رواداری پر دیئے گئے بیان کی سزا ملی عامر خان کو

کلدیپ نیر
میں فلموں کا شوقین تو نہیں لیکن عامر خان جیسے اداکاروں کی فلمیں ضرور دیکھتا ہوں کیونکہ ان کی اداکاری میں فطری پن ہوتا ہے ۔ اس طرح کے اداکار مجھے یہ احساس دلاتے ہیں کہ میں کوئی فلم نہیں دیکھ رہا ہوں بلکہ اپنی زندگی کو تازہ کررہا ہوں ۔ اس کا میں اعتراف کرتا چلوں کہ ’’تار کنڈے سالانہ لکچر‘‘ کے موقع پر عامر خان کا یہ تبصرہ مجھے اچھا نہیں لگا کہ ان کی اہلیہ نے اکثر ان سے کہا ہے کہ کیوں نہ وہ کسی دوسرے ملک کی سکونت اختیار کرلیںلیکن نریندر مودی نے سیاحت کو فروغ دینے کی غرض سے برانڈ امبسیڈر کی حیثیت سے ان کی مدت کی تجدید نہ کرکے اس تنازعہ کو پھر سے زندہ کردیا ہے  ۔ بی جے پی کون سا پیغام دے رہی ہے ، یہ میری سمجھ سے باہر ہے ۔ لیکن یہ واضح ہے کہ بی جے پی ان کے اس تبصرے کی سزا عامر خان کو دے رہی ہے ۔
میں اس تقریب میں موجود تھا کیونکہ اس وقت مجھے طویل حیاتی کارکردگی کے انعام سے سرفراز کیا گیا تھا ۔ عامر خان کا تبصرہ بھونڈا تو لگا تھا لیکن اشتعال دلانے والا نہیں تھا ۔ اس بات پر ان کی یہ مایوسی کہ ان دنوں رواداری کو پس پشت ڈال دیا گیا ،ملک میں رونما ہونے والے واقعات کے تناظر میں تھی ۔
ظاہر ہے کہ مودی حکومت عامر خان کے تبصرے کو نہ بھولی ہے نہ معاف کرسکی ہے اور اس نے عامر خان کی مدت کی تجدید نہیں کی ۔ اس سے لوگوں کی بھویں تن گئیں اور اعتدال پسندوں نے تو حکومت سے سوال بھی کیا کیونکہ وہ اسے مسئلہ نہیں بنانا چاہتے تھے ۔ پھر بھی اس میں شک نہیں کہ مودی حکومت نے عامر کو سزا دی ہے اور اس کی وضاحت نہیں کی کہ مدت میں توسیع کیوں نہیں کی گئی جو کہ ایک معمول کی بات ہے ۔ اس سے مودی حکومت پر سوالیہ نشان لگتا ہے ۔ اس نے سب کا ساتھ ، سب کا وکاس کا نعرہ لگا کر اقلیتوں کا منہ بند کیا لیکن کھلے طور پر انتہا پسند آر ایس ایس جو چاہتا ہے ، اس سے کراتا ہے ۔ یہاں تک کہ ’’پرسار بھارتی‘‘ نے جو بصورت دیگر ایک خود مختار ادارہ ہے ۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کو اپنے خیالات نشر کرنے کے لئے ریڈیو نیٹ ورک استعمال کرنے کی اجازت دے دی ۔ ملک کی آزادی کے بعد ایسا پہلی بار ہوا ۔ مودی حکومت کو یہ احساس نہیں ہے کہ وہ شاید قانوناً صحیح ہے لیکن اخلاقاً غلط ہے ، حکومت کی ہندو نوازی کے شک میں پہلے سے مبتلا اقلیتیں خوف زدہ ہو کر یہ محسوس کرتی ہیں کہ قانون کی نظر میں آئینی مساوات کی ضمانت رکھنے والے ملک میں وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں ۔ بی جے پی حکومت کے ذریعہ کی گئی تقرریوں سے تنگ نظری کی بو آتی ہے ۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ اعلی عہدوں پر فائز ہونے والے آر ایس ایس نواز اساتذہ پر روک لگانے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن مودی حکومت عوام کو جو پیغام دے رہی ہے وہ یہ ہے کہ اعلی تعلیم کے ادارے بھی اب خود مختار نہیں رہے بلکہ وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کے رحم وکرم پر ہیں ۔

پونہ کا ’فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ‘ ایک سال سے اس وجہ سے بند پڑا ہے کہ آر ایس ایس پرچارک گجیندر چوہان کو اس کا چیئرمین بنادیا گیا ۔ چوہان کو جو محض سلسلہ وار سیریلوں میں کام کرنے والے اداکار ہیں  کو کہیں زیادہ اہلیت والے افراد پر ترجیح دی گئی ۔ ممتازفلمی اداکاروں کی طرف سے یہ اشارہ ملنے کے باوجود حکومت کا موقف درست نہیں ہے ، مودی حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی ہے ۔
ایک اور واضح مثال پنکج نہلانی کی ہے ، جنہیں سینسر بورڈ کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا ۔ ایک اچھے فلم ساز کے طورپر ان کی اسناد سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا لیکن اس کے ساتھ ہی آر ایس ایس سے ان کے روابط کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ سی بی ایس سی کے چیئرمین بننے کے بعد سے بھگواکاری پر کافی تنقید ہوتی رہی ہے ۔ خوش قسمتی سے حکومت کا بڑھتا ہوا دباؤ کارگر ہوگیا ۔ تاہم فلم انسٹی ٹیوٹ کے معاملے میں حکومت اپنے موقف سے نہیں ہٹی ۔
میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ حکومت کی ’’بے مثال ہندوستان مہم‘‘ کے برانڈ امبسیڈر ہوتے ہوئے عامر خان کو مذکورہ بالا تبصرہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ یہ موقف اختیار کرنے سے پہلے انہیں اس منصب سے دست بردار ہونا چاہئے تھا ۔ دراصل جب انہوں نے یہ منصب قبول کیا تو پہلے پہل مجھے حیرت ہوئی ، وہ جانتے تھے کہ مودی حکومت کس چیز کی نمائندگی کرتی ہے اور یہ کہ آر ایس ایس کس طرح حکومت کو اپنی مٹھی میں لئے ہوئے ہے ۔
لیکن سب سے گہرا جھٹکا اس وقت لگا جب امیتابھ بچن نے اس حیثیت کو قبول کیا ۔ یہ تو معلوم ہے کہ حکومت نوازی کے موقف پر مائل رہتے ہیں خواہ کوئی بھی حکومت اقتدار میں ہو ۔ انہوں نے کانگریس کے امیدوار کی حیثیت سے الہ آباد کی نشست پر انتخاب لڑا  ۔اس کے بعد سے نہ انہوں نے کوئی موقف اختیار کیا اور نہ ہی کانگریس یا بی جے پی کے کسی برسراقتدار وزیراعظم کے ہم خیال رہے ۔ ان کی نظر چُپڑی پر مبنی رہتی ہے ۔ جب مودی گجرات کے وزیراعلی تھے تو اتفاق سے امتیابھ بچن گجرات کے برانڈ امبسیڈر تھے ۔ اگر امیتابھ بچن عامر خان کے جبری اخراج کی وجہ سے اس منصب کو قبول کرنے سے انکار کردیتے تو ان کی طرف سے یہ پیغام جاتا کہ امیتابھ بچن اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کرتے ۔ مگر جو کچھ میں ان میں دیکھنا چاہتا ہوں وہ ہے نہیں ۔

ان کی اہلیہ جیا بچن کی ہی مثال لیجئے جنہیں سماج وادی پارٹی کے ملائم سنگھ نے دوبار راجیہ سبھا کے لئے نامزد کیا ۔ دراصل پارٹی چاہتی تھی کہ وہ 2014 کے انتخابات میں لوک سبھا کی نشست کے لئے لڑیں لیکن اس سے ان کے انکار پر ملائم سنگھ نے پھر بھی ان کے لئے گنجائش نکالتے ہوئے دوسری مدت کار کے لئے راجیہ سبھا کا ممبر نامزد کردیا۔ یہ تمام باتیں اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ امیتابھ بچن موقع سے فائدہ اٹھانے میں بڑے ہوشیار ہیں ۔ انہوں نے اس کا ذرا بھی خیال نہیں کیا کہ بی جے پی کی تنگ نظری میں عامر خان کے دلیرانہ تبصرے پر انہیں کس طرح سزا دی گئی اور توہین آمیز طریقے سے نکالا گیا ۔عوام کو اس واقعہ سے سبق لینا چاہئے ۔ سیکولر جمہوری ملک میں ہر شخص کے لئے گنجائش ہونی چاہئے ۔ جس میں تنقید کرنے والے بھی شامل ہیں ۔پاکستان اسلامی ریاست ہے اور ہندوستان تکثیری ملک ہے ، جہاں آزادی اظہار کی ضمانت ہے اور اقلیتوں کو آزادی اظہار کا پورا حق حاصل ہے ۔ افسوس یہ کہ اسد الدین اویسی جیسے افراد آزادی تقریر کا بیجا استعمال کرکے ہندو ۔ مسلم اختلافات کو وسیع کررہے ہیں ۔
گیند بی جے پی کے پالے میں ہے ۔ پارٹی کو رواداری کی فضا قائم کرنی چاہئے ۔ مجھ جیسا شخص بھی محسوس کرتا ہے کہ ملک کو ہندوتوا کا رنگ دیا جارہا ہے اور اسے تکثیریت کی راہ سے ہٹایا جارہا ہے ۔ ہندوستان کی فضا یہ نہیں رہی ہے اور نہ ہی آئین اس کی اجازت دیتا ہے ۔ آزادی کی جد وجہد صرف انگریزوں کے نہیں بلکہ 150 سالہ اقتدار کے دوران پیدا کردہ فرقہ وارانہ تفریق کے بھی خلاف تھی ۔ ہمیں ایسا ماحول تخلیق کرنا ہے ، جہاں عامر خان کو اقلیتوں کے درد کی جھلک پیش کرنے والا تبصرہ نہ کرنا پڑے ۔