رشوت ستانی کے خلاف مہم

بہت مشکل ہے جینا اس جہاں میں
مگر مرنے میں آسانی بہت ہے
رشوت ستانی کے خلاف مہم
عام آدمی پارٹی نے عوام الناس کو صاف ستھری سیاست اور حکومت دینے کے جذبہ کے ساتھ اقتدار کے حصول کی کوشش کی لیکن دہلی میں بی جے پی کی طاقت کو شکست دے کر حکومت تشکیل دینے والے اروند کجریوال نے اپنی حکومت اور کابینہ پر کوئی آنچ آنے نہیں دینا چاہتے ہیں۔ اسی لئے رشوت کے الزام پر ہی انہوں نے اپنی کابینہ سے وزیر فوڈ اینڈ سیول سپلائیز عاصم احمد خاں کو برطرف کردیا۔ اس کیس کو سی بی آئی سے بھی رجوع کردیا گیا۔ بدعوانانی یا جعلسازی کے سلسلہ میں ایک چیف منسٹر کا استقدامی فیصلہ سیاسی نوعیت سے حیران کن ہے۔ بغیر کسی جانچ اور ثبوت کے صرف الزامات کی بنا  پر کسی وزیر کو برطرف کرنے کی کارروائی کا مقصد مخالف پارٹیوں کو یہ بتانا ہے کہ چیف منسٹر کی حیثیت سے اروند کجریوال اپنے قول و فعل میں یکساں موقف  رکھتے ہیں۔ جب اقتدار کا مزا عروج پر ہوتا ہے اور کوئی دخل دینے والا نہ ہو تو یکطرفہ کارروائی ہوتی ہے۔ مگر اروند کجریوال کی اس کارروائی پر شاباشی دینے کی بھی ضرورت ہے کیوں کہ انہوں نے بی جے پی کو ایک راہ دکھائی ہے کہ بدعنوانیوں کے الزامات پر ہی وہ اپنے وزیر کو برطرف کرسکتے ہیں تو بی جے پی کے کئی قائدین کے خلاف بدعنوانیوں کے الزامات ثابت ہونے کے باوجود اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔ ان میں چیف منسٹر مدھیہ پردیش شیوراج سنگھ چوہان اور چیف منسٹر راجستھان وسندھرا راجے شامل ہیں۔ اگر بی جے پی واقعی بدعنوانیوں کے خاتمہ کے لئے سنجیدہ ہے تو اروند کجریوال کی طرح ٹھوس قدم اٹھاتے ہوئے اپنے بدعنوان چیف منسٹروں اور وزراء کو برطرف کرنا چاہئے۔ کجریوال سے اس چیلنج کو قبول کرنا بی جے پی کے بس کی بات نہیں ہے۔ وقار اور اقتدار کا جہاں معاملہ ہوتا ہے وہاں سیاسی جذبہ اور بدنیتی کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ کجریوال نے اپنی پارٹی اور اپنے قول سے وقار دیانتداری کے جذبہ کا مظاہرہ کیا ہے مگر ان کی اس عجلت پسندی سے پیدا ہونے والی صورتحال خاص کر عام آدمی پارٹی قائدین میں عدم تحفظ کے احساس سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ اگر اروند کجریوال نے اپنے وزیر کو محض اس لئے برطرف کیا ہے کہ وہ اس سیاسی تماشہ کے ذریعہ بہار میں بی جے پی کے امکانات کو کم کرنے میں کامیاب ہوں گے تو پھر کسی وزیر کے خلاف تحقیقات کے بغیر کی جانے والی کاروائیاں ناراضگیوں کو جنم دیتی ہیں۔ پہلے ہی سے عام آدمی پارٹی کے کئی قائدین کے اندر پارٹی سربراہ کی کارکردگی اور آمرانہ حرکتوں سے ناراضگی پائی جاتی ہے۔ لوگوں کو حیرت زدہ کرنے والی کاروائیوں سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ الزامات کے مطابق عاصم احمد خاں نے اپنے حلقہ اسمبلی میں ایک غیر قانونی تعمیرات کے لئے 6 لاکھ روپئے کی رشوت کا مطالبہ کیا تھا یہ پہلا موقع ہے کہ کجریوال نے سرگرمی کے ساتھ قدم اٹھاتے ہوئے احتیاطی تدابیر کے طور پر کارروائی کی ہے تاکہ بی جے پی کی تنقیدوں کا شکار ہونے سے بچاجاسکے۔ انہوں نے عام عاصم احمد خاں کی جگہ بلی ماران کے رکن اسمبلی عمران حسین کو کابینہ میں شامل کیا ۔ کجریوال اپنی حکومت میں ایک نئی نظیر قائم کرنا چاہتے ہیں تو یہ ان کا نیا کلچر آگے چل کر سیاسی ماحول میں بہتر تبدیلی لاسکتا ہے تو یہ کامیاب پہل ہوگی لیکن بی جے پی نے دہلی کابینہ کے وزیر کی برطرفی پر شبہ ظاہر کیا ہے کیوں کہ کجریوال کا مزاج ہمیشہ نبردآمائی کا ہوتا ہے۔ وہ کبھی اپنی حکومت کے اندر لوگوں سے الجھتے ہیں تو کبھی اپوزیشن سے مدبھیڑ ہونے میں دلچسپی دکھاتے ہیں اس سے نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا۔ کابینہ سے ایک وزیر کی برطرفی کا نتیجہ زیادہ سے زیادہ یہی نکلے گا کہ کچھ دن تک ان کی پارٹی کے قائدین محتاط ہوجائیں گے۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ رشوت ستانی کے خلاف کارروائی کرنے کے اصولوں پر عمل کیا جانے انصاف کے ترازو کو تھامے بغیر اقدامات کرنے کو اپوزیشن پارٹیاں تماشاہی سمجھیں گی۔ کسی بھی ریاست میں حکومت کا اپنی میعاد پوری کرنا کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہوتا ہے۔ اصل کارنامہ تو یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس حکومت سے خوش ہوں اور دوبارہ اقتدار کے لئے ووٹ دینے میں پیش پیش ہوں۔ حکومت کی سطح پر بدعنوانیوں کی بدنصیبی میں سب سے بڑا عمل دخل یہاں کے سیاستدانوں کا ہوتا ہے۔ سیاستداں جب پیسہ کمانے کے معاملہ میں بے چین روح واقع ہوتا ہے تو خرابیاں پیدا ہوکر تغفن پھیلاتی ہیں۔ برسوں سے ہندوستانی سیاست میں پائی جانے والی خرابیوں میں رشوت کی لعنت بھی ایک خرابی ہے جس کو دور کرنے کے لئے اروند کجریوال نے ہمت دکھائی ہے مگر ان کی اس ہمت اور حوصلے کو سیاسی مطلب براری کی نذر کردیا جائے تو پھر خرابیاں دور ہوجانے کی امید بھی موہوم ہوگی۔
گوشت کی تجارت
ملک کا سربراہ جب کٹر پسندانہ فرقہ پرستانہ مائینڈ سیٹ کے ساتھ حکومت کرتا ہے تو عوام کے لئے ایک پر امن ماحول کا موجود رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اترپردیش میں گائے کے ذبح کے مسئلہ پر ایک 50 سالہ مسلم شخص کے قتل کے واقعہ پر ساری دنیا میں احتجاج ہورہا ہے مگر ہندوستانی سرکار اور نظم و نسق ان خاطیوں کو سبق سکھانے میں ناکام ہے جو گائے کو ماتا کا درجہ دے کر نقص امن کا خطرہ پیدا کررہے ہیں۔ دادری واقعہ کے بعد یو پی کے ایک اور شہر مین پوری میں ہجوم نے گائے کاٹنے کے شبہ میں ہنگامہ آرائی کی اور چار افراد کو زدوکوب کیا۔ تشدد برپا کرکے دوکانات موٹر گاڑیاں نذر آتش کردیں۔ پولیس نے بظاہر تشدد پسندوں کے خلاف کارروائی کی ہے اور 22 افراد کو گرفتار کیا ہے لیکن گائو کشی کا مسئلہ جس تیزی سے شدت اختیار کرتا جارہا ہے وہ آگے چل کر ملک بھر کو آگ کی لپیٹ میں ڈھکیل دے گا۔ بہار اسمبلی انتخابات کے سامنے فرقہ پرستوں کو مسلسل کھلی چھوٹ کا فائدہ اٹھانے والی پارٹیاں اس ملک اور عوام کا کوئی بھلا نہیں سوچ رہی ہیں۔ بی جے پی پر الزام ہے کہ وہ فرقہ پرستوں کے حوصلے بڑھارہی ہے۔ گائوکشی کے خلاف مہم کی سرپرستی کرنے والی پارٹیوں اور ٹیموں کے تعلق سے یہ کہا جارہا ہے کہ جو لوگ گائے کو دبح کرنے کی مخالفت کررہے ہیں دراصل وہی لوگ عالمی مارکٹ میں گوشت سربراہ کرنے والے بڑے ٹھیکہ دار ہیں۔ بی جے پی کے کئی سربراہ قائدین خاص کر میرٹھ کے حلقہ اسمبلی سردھانا کے ایم ایل اے سنگیت سنگھ سوم حلال میٹ کی کمپنی ال دعا فوڈ پراسسنگ پرائیوٹ لمیٹیڈ کے پارٹنر ہیں۔ وہ معین الدین قریشی نامی شخص کے ساتھ مل کر گوشت بیرون ممالک برآمدات کا کاروبار کرتے ہیں۔ بی جے پی کے دیگر کئی کرتا دھرتا میٹ بزنس میں ملوث ہیں لیکن لوگوں کو گوشت کھانے کے خلاف مہم چلانے کے لئے اکسارہے ہیں۔ اپنی تجارت کو چارچاند لگانے یعنی ہندوستان میں گوشت کی کھپت کو کم کرنے سے جانور سستے ہوں گے اور سستے جانوروں کو بڑے بیوپاری حاصل کرکے ان کا گوشت ایکسپورٹ کرلیں گے تو منافعہ دوگنا سہ گنا ہوگا۔ سیاسی و تجارتی حربوں کے درمیان  عوام الناس کو آپس میں لڑانے والی طاقتیں اس ملک و قوم کا کوئی بھلا نہیں کررہی ہیں لہٰذا عوام کو ہی ہوش میں آنے کی ضرورت ہے کہ آپسی بھائی چارہ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تباہ کرنے والی یہ طاقتیں اپنے فائدہ کی خاطر ہندو۔مسلم فسادات کو بڑھاوا دے رہی ہیں۔ مرکزی حکومت کی سطح سے لے کر ضلع انتظامیہ تک اگر بددیانتی تعصب پسندی اور نفرت پر مبنی خدمات انجام دیئے جانے کا آرڈر مل رہا ہے تو پھر عوام کی یہ بدنصیبی ہے کہ انہوں نے اپنے لئے خسارہ کا سودا کرتے ہوئے حکومت کو منتخب کیا ہے۔