رقم برائے ووٹ اسکام تحقیقات پرموقف رپورٹ طلب

دہلی پولیس کو سپریم کورٹ کی ہدایت، رقمی لین دین سے متعلق ایف آئی آر پر مرکز کا استدلال اطمینان بخش نہیں : جسٹس آفتاب عالم
نئی دہلی 7 جولائی (پی ٹی آئی) سپریم کورٹ نے آج دہلی پولیس کو ہدایت دی ہے کہ رقم برائے ووٹ اسکام میں اب تک کی گئی تحقیقات پر اپنے موقف پر مبنی رپورٹ اس کے سامنے پیش کردے۔ جولائی 2008 ء میں یو پی اے حکومت کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کے دوران رقم برائے ووٹ اسکام رونما ہوا تھا۔ جسٹس آفتاب عالم کی زیرقیادت بنچ نے پولیس کو یہ بھی ہدایت دی ہے کہ وہ 15 جولائی تک اپنی موقف رپورٹ پیش کرے۔ رقم برائے ووٹ اسکام کی دو ماہ کے اندر تحقیقات مکمل ہوچکی ہے اور رقمی دین لین کے خلاف درج کردہ ایف آئی آر سے متعلق مرکز کے استدلال کو جسٹس آفتاب عالم نے اطمینان بخش قرار نہیں دیا۔ بنچ نے کہاکہ دو ماہ کی مدت طویل ہوتی ہے۔ فی الحال آپ تحقیقات کے موجودہ موقف کے بارے میں ہمیں بتائیں۔ بنچ نے اس معاملہ کی مزید سماعت 15 جولائی کو مقرر کی ہے۔ سالیسٹر جنرل گوپال سبرامنیم نے کہاکہ موقف رپورٹ کو ایک مقررہ مدت کے اندر سربمہر لفافہ میں عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ عدالت نے سابق چیف الیکشن کمشنر جے ایم لنگڈوہ کی جانب سے داخل کردہ ایک درخواست پر یہ احکام جاری کئے ہیں۔ لنگڈوہ نے اپنی درخواست میں عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ اسکام میں ملوث سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے حکومت کو ہدایت دیں۔ درخواست میں یہ الزامات بھی عائد کئے گئے ہیں کہ ملک کے سارے عوام کو یہ منظر دیکھ کر صدمہ ہوا تھا کہ بی جے پی کے 3 ارکان پارلیمنٹ نے تحریک اعتماد کے لئے رائے دہی کے دوران انھیں دی گئی رشوت کی رقم کے کرنسی نوٹ کے بنڈل پارلیمنٹ میں دکھائے تھے لیکن خاطیوں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ درخواست کے مطابق اگرچیکہ یہ واقعہ 22 جولائی 2008 ء کو پیش آیا تھا، اس سلسلہ میں نہ ہی دہلی پولیس کرائم برانچ نے ایف آئی آر درج کیا ہے اور نہ ہی کشور چندر دیو کی زیرقیادت مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے چیرمین نے بھی ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ یہ کمیٹی رقم برائے ووٹ کے الزامات کی تحقیقات کررہی ہے۔ کمیٹی نے خاطیوں کے خلاف اب تک کوئی قابل قبول قدم نہیں اٹھایا۔ لنگڈوہ نے اپنی درخواست میں سپریم کورٹ پر زور دیا ہے کہ وہ حکومت کو ہدایت دیتے ہوئے ان الزامات کی تحقیقات کے لئے ایک آزادانہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے اور اس تحقیقات کو 6 ماہ کے اندر مکمل کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ انھوں نے یہ بھی درخواست کی کہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کو کامل اختیارات دیئے جانے چاہئے اور اُنھیں تحقیقات کے لئے بہترین عہدیداروں کے انتخاب کی آزادی بھی دی جانی چاہئے۔