحم ہوئی۔ چنانچہ اوباما نظم و نسق کو روس کے ساتھ سائبر شعبہ میں مل جل کر کام کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ 2011ء میں وائٹ ہاؤس نے چینی ہیکنگ سے لڑنے کیلئے باقاعدہ مہم شروع کی۔ اس طرح ایک نیا نظریہ فروغ پاتا رہا، جس کے تحت روس نے اُس کی دانست میں مغرب کے ’’بدنام زمانہ‘‘ وسائل پر تحقیق شروع کی تاکہ اُن کا توڑ وطن میں تشکیل دیتے ہوئے بیرون ملک عمل درآمد کیا جائے۔ اس کا اشارہ فبروری 2013ء میں ملا جب روسی چیف آف جنرل اسٹاف ویلاری گیراسیموف نے ایک آرٹیکل میں نشان دہی کی اور مغربی حکمت عملی اختیار کرنے پر زور دیا جس میں ملٹری کے ساتھ ساتھ ٹکنالوجی، میڈیا، سیاست اور انٹلیجنس کی چالوں کا بہ یک وقت استعمال کرتے ہوئے دشمن کو کم سے کم خرچ پر غیرمستحکم کردیا جائے۔ اس حکمت عملی کو ’’دوغلی جنگ‘‘ کہا گیا، جو مختلف شعبوں کا مجموعہ ہے جسے مملکتیں صدیوں سے استعمال کرتی رہی ہیں، لیکن جس انداز میں روسی جنرل نے عصری تقاضوں کی ضرورت کے اعتبار سے اس کے باریک پہلوؤں کو پیش کیا اور اس کی افادیت ظاہر کی، اب بین الاقوامی ملٹری حلقوں میں اسے ’گیراسیموف نظریہ‘ کہتے ہیں۔
گیراسیموف (61 سال) کا ماننا ہے کہ مستقبل میں جنگیں غیرفوجی تا فوجی اقدامات کے معاملے میں 4:1 تناسب میں لڑی جائیں گی۔ غیرفوجی چالوں میں تخریب کاری، جاسوسی، پروپگنڈہ اور سائبر حملوں کے ذریعے ماحول تیار کرنا شامل ہے۔ انھوں نے ’بہارِ عرب‘ کے پس منظر میں لکھتے ہوئے اُس نراج اور تشدد کا ثبوت کے طور پر حوالہ دیا جو لیبیا اور شام میں پھوٹ پڑا۔ جب متواتر دباؤ اور مداخلت ہونے لگے تو اچھی پھلتی پھولتی مملکت بھی چند ماہ اور حتیٰ کے دنوں میں شدید مسلح لڑائی کے میدان میں تبدیل ہوسکتی ہے، بیرونی مداخلت کا شکار بن سکتی ہے، اور بدامنی، انسانی تباہی اور خانہ جنگی کے جال میں پھنس سکتی ہے۔ اوائل 2014ء میں یوکرین اور شام کے بارے میں بڑھتی کشیدگی کے پس منظر میں اوباما کے مشیر بنجامن روڈز نے کہا کہ روس کا جارحانہ پن یوکرین کے میدان اسکوائر پر اولین مظاہروں سے شدت اختیار کیا۔ ’’جب تاریخ رقم ہوگی تو کہا جائے گا کہ میدان اسکوائر پر دو ہفتوں کے مظاہرے سے پورا معاملہ سرد جنگ طرز کی مسابقت سے آگے بڑھ کر زیادہ بڑی کشاکش بن گیا۔ پوتین کی کوئی بھی اُصول و قواعد کی تعمیل نہ کرنے کی روش وہیں سے شروع ہوئی۔ یہ اشتعال انگیزی سے کسی بھی بین الاقوامی سرحد کے عدم احترام تک بڑھ گئی۔ 2013ء میں روسی وزارت دفاع نے ’سائنٹیفک‘ اور ’انفارمیشن آپریشنس‘ بٹالینس تشکیل دینے کا اعلان کیا، جس کے بارے میں دفاع کے عہدہ دار نے وضاحت کی کہ امکانی دشمنوں کے انفارمیشن نٹ ورکس کو درہم برہم کرنا مقصد ہے۔ شروع میں اس خیال کا مذاق بنایا گیا لیکن جلد ہی یہ حقیقت بن گیا اور ایسی یونٹیں واقعتا تشکیل دی گئیں جہاں ملک کی بڑی ٹکنیکل یونیورسٹیوں کے گرائجویٹس کی بھرتی کی گئی۔
مارچ 2016ء تک سائبر خطرہ شکوک و شبہات سے پرے ہوگیا۔ سائبر سکیورٹی ماہرین نے روسی ہیکروں کے ایک دیگر گروپ ’Fancy Bear‘ کا پتہ چلایا جو جان پوڈیسٹا اور دیگر ڈیموکریٹ عہدیداروں کے اکاؤنٹس تک رسائی حاصل کرگیا۔ ابتدائی گروپ ’Cozy Bear‘ کی طرح دوسری نوعیت کے ہیکروں نے دنیا بھر میں اپنے نقوش چھوڑے، جیسا کہ جرمن پارلیمنٹ، یوکرینی آرٹیلری سسٹم، اور ورلڈ اینٹی ڈوپنگ ایجنسی کے خلاف سائبر حملوں میں اس کی تکنیکی شناخت نظر آئی۔ اوباما نظم و نسق کے حکام شش و پنج میں مبتلا رہے کہ ان سائبرحملوں سے کس طرح نمٹا جائے ۔ دوسری طرف ہلاری کلنٹن کے تعلق سے ’’فرضی خبریں‘‘ روس سے اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جارہی تھیں اور آخرالذکر ذریعہ بہت زیادہ نقصان پہنچانے والا ہوتا ہے۔ اوباما نظم و نسق کے ایک عہدہ دار نے کہا: ’’گرمائی موسم کے دوران جب صدارتی انتخابی مہم زوروں پر چل رہی تھی اور جب روسی سوشل میڈیا اسٹریٹجی چلائی جارہی تھی، ہم پورے معاملے سے واقف نہ ہوپائے۔ اکٹوبر میں جب ہم پر سب واضح ہوا، تب دیر ہوچکی تھی۔‘‘