رواداری کے جذبے سرد ہوجائیں تو کیا ہوگا

عدم رواداری…پرنب مکرجی کی برہمی
شکست کا خوف… ساکشی کو قبرستان اور برقعہ کی فکر

رشیدالدین
عدم رواداری پھر ایک بار ملک میں سر ابھارنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس مرتبہ عدم رواداری کے پرچارکوں کے نشانہ پر تعلیمی ادارے ہیں۔ گزشتہ سال جے این یو میں ماحول بگاڑنے کی کوشش کی گئی تھی اور اس مرتبہ دہلی یونیورسٹی نشانہ پر ہے۔ عدم رواداری کی یہ لہر دہلی سے نکل کر ملک کے دیگر شہروں میں پھیل چکی ہے، جس کی آڑ میں سنگھ پریوار اور بی جے پی کے قائدین اترپردیش میں سرگرم ہوچکے ہیں۔ قبرستان ، شمشان کے بعد اب برقعہ ان کا موضوع بن چکا ہے۔ یونیورسٹیز جو کہ علم کی دانش گاہیں ہیں، وہاں سے ملک کے ذمہ دار شہریوں کے بجائے مذہبی رواداری اور دستور میں دی گئی اظہار خیال کی آزادی کے مخالفین کو تیار کرنے کی سازش ہے۔ سنگھ پریوار اور بی جے پی نے ہندو راشٹر کے خواب کی تکمیل کیلئے علم اور دانش کے مراکز میں زہر گھولنے کا بیڑہ اٹھایا ہے ۔ مرکز میں نریندر مودی حکومت کا ہونا ایسے عناصر کے حوصلوں میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے ۔ حالات کچھ اس قدر بگڑ گئے کہ ملک کے اعلیٰ ترین دستوری عہدے یعنی صدر جمہوریہ کو مداخلت کرنی پڑی۔ پرنب مکرجی جو دستور کے اولین محافظ ہیں، انہیں مداخلت کرتے ہوئے دستور میں دیئے ہوئے حقوق کے بارے میں درس دینا پڑا۔ پرنب مکرجی نے عدم رواداری بریگیڈ کو واضح انداز میں وارننگ دی ہے کہ وہ اپنے رویہ سے باز آجائیں۔ پرنب مکرجی کے کرب کا اندازہ ان کے اس جملہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’ہندوستان میں عدم روادار ہندوستانیوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے‘‘ دوسرے معنوں میں پرنب مکرجی نے صاف کہہ دیا کہ ملک میں رہنا ہو تو رواداری کے اصولوں کو اختیار کرنا ہوگا۔ یونیورسٹی میں مذاکرات اور مباحث کا ماحول ہو نہ کہ عدم رواداری کے کلچر کا فروغ ۔ انہوں نے دستور میں دی گئی اظہار خیال کی آزادی اور ہر ہندوستانی کو دی گئی ضمانت کا  ذکر کیا۔

عام طور پر  صدر جمہوریہ حکومت کے کام کاج میں مداخلت نہیں کرتے لیکن جب حکمراں ملک کے حساس مسائل کی ان دیکھی کرنے لگے تو صدر جمہوریہ کو مداخلت کیلئے مجبور ہونا پڑا۔ دارالحکومت دہلی میں حکومت کی ناک کے نیچے طلبہ کے دو گروپس متصادم ہیں اور یونیورسٹی میں تناؤ کا ماحول ہے لیکن نریندر مودی یوگا کے فوائد پر لکچر دے رہے ہیں۔ ملک کے حکمراں کو کس بات کی فکر ہونی چاہئے اور وہ کیا کر رہے ہیں۔ اترپردیش کی انتخابی مہم مودی کیلئے سب کچھ ہے ۔ ہر واقعہ پہ ٹوئیٹ اور ریڈیو پر من کی بات کرنے والے مودی کو عدم رواداری کا کھیل دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ یوں بھی مودی کو رواداری اور عدم رواداری سے کبھی بھی دلچسپی نہیں رہی۔ دادری میں اخلاق کے قتل اور سماجی جہد کاروں پر حملوں کے بعد جب ادیب اور شاعروں نے اعزازات واپس کردیئے تب بھی مودی نے نفرت کے سوداگروں کے خلاف کارروائی نہیں کی ۔ ظاہر ہے کہ جس کی بنیاد اور شناخت عدم رواداری کے برانڈ ایمبسیڈر کی حیثیت ہو، وہ کیا لب کشائی کریں گے۔ گجرات میں ہزاروں بے گناہوں کے سرکاری سرپرستی میں قتل عام کی یادیں ابھی تازہ ہیں۔ احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری نے آخری سانس تک انصاف کیلئے جدوجہد کا فیصلہ کیا ہے لیکن عدم رواداری اور نفرت کے پرچارکوں کو ایسے افراد سے نفرت ہے جو اس بیوہ کی تائید کر رہے ہیں۔ جس شخص نے گجرات کے قتل عام کو گاڑی کے نیچے آنے والے کتے کے بچے سے تشبیہہ دی تو انہیں رواداری تو چھوکر بھی نہیں گزری ہوگی۔ یہ دوسرا موقع ہے جب صدر جمہوریہ نے عدم رواداری کے خلاف آواز بلند کی اور ہندوستان کی بقاء اور وجود کو رواداری سے جوڑتے ہوئے اپنے کرب کا اظہار کیا ہے ۔ صدر جمہوریہ نے یونیورسٹی اور طلبہ کے مسئلہ پر آواز اٹھائی جو قابل تحسین ہے لیکن ملک میں اہم عہدوں پر فائز سیاسی قائدین اور مذہبی منصب پر فائز افراد جس انداز سے نفرت اگل رہے ہیں، ان کے خلاف بھی کہنا چاہئے تھا ۔ صدر جمہوریہ کو یو پی کے پس منظر میں مودی کے قبرستان والے ریمارک اور آر ایس ایس قائد کی جانب سے چیف منسٹر کیرالا کا سر کاٹنے والے بیان پر بھی ردعمل ظاہر کر نا چاہئے۔ پرنب مکرجی نے دستور کے پاسبان اور نگرانکار کی حیثیت سے اپنی میعاد کے آخری مرحلہ میں قوم کے مفاد میں اچھی شروعات کی ہیں جو آنے والے صدر کیلئے مشعل راہ ہوگی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیراعظم مودی ان حالات کا نوٹ لیتے اور یونیو رسٹی میں تعلیمی ماحول کو بحال کرنے کی کوشش کرتے۔ برخلاف اس کے مرکزی وزراء اور بی جے پی قائدین جلتے پر تیل چھڑکنے کا کام کر رہے ہیں۔ شاید ان کے پیش نظر اترپردیش انتخابات ہیں۔ یونیورسٹی میں کشیدگی کے ذریعہ دہلی سے اترپردیش کی انتخابی مہم چلائی جارہی ہے۔ نفرت پھیلانے والے یہ عناصر حب الوطنی کا سرٹیفکٹ تقسیم کر رہے ہیں۔ جو کوئی عدم رواداری اور نفرت کے پرچار کے خلاف آواز اٹھائے ، اس پر دیش دروہی کا لیبل لگادیا جاتا ہے۔ آخر ہوتے کون ہیں یہ نام نہاد دیش بھکت اور کس نے یہ اختیار دیا ہے ۔ انہوں نے تو کارگل کے شہید کی دختر کو بھی ملک کا غدار کہہ دیا۔ اتنا ہی نہیں اے بی وی پی کی جانب سے دھمکیاں دی گئیں لیکن مودی حکومت نے تحفظ فراہم کرنے کے بجائے وزیر داخلہ کرن رجیجو سے کہلوایا کہ کوئی اس لڑکی کا دماغ خراب کر رہا ہے ۔ ملک پر جان نچھاور کرنے والے کی دختر کو تحفظ حاصل نہیں تو پھر عام شہریوں کی سلامتی کا کیا ہوگا۔ بات جب دادری اور گجرات کی چل پڑی ہے تو دنیا یہ جان کر حیرت میںہے کہ جس ریاست میں 4000 بے قصوروں کا خون بہایا گیا ، وہی ریاست 4500 گدھوں کی پرورش کر رہی ہے اور گجرات ٹورازم کے تحت یہ کام جاری ہے ۔ ملک بھر میں جس جانور کا نام ایک گالی ہے ، اس کی ٹورازم کے تحت پرورش اور اس کی تشہیر بالی ووڈ کے سوپر اسٹار امیتابھ بچن کے ذریعہ کرانا حکمرانوں کے ذہنیت کی عکاسی ہے ۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی اداکار کو پیسہ چاہئے، بھلے ہی تشہیر بیت الخلاؤں کی کرنی ہو یا پھر گدھوں کی۔ گجرات فسادات کے متاثرین کی آج تک بازآبادکاری نہیں کی گئی لیکن حکومت کو گدھوں کی آبادی میں اضافہ کی فکر ہے۔ امیتابھ بچن کہہ رہے ہیں ’’گدھا گالی نہیں تعریف کی تھالی ہے‘‘ ظاہر ہے کہ جب گدھا ’’ہینڈسم‘‘ اور ’’بھائی صاحب‘‘ کہلایا جائے تو ایسے افراد کی  ذہنیت پر ماتم نہیں تو کیا ہوگا؟ انسان کی پسند اور ناپسند سے اس کی شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے اور اب تو زوال پذیر ذہنیت میں بھلا شیر یا ہرن جیسے جانور کیوں پسند آئیں گے۔ نریندر مودی کی ریاست گجرات کی حکومت گدھوں کو دیکھنے کیلئے دنیا بھر سے سیاحوں کو دعوت نظارہ دے رہی ہے۔ اسے اقدار کی ترقی کہیں یا زوال، اس کا فیصلہ عوام کو کرنا ہوگا۔
اترپردیش میں شکست کے خوف سے عدم رواداری کے ایکٹرس کو متحرک کردیا گیا ہے۔ رام مندر ، طلاق ثلاثہ اور لو جہاد کے بعد اب قبرستان ، شمشان اور برقعہ جیسے مسائل نے مذہب کی بنیاد پر ووٹ تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ بی جے پی صدر امیت شاہ نے بالواسطہ طور پر دادری جیسے واقعات کی دھمکی دے ڈالی اور کہا کہ بی جے پی اقتدار میں آتے ہی پہلا قدم تمام مسالخ کو بند کرنے کا آرڈیننس جاری کرے گی ۔ یو پی میں بڑے جانور کے ذبیحہ کی اجازت نہیں ہوگی ۔ امیت شاہ جو اپنے سیاسی گرو نریندر مودی کی طرح چناوی جملے ادا کرنے میں ماہر ہیں ،شاید بھول گئے کہ ان کی پارٹی کو زیادہ ڈونیشن دینے والے بیف اکسپورٹرس ہیں۔ ملک میں بیف اکسپورٹ کے کاروبار میں مسلمانوں سے زیادہ دوسرے شامل ہیں۔ جب بی جے پی کو بھاری ڈونیشن بند ہوں گے تو پھر پارٹی کیسے چلے گی۔ نریندر مودی اور امیت شاہ کو اپنے بیانات سے یو ٹرن لینے کی مہارت حاصل ہے اور وہ بعد میں کہہ دیں گے کہ یہ چناوی جملہ ہے۔

جس طرح انہوں نے کالے دھن کی واپسی اور ہر شخص کو 15 لاکھ کی ادائیگی کے بارے میں کہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی نے بی جے پی کو ’’بھارتیہ جملہ پارٹی‘‘ کا نام دیا ہے ۔ مودی کے  اقتدار میں جارحانہ فرقہ پرستی اور عدم رواداری میں اضافہ ہوا۔ آر ایس ایس کے ایک لیڈر کی جانب سے چیف منسٹر کیرالا کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپئے مقرر کی گئی۔ آر ایس ایس نے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کردیا لیکن حکومت خاموش ہے۔ ایک منتخب چیف منسٹر کے بارے میں آر ایس ایس قائد کا یہ بیان انتہائی قابل اعتراض اور قانونی کارروائی کا متقاضی ہے۔ اترپردیش کے چناوی ماحول کو آلودہ کرنے کے اور نفرت کا زہر گھولنے کیلئے یوگی ادتیہ ناتھ ، سادھوی نرنجن جیوتی ، سنجیو بلیان ، ونئے کٹیا ، اوما بھارتی اور گری راج کشورمتحرک ہوچکے ہیں ۔ ساکشی مہاراج نے ان تمام کو پیچھے چھوڑ دیا اور قبرستان کے حوالے سے مسلمانوں کی میتوں کو جلانے کی صلاح دے ڈالی۔ اتنا ہی نہیں ساکشی نے اترپردیش چناؤ کے آخری مراحل میں برقعہ پوش خواتین پر نظر رکھنے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے ۔ قبرستانوں کو جگہ دینے پر ملک میں جگہ کی تنگی کا ساکشی کو اندیشہ ہے۔ وہ خود عمر کے اس حصہ میں ہے کہ پتہ نہیں کب زندگی کی شام ہوجائے لیکن وہ عادت سے مجبور ہے۔ انہیں اس بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں اور مسلمان قبرستان کے لئے شمشان کی زمین نہیں لیںگے ، لہذا ان کے آخری مراسم کیلئے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ وہ دفن ہونا چاہیں تب بھی ملک میں کافی زمین موجود ہے۔ ساکشی کو اس طرح کی بکواس کی ہمت دراصل وزیراعظم کے قبرستان اور شمشان کے ریمارک  سے حاصل ہوئی ہے ۔ ساکشی جیسے بھڑکاؤ بھاشن دینے والوں کو سابق ایم پی عبید اللہ خاں اعظمی نے کچھ اس طرح جواب دیا تھا کہ مسلمان مرکر بھی دو گز زمین میں دفن ہوتا ہے جو اس کی حب الوطنی کا ثبوت ہے لیکن جلائے جانے والوں کی راکھ پانی میں بہہ کر پاکستان چلی جاتی ہے ۔ ہندوؤں کے کئی گرو اور عیسائی اور یہودی بھی اپنے مردوں کو دفن کرتے ہیں۔ سائنسی نقطہ نظر سے بھی فضائی آلودگی سے بچاؤ کیلئے نعشوں کا جلانا نقصان دہ ہے۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے   ؎
مسیحا درد کے ہمدرد ہوجائیں تو کیا ہوگا
رواداری کے جذبے سرد ہوجائیں تو کیا ہوگا