رمضان ، روزے ، نماز اور مسلمان

عرفان جابری

مقدس ماہ ِصیام کے چاند کی رویت کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی حیدرآباد کی مسجدوں میں نمازِ عشاء اور پھر تراویح کی ادائیگی کیلئے مصلیوں کی تعداد بڑھنے لگی، مسلمان جوق در جوق جمع ہونے لگے، یکایک مسلمانوں کی ٹھوس طاقت کا احساس بڑھنے لگا۔ رمضان کے پیش نظر کئی مسجدوں کو روشنیوں سے منور کیا گیا ہے۔ خاص طور پر بڑی مساجد کے پاس رات کے اوقات میں روح پرور مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ زیادہ تر مسلم اکثریتی علاقوںمیں رات دیر گئے تک گہماگہمی کا ماحول رہتا ہے۔ اِس ماہِ رمضان کے رویت ہلال کا اعلان ہونے سے ایک روز قبل تک جو مسلمان نمازِ عشاء کیلئے مسجد کا رُخ نہیں کرتے تھے بلکہ اندرون چوبیس گھنٹے کی دیگر چار فرض نمازوں (فجر تا مغرب) کی وقت پر ادائیگی سے بھی غافل رہتے تھے، وہ اب فرض نماز کے ساتھ سنت و نوافل کی ادائیگی کا بھی خاص اہتمام کرتے نظر آرہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ایسے مسلمانوں میں یہ مثبت تبدیلی قائم و دائم رہے اور جب بحیثیت مجموعی مسلمانوں کی دینی فرائض کے تئیں دلچسپی بڑھے گی تو اُن کی زندگیوں کے حالات میں بھی ضرور اچھی تبدیلیاں واقع ہوں گی۔ اِن شاء اللہ!
تاہم، برسہابرس سے جاری مشاہدوں سے جو اندیشے پیدا ہورہے ہیں وہ باعث تشویش ہیں۔ اِس رمضان سے قبل تک کئی برسوں میں مجھے یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ عامۃ المسلمین کی اکثریت نے نماز کو رمضان اور روزے سے مشروط کررکھا ہے۔ مسلمان ہونے کے باوجود بندگی کی سب سے بڑی علامت فرض نماز سے غفلت کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بدستور فضل فرماتا رہے۔ یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ زیادہ تر مسلمانوں نے رمضان کو ایک ماہ کا مخصوص موقع بنالیا ہے؛ کسی کو دینی امور کی کچھ جانکاری ہو تو وہ اِس ماہ کی حد تک روزوں کے ساتھ نمازوں کی پابندی کرلیتا؍ کرلیتی ہے بلکہ تراویح کے اہتمام سے بھی دلچسپی رکھتا؍ رکھتی ہے؛ کسی کو دینی امور اور فرائض سے معقول واقفیت نہ ہو تو وہ چند روزوں اور چند نمازوں کے اہتمام پر اکتفا کرلیتے ہیں؛ کوئی بزنسمین کو کچھ دینی شغف بھی ہو تو وہ رمضان اور اپنے بزنس میں حتی المقدور توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر وہ بزنسمین دین بیزار ہو تو اس کے پاس ماہ رمضان زبردست کمائی کا بس ایک موقع بن کر آتا ہے اور کچھ نہیں!
جب عامۃ المسلمین کی روِش ایسی ہوگی تو ہم اللہ کی مدد کے طلب گار کیوں کر ہوسکتے ہیں اور اللہ کی نصرت ہمارے لئے کیوں کر آئے گی۔ اسلام چند بنیادی اور ناگزیر پہلوؤں پر قائم ہے۔ اول، ایمان ہے تو مسلمان ہے؛ ایمان ہی نہیں ہے تو دنیا کے تمام غیرمسلم افراد اِس کسوٹی کے اعتبار سے آپس میں مساوی ہیں۔ ایمان کیا ہے اور ایمان لے آنے کے بعد کسی مسلمان کیلئے اُخروی کامیابی کیلئے کیا اقل ترین چیزیں درکار ہیں، اُن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے۔ سورہ (نمبر 2) البقرہ کی چند ابتدائی آیتوں کا مفہوم ملاحظہ فرمائیے:…
قرآن مجید کے اللہ کی کتاب ہونے میں کوئی شک نہیں، جو پرہیزگاروں کو راہ دکھانے والی ہے۔ جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں اور اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اُس پر جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اُتارا گیا اور جو آپؐ سے پہلے اُتارا گیا، اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں۔ (آیات 2 تا 5)
ان آیتوں کی یوں تشریح بھی کی جاسکتی ہے کہ کتابِ الٰہی (قرآن مجید) گو کہ تمام انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کیلئے نازل ہوئی ہے، لیکن اس چشمہ فیض سے سیراب صرف وہی لوگ ہوں گے، جو آب حیات کے متلاشی اور خوف الٰہی سے سرشار ہوں گے۔ جن کے دل میں مرنے کے بعد اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر جواب دہی کا احساس اور اس کی فکر ہی نہیں، اُن کے اندر ہدایت کی طلب، یا گمراہی سے بچنے کا جذبہ ہی نہیں ہوگا تو اُن کو ہدایت کہاں سے اور کیوں کر حاصل ہوسکتی ہے؟ ایمان کیلئے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ بندہ ؍ بندی غیب کی باتوں پر یقین رکھے یعنی ایسی چیزیں مراد ہیں جن کا ادراک عقل و حواس سے ممکن نہیں۔ جیسے ذاتِ باری تعالیٰ، وحی الٰہی، جنت، دوزخ، ملائکہ وغیرہ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کی بتلائی ہوئی ماورائے عقل و احساس باتوں پر یقین رکھنا ہی جزو ایمان ہے اور ان کا انکار کفر و ضلالت ہے۔ صاحب ِ ایمان ہونے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اقامت صلوٰۃ کی فرضیت ہے یعنی پابندی سے سنت نبوی صلعم کے مطابق نماز کا اہتمام کرنا ہے (یہاں اللہ تعالیٰ نے تخصیص نہیں کی کہ نمازوں کی پابندی رمضان کے روزوں میں جو ش و خروش سے کرنا چاہئے، نیز ماقبل اور مابعد رمضان نماز Optional یا اختیاری ہوجاتی ہے؛ نیز پورا رمضان عبادت کا اہتمام کرلیا اور مان لو کہ شب قدر بھی نصیب ہوگئی، تب بھی رمضان کے بعد فرض نمازیں معاف نہیں ہیں) اور کسی فرد پر زندگی میں جب نماز فرض ہوجائے تو پھر تاحیات اس فرض سے چھوٹ نہیں ہے چہ جائیکہ وہ فرد عاقل نہ رہے اور ہوش جاتا رہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے إنفاق کی بات کہی ہے جو صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں پر مشتمل ہے۔ اہل ایمان حسب اِستطاعت دونوں میں کوتاہی نہیں کرتے، بلکہ ماں باپ اور اہل و عیال پر صحیح طریقے سے خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے اور باعث اجر و ثواب ہے۔ پھر ایمان کا یہ بھی حصہ ہے کہ مسلمان کو پچھلی کتابوں پر بھی اتنا یقین رکھنا چاہئے کہ یہ کتابیں انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوئیں، وہ سب سچی ہیں، وہ اب اپنی اصل شکل میں دنیا میں پائی نہیں جاتیں، نیز اب ان پر عمل بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اب عمل صرف قرآن اور اس کی تشریح نبویؐ (احادیث) پر ہی کیا جائے گا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وحی و رسالت کا سلسلہ آنحضرت ﷺ پر ختم کردیا گیا ہے، ورنہ اس پر بھی ایمان لانے کا ذکر اللہ تعالیٰ ضرور فرماتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مسلمان ایمان لانے کے بعد تقویٰ و عمل اور عقیدہ صحیحہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ محض زبان سے اظہارِ ایمان کو کافی نہیں سمجھتے۔ کامیابی سے مراد آخرت میں رضائے الٰہی اور اس کی رحمت و مغفرت کا حصول ہے۔ اس کے ساتھ دنیا میں خوش حالی اور سعادت و کامرانی مل جائے تو سبحان اللہ۔ ورنہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے!
یوں اللہ تعالیٰ نے قرآن کے ابتدائی حصے کی چند آیتوں میں ہی تمام انسانوں کو اُخروی کامیابی کے طریقہ حصول کا خلاصہ پیش کردیا ہے۔ سب سے پہلے کسی بھی بندہ؍ بندی کو مسلمان بننے کیلئے اللہ کی ذات پر اور دیگر اُمورِ غیبیہ پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اللہ کی ذات اور صفات پر ایمان میں ذرا سا بھی نقص ’شرک‘ کہلائے گا جو خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘ (سورہ 31 لقمان۔ آیت 13)۔ یعنی اللہ ساری مخلوقات اور ساری کائنات کا خالق ہے، پالنہار ہے، مالک ہے ؛ اس طرح کا عقیدہ ہم کسی اور ذات سے منسوب نہیں کرسکتے۔ پھر اللہ کی صفات کی ایک مثال یہ ہے کہ وہی مشکل کشا ہے اور بندہ کو جب مصیبت پیش آئے تو وہ اُسی سے رجوع ہوتا ہے، اس کے برعکس کسی اور ذات کو مشکل کشا سمجھ کر اُس کے دربار سے رجوع ہونا قابل قبول نہیں ہے۔ اس کے بعد مسلمان کی پوری زندگی میں نماز کی اہمیت کا پتہ چل جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کے جزو کے فوری بعد اقامت صلوٰۃ پر زور دیا ہے جو پوری زندگی کیلئے ہے، وہاں کوئی مخصوص مدت کا ذکر نہیں ہے (اللہ تعالیٰ نے قرآن میں شرک سے بچنے اور نماز قائم رکھنے کی جابجا تاکید کی ہے)۔
معزز قارئین ضرور جانتے ہوں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کا نزول سورہ علق (نمبر 96) کی پہلی آیت ’’اِقراْ……‘‘سے شروع ہوا تو 23 سالہ طویل مدت تک حسب موقع اور حسب ضرورت جاری رہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لوگوں کیلئے قرآن مجید کی جو ترتیب طے کردی ، اُس کے ابتدائی حصے میں ہی اُخروی کامیابی کیلئے درکار خلاصہ پیش کردیا۔ اسلام کے دیگر بنیادی ارکان زکوٰۃ، روزہ اور حج کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بعد میں کیا ہے۔ علاوہ ازیں اہل ایمان کیلئے یہ مالی اور بدنی عبادتیں مشروط ہیں، ان کا معاملہ نماز جیسا نہیں۔ عاقل و بالغ اہل ایمان کیلئے نماز کسی صورت معاف نہیں جبکہ زکوٰۃ ادا کرنے کی فرضیت صاحب استطاعت ہونے سے مشروط ہے، نادار و غریب مسلمان سے پوچھ نہیں ہوگی کہ اُس نے زکوٰۃ ادا کیوں نہیں کی؟ ٹھیک یہی معاملہ حج و عمرہ کا ہے۔
جہاں تک روزہ اور تراویح کا معاملہ ہے، روزہ بہترین بدنی عبادت ہے اور تراویح کا درجہ فرض نماز کے بعد ہے۔ روزہ عمدہ بدنی عبادت کے ساتھ ساتھ نیکی، خداترسی، صبر، استقامت، اور مجموعی طور پر تقویٰ کی تربیت دیتا ہے۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ آج کل غیررمضان کے ساتھ ساتھ رمضان کے روزوں کے دوران بھی مسلمانوں کو غیبت و چغلی کے گناہ میں ملوث ہوتے دیکھا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک سے زیادہ جگہ غیبت کی سخت تنبیہ فرمائی ہے (سورہ 12یوسف، آیت 31؛ سورہ 49 الحجرات، آیت 12؛ سورہ 104 الھمزہ، آیت 1)۔ اس کے باوجود عام مسلمان روزہ کی حالت میں بھی دیگر مسلمانوں کے تعلق سے اُن کے غیاب میں اور پیٹھ پیچھے اُن کی بُرائی کرنے سے نہیں چوکتے ہیں۔ حالانکہ کسی کی غیبت کرنا ایسا ہی ہے جیسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا۔ اتنی خبیث بات ہونے کے بعد بھی مسلمانوں کا اپنی زبان کو ایسے گناہ میں ملوث کرنا بہت دکھ کی بات ہے۔
آئیے ! ہم سب اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ہمیں قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور پھر اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں فرض نماز کا عادی بنائے، فرض نمازکی ادائیگی ہم پر آسان کردے۔ ہمیں نام و نمود اور ریاکاری سے بچاکر خالص رضائے الٰہی کی خاطر عبادات میں اولیت و فرضیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان میں مشغول رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ ثم آمین۔
irfanjabri.siasatdaily@yahoo.com