ریاض ۔ 24 جون (سیاست ڈاٹ کام) سعودی عرب کے شہر میں واقع مساجد کے سامنے رمضان المبارک کے دوران آپ کو گداگروں کا سمندر نظر آئے گا جو اپنے ہاتھوں میں ایک آدھ زخمی بچے کو تھامے رہتے ہیں اور بھیک مانگتے ہیں۔ مساجد میں آنے والے زیادہ جنوبی ایشیائی شہری ہوتے ہیں جن کی تنخواہیں قلیل ہوتی ہیں اس کے باوجود بھی گداگروں کیلئے کم سے کم ایک ریال علحدہ نکال کر رکھ لیتے ہیں اور جیسے ہی کسی مخصوص گداگر کے کشکول میں ریال ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو وہ منٹوں میں بھر جاتا ہے۔ رمضان المبارک کے دوران خیرات اور عطایات دینا اس کے اہم جزو ہیں۔ رمضان کے شروع ہوتے ہی گداگر سڑکوں پر نکل آتے ہیں لیکن جاریہ سال ایک معروف خیراتی ادارہ سعودی شہریوں سے اپیل کررہا ہے کہ وہ اپنی امداد کہیں اور دیں۔ الولید فلینتھیر اسپیس جو سعودی تاجر پرنس الولید بن طلال کی ملکیت ہے، کا کہنا ہیکہ گداگری کے لئے بھی ’’سڑکوں کی گینگس‘‘ موجود ہیں جو دراصل رمضان کے مقدس مہینہ میں زیادہ سرگرم ہوجاتی ہیں کیونکہ گداگری میں 50% تک اضافہ ہوجاتا ہے۔ گداگروں کے پاس جو بچے ’’زخمی‘‘ ہوتے ہیں یا معذور بتائے جاتے ہیں وہ سب دھوکہ دینے کیلئے کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب میں ہر سال صرف بھیک مانگ کر 700 ملین ریال (187 ملین ڈالرس) کمائے جاتے ہیں لہٰذا اب ایک نئی مہم کے ذریعہ سعودی شہریوں سے اپیل کی جارہی ہیکہ وہ اپنے عطایات، زکوٰۃ و فطرہ حقیقی طور پر مستحق لوگوں کو یا اداروں کو دیں جس کیلئے ویب سائیٹ بھی مہیا کی گئی ہے۔