رسول اللہؐ نے دعوت حق کیلئے طائف کی طرف سفر کیا

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا کا تاریخ اسلام اجلاس۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی کا خطاب

حیدرآباد ۔7؍مئی( پریس نوٹ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ۱۰ نبوی میں دعوت حق کے لئے طائف کی طرف سفر کیا۔ اس سفر میں حضرت زیدؓ بن حارثہ ساتھ تھے۔ اثناء راہ جتنے قبائل تھے ان سبھوں کو اسلام کی طرف بلایا۔ طائف میں بنو ثقیف آباد تھے جن کے سرداروں کو حضورؐ نے اسلام کی دعوت دی۔ان سرداروں نے نہ صرف یہ کہ دعوت کا انکار کیا بلکہ اپنے ملازموں اور اشرار کو حضورؐ کے ساتھ زیادتی پر مامور کیا۔ چنانچہ جب حضورؐ وعظ فرماتے تو یہ بدبخت پتھر پھینکا کرتے۔ انہوں نے اتنی بربریت کی کہ جسم اقدس لہو لہان ہو گیا۔دوران واپسی عتبہ و شیبہ فرزندان ربیعہ نے اپنے غلام عداس کو حضورؐ کی خدمت کے لئے بھیجا۔ عداس نے اپنے مالکین کے بھیجے ہوئے انگور پیش کئے اور جب  اسے پتہ چلا کہ آپ نبی ہیں تو بے حد تعظیم و تکریم کی۔ طائف والوں کے شدائد اور مظالم کے باوجود حضور رحمۃللعلمین نے ان کے لئے بددعا نہیں کی بلکہ اس امید و یقین کا اظہار کیا کہ ان کی آئندہ نسلیں ایمان لانے والی ہونگی۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح 9 بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی اور 11.30بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی، مالاکنٹہ روڈ،روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل (انڈیا) آئی ہرک کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۲۵۰‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے دونوں سیشنس میں واقعات قبل ہجرت مقدسہ کے معظم و مکرم موضوع پر مبنی توسیعی لکچر دئیے۔ قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے دونوں سیشنس کا آغاز ہوا۔ ڈاکٹرسید محمد حمید الدین شرفی نے سلسلہ بیان جاری رکھتے ہوے سیرت النبی ابن ہشام کے حوالے سے بتایا کہ رسول اللہؐ نے انگور تناول کرنے سے پہلے ’’بسم اللہ‘‘ کہا۔ یہ سن کر عداس نے کہا کہ یہ بات تو ایسی ہے کہ یہاں کے لوگ نہیں کہا کرتے۔ رسول اللہؐ کے دریافت فرمانے پر عداس نے اپنے کو نینوا کا باشندہ بتایا۔ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ وہ (حضرت) یونس ؑ کی بستی ہے۔ عداس کے پوچھنے پر رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’یونس ؑ میرے بھائی نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں‘‘۔ عداس بہت متاثر ہوا اور رسول اللہؐ کی والہانہ تعظیم کی۔ عداس کے مالکین نے دور سے یہ منظر دیکھا اور عداس کو بلاکر اس کی وجہ دریافت کی۔عداس نے جواب دیا کہ ’’اے میرے سردار! زمین پر کوئی چیز ان سے بہتر نہیں ہے۔ انھوں نے مجھے ایسی بات بتلائی ہے جسے نبی کے سوا کوئی اور نہیں جانتا‘‘۔ڈاکٹر حمیدالدین شرفی نے سیرت حلبیہ کے حوالے سے بتایا کہ طائف سے واپسی کے دوران حضرت جبرئیل ؑبارگاہ رسالت پناہیؐ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے بنو ثقیف کے بدترین سلوک کو دیکھا ہے اور مجھے پہاڑوں کے نگران فرشتے کے ساتھ آپ کے پاس بھیجا ہے۔آپ (بنو ثقیف کو سزا دینے کے لئے) جو چاہیں اس فرشتے کو حکم فرمائیں‘‘۔ ان پہاڑوں کے فرشتے نے حضورؐ سے عرض کیا کہ ’’اگر آپ چاہیں تو میں ان پہاڑوں کے درمیان اس قوم کو کچل ڈالوںگا‘‘۔ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’نہیں! مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد میں ضرور ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ شرک نہیں کریں گے‘‘۔اس پر پہاڑوں کے فرشتے نے حضور ؐ سے عرض کیا کہ ’’جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نام دیا ہے آپ حقیقت میں رء وف و رحیم ہیں‘‘۔مکہ میں داخلہ سے قبل حضورؐ نے چند روز نخلہ میں قیام فرمایا۔ یہاں پر ایک رات حضورؐ نماز پڑھ رہے تھے کہ پاس سے جنوں کی ایک جماعت گزری۔ وہ حضورؐ کی تلاوت سنتے رہے اور جب نماز ختم ہوئی تو وہ جن ایمان لے آئے اور اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے اور ان کو اللہ سے ڈرایا۔سورۃ الاحقاف میں اس واقعہ کا ذکر اس طرح ملتا ہے ’’ (اے نبیؐ!) اس وقت کو یاد کرو جب کہ ہم نے آپ کی جانب جنوں کی ایک جماعت کو مائل کر دیا کہ وہ قرآن سن رہے تھے، اور جب وہ پاس آئے تو (آپس میں ) کہنے لگے کہ خاموش رہو، جب (تلاوت) تمام ہوئی تو وہ اپنی برادری میں واپس گئے کہ (ان کو) نصیحت کریں‘‘۔