روئے زمین پہ سینکڑوں آئے اور چلے گئے سنگھ پریوار کس کھیت کی مولی ہے ؟

 

محمد رؤف الدین ایڈوکیٹ
دنیا کی تاریخ میں انسان کے ہاتھوں انسانوں کی بربادی اور قتل عام کے سینکڑوں واقعات درج ہیں۔ ایسے واقعات پڑھ کر شریف اور عام لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایسی درندگی اشرف المخلوقات سے کس طرح سرزد ہوسکتی ہے ؟ لیکن ایسا ہوا ہے اور آج کے Civilized دور میں جہاں انسانی حقوق ، جمہوریت ، سوشلزم اور سیکولرازم و مذہبی آزادی اور رواداری کی باتیں بکثرت بولی اور سنی جاتی ہیں۔ خلافِ انسانیت اور انتہائی افسوسناک حد تک ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جس پر شاید درندے بھی شرمسار ہوجائیں۔
پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم میں لاکھوں انسان ہلاک ہوگئے لیکن ہیروشیما وناگاساکی پر امریکہ نے ایٹم بم گراکر آناً فاناً میں لاکھوں معصوم جاپانیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
یہی وہ امریکہ ہے جس نے 9/11 کے واقعہ کے بعد افغانستان و عراق کو تباہ و برباد کردیا ۔ 2001 ء سے انسانی جانوں کی ہلاکتیں ہورہی ہیں ، شہر کے شہر دھماکوں سے بمباری سے خودکش حملوں کے ذریعہ ویران بنادیئے گئے ہیں۔ سترہ سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے ، پھر نئی پلاننگ کے ذریعہ 2011 ء سے داعش کو جنم دے کر ملک شام کے لاکھوں معصوم انسانوں پر ایک قیامت صغریٰ تھوپ دی گئی ہے ۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے جس کی لپیٹ میں دیگر مسلم ممالک بھی آگئے ہیں۔ اس ملک میں دو بڑی طاقتوں کا بھی آمنا سامنا ہے جو بہت ہی ٹیکنیکل انداز میں اپنی اپنی طاقت کا استعمال کر رہے ہیں لیکن اس جنگ میں لاکھوں شامی عوام بچے بوڑھے اور خواتین بے گھر و بے آسرا ہوگئے ۔ کئی ایک جان بچانے اور دیگر ممالک میں پناہ حاصل کرنے کی جدوجہد میں المناک موت سے دوچار ہوگئے ۔ یہ سلسلہ ابھی پوری طرح ختم بھی نہیں ہوا کہ میانمار (سابق برما) کی ریاست راکھین میں روہنگیائی مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ حکومت میانمار کی سرپرستی میں وہاں کی فوج کے ذ ریعہ انتہائی غریب مفلوک الحال مسلمانوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کیا جارہا ہے کہ اس پر ساری انسانیت شرمسار ہے۔ معصوم اور غریب لڑکیوں کا gang rape کیا جارہا ہے ۔ خاندانوں کے خاندانوں کے خاندان ختم کردیئے گئے ہیں۔ بچوں کو ماں باپ کے سامنے اور ماں باپ کو ان کی اولاد کے سامنے گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا ہے۔ گاؤں کے گاؤں جلاکر راکھ کردیئے گئے ہیں۔ تقریباً چار لاکھ پئینتیس ہزار روہنگیائی مسلمان اپنی جان بچاکر بنگلہ دیش میں داخل ہوگئے ہیں۔ جن کی حالت قابل رحم ہے ۔ قدرتی آفات و بلائیات کا وہ شکار ہوگئے ہیں۔ بارش کے سبب کھلے آسمان کے نیچے اور پانی میں ڈوبے ہوئے بدن کا بوجھ لئے اللہ کے رحم و کرم پر پڑے ہوئے ہیں۔ جنہیں کسی قسم کی کوئی راحت نہیں۔ کئی ایک بیماریوں کا شکار بچے گندگی کے سبب موت و زیست کے درمیان سانس لے رہے ہیں۔ سب سے پہلے ترکی کے صدر اردغان نے حکومت بنگلہ دیش سے اپیل کی کہ وہ ان روہنگیا مسلمانوں کیلئے پناہ گزین کیمپ قائم کرے اوران کیلئے غذا پانی اور دیگر سہولتوں کا بندوبست کرے جس کا خرچ حکومت ترکی برداشت کرے گی۔ چنانچہ اس سلسلے میں ترکی کی طرف سے امداد کا سلسلہ شروع کیا جاچکا ہے ۔ پھر حکومت سعودی عرب کے شاہ سلمان نے بھی 1.5 کروڑ امریکی ڈالر کی مدد بہم پہنچانے کا اعلان کردیا ۔ دنیا کے دیگر مسلم ممالک بھی اس خصوص میں امدادی سامان مہیا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حکومت ہند کی طرف سے بھی کچھ امداد روانہ کی گئی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ہندوستان میں مقیم تقریباً چالیس ہزار روہنگیائی مسلمانوں کو ملک سے واپس میانمار بھیج دینے کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے ۔ ایک ایسے وقت جبکہ انہیں انسانی بنیادوں پر مدد کی ضرورت ہے حکومت ہند کی بی جے پی حکومت کا رویہ بڑا ہی تکلیف دہ نظر آتا ہے ۔ حالانکہ بعض اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ ان کے ساتھ اپنا رویہ تبدیل کرتے ہوئے نیپالی و تبتی عوام کے ساتھ جو رو اداری کا سلوک روا رکھا گیا ہے ، ان ہی خطوط پر اپنی پالیسی مرتب کرے یا کم از کم حکومت میانمار پر اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے انہیں ترغیب دی جائے کہ وہ ان روہنگیائی مسلمانوں کو دوبارہ اپنے ملک (میانمار) میں آباد کرے اور انہیں کوئی قانونی موقف عطا کرے جہاں وہ زمانہ دراز سے آباد ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت میانمار انہیں اپنا شہری تسلیم نہیں کرتی اور انہیں وہ غیر قانونی ایمگرینٹس تصور کرتی ہے جو بنیادی طور پر بنگالی ہیں اور بنگالی سے غیر قانونی طور پر میانما (سابق برما) میں گھس آئے ہیں۔ 2012 ء میں بھی حکومت میانمار نے روہنگیائی مسلمانوں پر بڑ ے مظالم ڈھائے ہیں اور اس وقت بہت سارے روہنگیائی مسلمان اپنی جان بچاکر ہندوستان میں داخل ہوگئے تھے ۔ 2012 ء میں مرکز میں کانگریس زیر قیادت UPA سرکار تھی جس نے انسانی بنیادوں پر انہیں یہاں قیام کرنے کا موقع دیا ۔ چنانچہ UNO کے رجسٹریشن کے تحت تقریباً پندرہ ہزار روہنگیائی مسلمانوں کو پناہ گزین کی حیثیت سے رجسٹریشن کیا گیا تھا ۔ باقی تقریباً پچیس ہزار روہنگیائی غیر قانونی حیثیت سے ہندوستان میں قیام پذیر ہیں جنہیں بی جے پی کی موجودہ سرکار نام نہاد سیکوریٹی بنیادوں پر میانمار واپس بھیج دینا چاہتی ہے جہاں ان کی زندگیوں کو سخت خطرہ لاحق ہے۔
امریکہ ۔ برطانیہ اور یوروپی ممالک کے علاوہ خود سکریٹری جنرل UNO نے حکومت میانمار سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روہنگیائی مسلمانوں کو قتل کرنا بند کرے اور ان کی بازآبادکاری کے لئے اقدامات کرے لیکن میانمار کی حکومت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور روہنگیائی مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہے ۔ اب تو یہ عالم ہے کہ ان پناہ گزینوں کو پہنچائی جانے والی امدادی گاڑیوں اور پناہ گزینوں پر پٹرول بم پھینکتے ہوئے انہیں ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ہندوستان، بنگلہ دیش، پاکستان، انڈونیشیا، ملایشیا اور دیگر یوروپی ممالک میں عوام حکومت میانمار کے مظالم کے خلاف احتجاجی ریالیاں منعقد کر رہے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف ظالمانہ کارروائیوں کا سلسلہ بند کرے اور انہیں اپنے ملک میں دوبارہ آباد ہونے کا موقع فراہم کرے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کے حالیہ دورہ میانمار کے وقت کچھ نہ کچھ ایسی بات ضرور ہوئی ہوگی جس کی بناء پر حکومت کا موجودہ موقف بڑا سخت دکھائی دے رہا ہے ۔ آر ایس ایس ، بی جے پی اور سنگھ پریوار سے وابستہ شدت پسند جماعتوں کو چاہئے کہ وہ انسانی نقطہ نظر سے روہنگیائی مسلمانوں کے مصائب کو دیکھیں اور ہماری قدیم تہذیب ، رواداری اور بھائی چارگی کے جذبہ کو مد نظر رکھتے ہوئے نہ صرف موجودہ حالات میں اپنی پالیسی کو بدلیں بلکہ آئندہ کیلئے بھی ہمارے دستور کے مطابق عمل کرے۔ عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی پالیسی کو فوراً ختم کرے۔ تاریخ کے صفحات کو الٹ کر دیکھے کہ ظالم حکومتوں اور برسر اقتدار طاقت پر زعم کرنے والے حکمرانوں کا کیا حشر ہوا۔ آج ان کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے تو تم کس کھیت کی مولی ہو ؟