روزنامہ سیاست کی تاریخ ساز خدمات جناب زاہد علی خان کو باوقار بزنس مین فخر الاسلام (فرینک اسلام) کے ہاتھوں مسلم مرر ایوارڈ

سعید حسین
اڈمنڈ برک (Edmund Burk ) آئی لینڈ کے ایک ممتاز سیاست داں‘ فلسفی اور شعلہ بیان مقرر تھے ‘ جنہوں نے 1789ء میں صحافت کو چوتھی مملکت کے طور پر متعارف کروایا۔ عالم صحافت میں اس چوتھی مملکت کو بڑی قدر سے دیکھا جاتا ہے۔ صحافت ایک امانت ہے۔ ایک اچھے صحافی کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ بذریعہ صحافت عوام میں صحیح اور بہترین پیغام پہنچانے کا کام کرتا ہے۔ وہ وقت کے خداؤں سے کبھی نہیں ڈرتا ان گنے چنے صحافیوں میں جناب عابد علی خان مرحوم کا نام سر فہرست ہے۔ جنہوں نے نامساعد حالات میں روزنامہ ’’سیاست‘‘ کا 15اگست 1949ء کو پہلا اخبار شائع کیا۔ اس اخبار کی اشاعت میں عابد علی خان صاحب کے ہمدم دیرینہ جناب محبوب حسین جگر صاحب آخری سانس تک آپ کے ساتھ رہے۔ یا یوں کہیے کہ ان دونوں حضرات کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ پچھلے 66سال بلا کسی تاخیر کے یہ اخبار برابر اپنی اشاعت جاری رکھے ہوئے ہے۔
1948ء میں حضور نظام ظل سبحانی سے راج پرمکھ بنا دیئے گئے تھے۔ ان نامساعد حالات میں امیران پائیگاہ ہیرے جواہرات بیچنے کے بعد اپنی جائیداد اور قیمتی ساز و سامان نہایت ارزاں قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے اور اس کا فائدہ سیٹھ ساہوکار اٹھا رہے تھے۔ اس طرح کے حالات ایک سچے مسلمان کو جس کے دل میں اُمت کا درد موجود ہے، وہ فوراً عوام کی بھلائی کے لئے کچھ کرنے کی تدبیر سوچتا ہے۔ یہی وہ تڑپ تھی جو عابد علی خان صاحب اور جگر صاحب کو کچھ کرنے کی طرف راغب کرتی ہے۔ یہی سوچ کا نتیجہ ہے کہ آج روزنامہ ’’سیاست‘‘ پچھلے 67 سال سے عوام کی خدمت میں لگا ہوا ہے۔
اس سے پہلے کہ میں روزنامہ ’’سیاست‘‘ اور زاہد علی خان صاحب کے تعلق سے کچھ لکھوں‘ مسلم مرر ڈاٹ کام اور فخر الاسلام (فرینک اسلام صاحب) کا تعارف قارئین ’’سیاست‘‘ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ Muslim Mirror.comایک کمیونٹی پورٹل ہے جو Solid Platform for Muslims & Weaker Section کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے‘ یہ ابھی صرف Online ہی اپنی خدمات تقریباً 40 ماہ سے بڑی کامیابی کے ساتھ عوام تک پہنچا رہا ہے۔ سید محمد زبیر احمد صاحب (چیف ایڈیٹر ) جنہوں نے 27؍جنوری 2012 سے بہ کارنامہ اپنے دو اور ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ مل کر شروع کیا۔ ممتاز عالم فلاحی صاحب اس کے سینئر جرنلسٹ ہیں اور عبدالرشید اعوان اور ڈاکٹر جاوید جمیل اس کے Auther & Thinker ہیں۔ Muslim Mirror جو زیادہ تر Weaker Sections اور مسلم کاز کے لئے کام کرتا ہے جو خبریں کہیں نہیں ملتیں وہ مسلم مرر میں مل جاتی ہیں۔ مسلم مرر ایک قابل بھروسہ اور باوقار Online صحافتی ادارہ ہے۔

فخر الاسلام (فرینک اسلام) کا تعارف اس لئے ضروری ہے کہ اس باوقار بزنس مین کے ہاتھوں جناب زاہد علی خان صاحب کو صحافت کا باوقار مسلم مرر (برائے سال 2016) ایوارڈ دہلی کے کلچرل سنٹر میں دانشوروں‘ مفکرین‘ صحافیوں اور اسکالرس کی موجودگی میں دیا گیا ۔ فخرالاسلام(فرینک اسلام) اعظم گڑھ کے ایک اوسط خاندان میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کیا اور 1968ء میں اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ روانہ ہوگئے۔ امریکہ میں اپنی تعلیم جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مختلف مقامات پر جاب کیا۔ 1994ء میں اپنی ایک QSS کے نام سے I.T کمپنی شروع کی اور پھر پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ اپنی محنت‘ ایمانداری اور جستجو سے اس کاروبار میں بہت ترقی حاصل کی جو فرینک اسلام اس وقت امریکہ کے تقریباً نصف درجن سے زیادہ یونیورسٹیزکے ممبر ہیں۔ صدر امریکہ اوباما نے فرہنک اسلام کو John Kennedy Center for Performing Arts کا بورڈ آف ٹرسٹی نامزد کیا ہے۔
گورنمنٹ آف اتر پردیش کی جانب سے فرینک اسلام کو 2015 میں اتر پردیش رتنا ایوارڈ چیف منسٹر اکھلیش یادو کے ہاتھوں دیا گیا۔ فرینک اسلام کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ 2USD ملین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو مینجمنٹ کالج کیلئے عطیہ دیا ہے۔ امریکہ میں بہت ہی شاندار محل نما مکان جو 47,000 Square Feet پر مشتمل ہے جودنیا کی عظیم عمارتوں میں سے ایک بہترین عمارت ہے۔ پریسیڈنٹ بارک اوباما نے فرہنک اسلام کا محل نما گھر دیکھنے کے بعد اپنی تقریر میں یہ کہا کہ کسی کو White House دیکھنا ہوتو وہ فرینک اسلام کا گھر دیکھ لے۔

پہلے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ روزنامہ ’’سیاست‘‘ کن حالات میں موجود میں آیا۔ جناب زاہد علی خان اپنے ایک مضمون میں جو ان کی کتاب ’’انداز بیاںاور‘‘ میرے چھپے ایک مضمون ’’شاید آجائے کوئی آبلہ پا میرے بعد‘‘ کے عنوان سے اخبار ’’سیاست‘‘ کے وجود میں آنے کے سلسلہ میں رقمطراز ہیں۔ آزادی ٔہندوستان کے ساتھ ملک تقسیم ہوچکا تھا۔ جانے والے تو اپنے پرکھوں کی ہڈیاں اور اپنے عزیزوں کو سسکتا بلکتا چھوڑ گئے۔ آہستہ آہستہ گرد بھی بیٹھ گئی ‘ لیکن حیدرآباد میں ایک پیچیدہ صورتحال یہ پیدا ہوگئی کہ مفرور قیادتیں جب وطن چھوڑ چکیں تو جذباتی قیادتوں نے حالات‘ قوت اور صلاحیت کا جائزہ لئے بغیر مسلمانوں کا استحصال کیا ‘ جس کے نتیجہ میں سقوط حیدرآباد نے مسلمانوں کو نہ صرف گہری مایوسیوں میں گھیرلیا بلکہ ان کی آنکھوں میں شب و روز خون کے دریا کا منظر تھا۔ اس کیفیت میں عابد علی خان صاحب اور محبوب حسین جگر صاحب نے یہ منصوبہ بنایا کہ مایوس اور افسردہ مسلمانوں کو خوف کی نفسیات سے باہر نکال کر ہندوستان کے آئین کے سانچہ میں اگر زندہ رہنے کا سلیقہ نہ مل پاے تو آزاد ہندوستان میں مسلمان غلامی سے بھی بدتر زندگی گذارنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ چنانچہ دونوں آشفتہ سروں نے نئے اخبار ’’سیاست‘‘ کا آغاز کیا۔ وسائل کی کمی تھی‘ مسائل بے شمار تھے‘ پونجی ختم ہوچکی تھی‘ آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا لیکن دونوں حضرات اس فکر میں سرگرداں تھے کہ اخبار کو جاری رکھنے کے لئے روپئے کا انتظام کس طرح کیا جائے۔

دوسرے دن صبح میں عابد علی خان صاحب ایک رومال میں کچھ زیوارات لائے اور جگر صاحب کے حوالے کرکے یہ کہا کہ ’’نشیمن کے یہ آخری تنکے ہیں اسے بھی برق کی صند پر رکھ دو تاکہ یہ الزام بھی نہ آئے کہ آشیانے کے دو تنکے ہی سہی متاعِ جان کے لئے بچا کر رکھ لئے گئے تھے۔ جگر صاحب نے عابد علی خان صاحب کے چہرے کی طرف دیکھا‘ ہاتھ خالی تھے لیکن چہرے پر وہی سکون اور استقلال جوں کا توں تھا۔
ایک شب جب سارا عملہ کام ختم کرکے اپنے اپنے گھر جانے کے لئے نکل پڑا یکایک ٹیلی پرنٹر کھڑکھڑانے لگا۔ جگر صاحب اور عابد علی خان صاحب نے ٹیلی پرنٹر پر یہ خبر دیکھی کہ نہرسوئیز پر حملہ ہوگیا۔ جگر صاحب نے چوکیدار کو دوڑایا وہ سیکل لے کر اسٹاف کو جمع کرنے نکل گیا۔ اتنے میں دونوں حضرات نے خبر کا اردو میں ترجمہ کیا۔ راتوں رات اس خبر کی بے شمار کاپیاں پرنٹ کروائیں اور سارے شہر میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ نہر سوئیز پر راتوں رات حملہ ہوگیا۔ دو گھنٹے میں سیاست کی بے شمار کاپیاں فروخت ہوچکی تھیں۔ سوائے اخبار ’’سیاست‘‘ کے کسی اور اخبارنے اس خبر کو نہیں چھاپا تھا۔ بس یہی وہ ایک لمحہ تھا کہ راتوں رات ’’سیاست‘‘ اخبار کو جو پذیرائی ملی پھر ان حضرات کو پیچھے پلٹ کر دیکھنا نہیں پڑا۔ اس طرح روزنامہ ’’سیاست‘‘ وجود میں آیا جو ملت کے دو اہم حضرات کا کارنامہ تھا۔
زاہد علی خان صاحب اس طرح لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ ابا نے مجھے اپنے کمرہ میں بلایا ‘ اُس وقت جگر صاحب بھی ان کے ساتھ کمرے میں موجود تھے۔ ابا نے مجھ سے کہا ’’بیٹھو‘‘ ان کے لہجہ میں اتنی سنجیدگی اور بھاری پن تھا کہ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے‘ کچھ دیر وہ خاموش رہے۔ پھر کہنے لگے ’’تم کو اب تک یہ معلوم تو ہوگیا ہوگا کہ ’’سیاست‘‘ کن کن مراحل سے گذر کر یہاں تک پہنچا ہے۔ میں آج تم سے یہ بات کہہ رہا ہوں اور یہی میری وصیت بھی ہے کہ ’’سیاست‘‘ ہماری جاگیر نہیں ہے۔ یہ قارئین ’’سیاست‘‘ کی محبت ہے کہ انہوں نے ہمیں اپنے اور اپنے مستقبل کی نسلوں کا امین بنایا ہے۔ میں نے اور جگر نے آج تک اس امانت کو بہت سنبھال کر رکھا ہے۔ ہم نے اپنا سفر تمام کیا اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ اس امانت کا بار اپنے کندھوں پر اٹھاؤ۔ میں رہوں نہ رہوں جگر تمہاری رہنمائی کرتے رہیں گے۔ مگر سب کو ایک دن گذر جانا ہے‘ مگر مجھے اپنے خون پر اور جگر کو اپنی تربیت پر اتنا بھروسہ ہے کہ تم زندگی بھر دیانت کے ساتھ اس سے نہ صرف عہدہ بر رہو گے بلکہ ملک کے بدلتے ہوئے حالات اور نئی نسل کے تقاضوں کے پیش نظر رکھ کر ملت اسلامیہ کی فلاح و بہبود کے لئے ضروری اقدام کروگے۔ تم آج یہ عہد کرو کہ تم ان توقعات پر پورا اتروگے۔ میں نے عابد علی خان صاحب اور جگر صاحب کے سامنے عہد کیا۔ لیکن میری آواز بھرآئی۔ اپنی آخری سانسوں کے درمیان انہوں نے جب بھی مجھے نظر بھر کے دیکھا تو گویا ان کی نگاہیں اس عہد و پیماں کا اعادہ کررہی ہوں۔ ان حضرات کی تربیت رائیگاں نہیں گئی اور ’’سیاست‘‘ بہت جلد ایک بھروسہ مند ادارہ بن گیا۔ ملت اسلامیہ نے بھرپور تعاون کیا اور ہر لمحہ اپنے پورے بھروسے اور یقین کا ثبوت دیا۔
گجرات میں فسادات کی آگ بھڑک اُٹھی‘ سیاست میں ریلیف فنڈ شروع ہوا۔ دنیا سمجھ رہی تھی کہ چار پانچ لاکھ پر یہ اپیل دم توڑ دے گی۔ لیکن ’’سیاست‘‘ کے پاس ڈھائی کروڑ جمع ہوگئے۔ یہ فنڈ یتیموں اور بیواؤں پر خرچ کیا گیا۔ مکانات ‘ مدرسہ اور ہسپتال تعمیر کروائے گئے۔ غرض ملت کا ایک ایک روپیہ غرباء و مساکین میں تقسیم کرکے ایک ایک پائی کا حساب رکھا گیا۔
مسلمان درد مند بھی اتنا ہی ہے۔ فیاض بھی اتنا ہی ہے۔ اور شاہ خرچ بھی برابر کا ہے۔ ملت فنڈ کے ذریعہ جو بھی رقم دستیاب ہوئی تھی‘ اسے نوجوانوں کی تعلیم پر لڑکیوں کی شادی پر ‘ بچوں کی تعلیم اور کتابوں پر خرچ کی گئی۔ اسی فنڈ کے ذریعہ سے مجبوب حسین جگر کیرئیر گاینڈنس اور ایمسٹ کوچنگ شروع کی گئی۔ مغربی لہجے کی بول چال‘ خواتین کے لئے خودروزگار تربیت اور گھریلو صنعتوں کا اہتمام کیا گیا۔ تاکہ خواتین باعزت روزگار حاصل کرسکیں۔ فزیکل انسٹرکٹر کے ذریعہ ان کی تربیت اور مناسب غذا کی فراہمی کا اہتمام کیا گیا‘ جس کے نتیجہ میں ہر سال نوجوان مسلسل پولیس میں بھرتی ہورہے ہیں۔ جب کبھی کسی یتیم کی شادی کا معاملہ آتا ہے ادارہ ’’سیاست‘‘ فوراً بعد تحقیق ان کی مدد کرتا ہے اقلیتوں کے مسائل حل کرنے میں ادارہ ’’سیاست‘‘ ہمیشہ پیش پیش رہتا ہے۔اقلیتوں سے کی جارہی ناانصافیوں کے خلاف ادارہ ’’سیاست‘‘ ہمیشہ اپنی آواز اٹھاتا ہے اور حتی المقدور ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سرکاری دواخانوں کے مردہ خانوں میں مسلم لاوارث نعشیں یا تو جلا دی جاجاتی تھیں یا ان کے گوشت کو تیزاب سے گلا کر ان کی ہڈیوں کے ڈھانچہآبنوس کی الماریوں میں سجا کر ایکسپورٹ کردیئے جاتے۔ میں نے کمشنر پولیس سے مل کر لاوارت لاشوں کو دواخانہ عثمانیہ کے مردہ خانوں سے لے کر ان کی تدفین کا انتظام کیا ہے۔

یوں تو ادارہ ’’سیاست‘‘ ہمیشہ فلاحی کاموں میں جٹا رہتا ہے۔ ادارہ سیاست نے عابد علی خان آئی ہاسپٹل کا قیام عمل میں لایا جس سے ہزاروں مریض شفایاب ہورہے ہیں۔ تقاریب میں ہمہ اقسام کا پکوان جس کو لوگ اپنے اسٹیٹس کا مسئلہ بنا کر بے دریغ روپیہ خرچ کررہے ہیں ‘ صرف نمود و نمائش کے لئے لاکھوں روپئے ضائع کئے جارہے ہیں۔ اگر ان روپیوں کا صحیح استعمال کیا گیا تو ہزاروں بے سہارا بچیوں کی شادیاں کی جاسکتی ہیں۔ کئی مستحق طلباء کو اعلیٰ تعلیم کے لئے یہ رقم استعمال میں لائی جاسکتی ہے۔ چنانچہ فضول خرچی کو روکنے کے لئے ادارہ ’’سیاست‘‘ نے ایک کھانا ایک میٹھا اسکیم متعارف کروائی۔ اس پر لوگ صدق دل سے عمل پیرا ہوں تو جو رقم بیہودہ رسم و رواج پر خرچ کی جارہی ہے وہ غرباء و مساکین میں تقسیم کی جاسکتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی تھی ایک شادی کی تقریب میں ایک دن کے لئے تقریباً ایک کروڑ روپئے خرچ کئے گئے۔ یہی رقم اگر مستحقین میں تقسیم کی جاتی تو بے شمار خاندان اس سے مستفید ہوتے۔ ادارہ سیاست کا ایک اور بہترین کارنامہ یہ ہے کہ رشتوں کے لئے دوبدو پروگرام شروع کیا گیا جس سے شہر ’’حیدرآباد ہی نہیں بلکہ خلیجی ممالک اور اضلاع کے لوگ بھی استفادہ کررہے ہیں۔ فی زمانہ لڑکیوں کی شادی ایک اہم مسئلہ ہے جس طرح حدیث مبارکہ ہے کہ ’’نکاح کو اس قدر عام کرو کہ زنا مشکل ہوجائے‘‘۔ لیکن ان دنوں دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ بے جا رسوم و رواج کی وجہ سے زنا آسان اور نکاح مشکل ترین ہوگیا ہے۔ میں ’’سیاست‘‘ کے ان تمام کارناموں کا احاطہ کرنہیں سکتا جس کے لئے مضمون کافی طویل ہوجائے گا بلکہ یہ کہوں گا کہ ادارہ ’’سیاست‘‘ کے انہی کارناموں کی وجہ سے جناب زاہد علی خان  کو ایک معزز و معتبر صحافت کے ادارہ ’’مسلم مرر ڈاٹ کام‘‘ کی جانب سے پرُوقار ایوارڈ امریکہ کی معزز ‘ معتبر اور نامور شخصیت جناب فحر الاسلام ’’فرینک اسلام‘‘ کے ہاتھوں عطا کیا گیا ہے‘ جو قابل مبارک ہے۔