روسی انقلاب اور علامہ اقبال مارکس کمیونزم کا خالق عالمی دانشور

ڈاکٹر مسعود جعفری
کارل مارکس ان آفاقی شخصیات میں سے ایک ہے جس نے وقت کا رخ پھیرا ۔ تاریخ کا دھارا بدلا۔ خیالات کی دنیا میں ہلچل بپا کردی۔ اقطائے عالم کو امیر غریب کے دو حصوں میں تقسیم کردیا ۔ ڈارون نے اگر مرد اور عورت پر روشنی ڈالی تو مارکس نے سرمایہ دار اور محنت کش طبقہ کی بات کی ۔ مارکس کی 1867 ء میں لکھی ہوئی کتاب داس کیپٹل Das Capital دنیا کے دہقانوں ، مزدوروں اور مظلوم انسانوں کے لئے انجیل بن گئی ۔ مارکس نے نئے تصورات روشناس کئے۔
طبقاتی کشمکش ، افراطِ زر کا نظریہ ، استحصال کی تھیوری ، پرولتاریہ کی حکومت ، ریاست کی تحلیل مارکس نے نہ صرف انیسویں صدی بلکہ بیسویں صدی کو اپنی فکر و فلسفہ سے متاثر کیا۔
مارکس پروشیا جدید جرمن کا رہنے والا تھا ۔ اس نے مختلف جامعات میں اپنی پڑھائی کی جیسے بان برلن اور جینا میں اس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ مارکس نے پیرس کا بھی دورہ کیا ۔ وہ اپنے گہرے دوست اینگلس کے ساتھ لندن گیا اور وہیں سکونت اختیار کرلی۔ مارکس کی معاشی حالت بہت خستہ تھی ۔ لندن میں وہ ایک چھوٹے سے کمرے میں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا ۔ اس کی شریک حیات تپ دق میں مبتلا تھی ۔ اس کے تھوک میں خون آتا تھا ۔ گھر کے ایسے دلخراش ماحول میں مارکس داس کیپٹل تصنیف کر رہا تھا۔ اس کے جسم پہ شرٹ تھا نہ جیب میں پیسے۔ جب وہ کتاب لکھ چکا تو اسے پوسٹ کرنے کیلئے اس کے پاس پیسے نہیں تھے ۔ وہ قلاش تھا ۔ اس کے دوست کی مدد سے کتاب اشاعت کے مرحلوں سے گزر سکی ۔ مارکس کو کیا خبر تھی کہ داس کیپٹل دنیا کیلئے دوسری بائیبل ثابت ہوگی ۔محنت کشوں کے لئے نوید صبح ہوگی ۔ ایک نئے دور کی شروعات ہوگی ۔ اس سے سماجی اقتصادی نیز سیاسی انقلابات کی راہیں ہموار ہوئیں۔
کارل مارکس جرمن یہودی تھا لیکن اس نے یہودیت کو خیر باد کہہ دیا تھا ۔ اس نے ہندوستان میں 1857 میں ہونے والے غدر کو طبقاتی کشاکش سے تعبیر کیا ۔ مارکس کا یقین تھا کہ طبقاتی جدوجہد میں آخر میں فتح مطلوموں کی ہوتی ہے ۔ سرمایہ داروں کو شکست فاش ہوتی ہے ۔ Have اور Have nots میں مسلسل آویزش ہوتی رہتی ہے ۔ اس میں ورکنگ کلاسس کو کامیابی ملتی ہے ۔ مارکس کی وفات 1883 ء میں ہوئی ۔ اس کی لندن میں تدفین ہوئی ۔ اس کے انتقال کے 34 برس بعد اکتوبر 1917 ء میں مملکت روس میں کمیونزم کا خوں ریز انقلاب آیا ۔ شہنشاہ زار کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ۔ انقلاب کا رہنما لینن تھا ۔ زار کے سیاہ ظالمانہ دور کا خاتمہ ہوگیا ۔ سماجی و معاشی مساوات قائم کی گئی ۔ روس دنیا کا پہلا ایسا ملک بن گیا جہاں پہلی دفعہ کسانوں مزدوروں کی مملکت تشکیل دی گئی ۔ اب روس سویت یونین بن گیا تھا ۔ شاعر مشرق علامہ اقبال روس کے انقلاب سے بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے مارکس کے تعلق سے کہ وہ پیغمبر نہیں ہے لیکن اس کی بغل میں ایک کتاب ہے ۔ اقبال کا اشارہ داس کیپٹل Das Capital کی طرف تھا۔ جس نے کائناتی سوچ میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا کی ۔ امیر غریب کے درمیان ایک خط فاصل کھینچ دی ۔ سرمایہ داری کی چیرہ دستیوں کو عیاں کیا ۔ دنیا کے غریبوں کے منہ میں زبان اور ان کے نحیف و نزار ہاتھوں کو طاقت عطا کی۔ اقبال نے 1917 ء کے روسی سنگھرش اور کرانتی کا پرتپاک خیر مقدم فرمایا ۔ اقبال نے پکار کے کہا ۔
آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا
آسماں ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک
اقبال نے ایک نظم بولشہک روس کے نام سے لکھی اور اس میں نہایت چونکا دینے والے افکار شعری پیرہن میں پیش فرمائے ۔ آپ بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
روش قضائے الٰہی کی سے عجیب و غریب
خبر نہیں کہ ضمیر جہاں میں ہے کیا بات
ہوئے ہیں کسر چلیپا کے واسطے مامور
وہی کہ حفظ چلیپا کو مانتے تھے نجات
یہ وحی و ہریت روس پر ہوئی نازل
کہ توڑ ڈال کلیسائیوں کے لات و منات
اقبال ایک طاقتور لفظ وحی استعمال کر رہے ہیں جو منجانب خدا نازل ہوتی ہے ۔ اقبال لات و منات جیسے بتوں کی تلمیح بھی دے رہے ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ انہیں پاش پاش کردو جس طرح اسلامی تاریخ میں مکہ کے انقلاب یعنی فتح مکہ کے بعد رسول اکرم نے حرم سے تین سو ساٹھ بتوں بشمول لات و منات کو ہٹا ڈالا۔ کعبہ کو اصنام کے وجود سے پاک کر ڈالا اسی طرح روس کے چرچوں سے بتوں کا صفایا کردے۔ یہی روس کی روح انقلاب ہے ۔ اقبال اپنی ایک نظم اشتراکیت میں واصح طور پر فرماتے ہیں کہ جو بات خدائے تعالیٰ نے حرف قل العفو میں ارشاد فرمائی ہے ، اس کی عملی صورت گری روس میں آشکار ہونے لگی ہے ۔ یعنی سماجی مساوات و عدل و انصاف ۔ سیاسی ، اقتصادی ، سماجی و مذہبی استحصال سے ادمی کونجات ۔ اقبال کے روح پر ور اشعار کا دیدار کیجئے ۔
قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم
بے سود نہیں روس کی یہ گرمئی گفتار
اندیشہ ہوا شوخی افکار پہ مجبور
فرسودہ طریقوں سے زمانہ ہوا بیزار
انساں کی ہوس نے جنہیں رکھا تھا چھپا کر
کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار
قرآن میں ہو غوطہ زن ائے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
جو حرف قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار
اقبال نے ایک ایسے منصفانہ معاشرہ کی امید کی تھی جہاں انسانی قدروں سے غلامی کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی۔ انسان کی انسان پر مطلق الانانیت کا بول بالا نہ ہوگا ۔ اسی بند میں اقبال مسلمان کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ اپنے میں جدت کردار پیدا کرے۔ لکیر کا فقیر نہ بنے ۔ فکری سطح پر جامد نہ ہوجائے ۔ فکر و تدبر سے کام لے ۔ جدت طرازی یعنی Innovative رہے ۔ حرکیاتی کردار رہے ۔ بے عملی کی برف پگھلے ۔ نئی دریافتیں کرے ۔ ستاروں پہ کمندیں ڈالے۔ کائنات کو تسخیر کرے ۔
اقبال یہیں تک نہیں رکتے وہ روسی انقلاب کے قائد لینن کو خدا کے حضور پہونچادیتے ہیں اور وہ خدا سے مکالمہ کرنے لگتا ہے ۔ آپ اس کی عرض تمنا دیکھئے ۔
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تنگ بہت بندہ مزدور کے حالات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات
لینن دنیا سے سرمایہ داری کا خاتمہ چاہتا ہے ۔ منشا مزدوروں ، دہقانوں کی فلاح و بہبود ہے ۔ اقبال کے اشعار آتش و شرارے اگلنے لگتے ہیں۔ ان میں ایک عتاب اور جلال پیدا ہوجاتا ہے ۔ ا قبال اپنے خیالات خدا کی زبان سے کہلواتے ہیں۔ اس انقلابی نظم کا عنوان ہے فرمان خدا فرشتوں سے۔
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلادو
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
میں ناخوش بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے
میرے لئے مٹی کا حرم اور بنادو
اس پوری نظم کا رنگ و آ ہنگ انقلابی ہے ۔ اقبال یہاں تک کہتے ہوئے نہیں چوکتے۔
بہتر ہے چراغ حرم و دیر بجھادو
ایک آتش فشاں لاوا ہے جو ابل رہا ہے ۔ چاہتا ہے کہ امیروں کے قصر و ایواں کو جلا کر بھسم کردے۔ فرسودہ و کہنہ نظام کو جلاکر خاکستر کردے ۔ ا یک نئے عادلانہ نظام نو کی تخلیق کی جائے ۔ جہاں ہر فرد بشر کو روٹی کپڑا مکان دستیاب ہو۔ ہر چہرے پر تبسم ہو۔ ہر آنکھ میں خوشی کے چراغ ہوں۔ سوسائٹی ہر نوع کے ظلم و ستم اور استحصال سے محفوظ رہے ۔ ہندوستان اس کسوٹی پر اترا اور نہ ہی پاکستان و افغانستان ۔ یہ تصور ایک Ideal State بن کر رہ گیا۔