رفیعہ نوشین
آج صبح سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ ہی مجھے خبر ملی کہ تائی ماں کی زندگی کا سورج غروب ہوچکا ہے ۔ وہ تائی ماں جو ہر ذی نفس سے محبت کرتی تھیں۔ اس دارفانی سے کوچ کر گئی تھیں۔ محبت اور موت دونوں ہی بن بلائے مہمان ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ کب ہم کو اپنے قابو میں کرلیں گے ۔ دونوں کا اثر کم و بیش ایک جیسا ہوتا ہے ۔ محبت دل چرا لیتی ہے تو موت اس کی دھڑکن۔
ہم جیسے ہی تائی ماں کے گھر پہنچے ہماری تایا زاد بہنیں زرین اور مہوین ہم سے بغلگیر ہوکر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ ہم بھی چشم نم کے ساتھ ان کی پیٹھ سہلاتے رہے اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔
ہم نے دیکھا ہمیشہ ہماری آمد کا بے صبری سے انتظار کرنے والی تائی ماں آج سفید لبادہ اوڑھے پرسکون سورہی تھیں جیسے انہیں اس بات کا یقین ہو کہ آج تو سبھی لوگ آئیں گے، وہ جن سے تعلق تھا اور وہ بھی جو قطع تعلق کرچکے تھے۔ تائی ماں کے سرہانے 20-25 اگر بتیاں ایک ساتھ جل رہی تھیں اور فضاء کو معطر بنارہی تھیں۔ کچھ خواتین تلاوت کر رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد ساری اگر بتیاں گل ہوگئیں تو میں نے سوچا کچھ اور جلادیں۔ میں نے جیسے ہی اگر بتی کی طرف ہاتھ بڑھایا ایک خاتون نے فوراً میرا ہاتھ تھام لیااور کہنے لگیں اگر بتیاں صرف ایک بار جلائی جاتی ہیں ، دوبارہ نہیں۔ میں نے پوچھا کیوں ؟ بس ایسا ہی ہوتا ہے ۔ کیوں …؟ یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم ۔ اس نے غضبناک لہجے میں مجھے جواب دیا جیسے میں نے کوئی غلط بات کہہ دی ہو۔
جب میت کو غسل دینے کا وقت آیا تو کوئی آگے نہیں آرہا تھا ۔ زرین اور مہوین تو غم سے نڈھال تھیں، جو 50 سال کے آس پاس تھے ، وہ تو صاف یہ کہہ کر ہٹ گئے کہ ہم سے کہاں ہوگا؟ جو نوجوان خواتین تھیں ،ان میں سے کسی کو شرعی عذر تھا تو کسی کو میت کو ہاتھ لگانے سے خوف ہوتا تھا ۔کتنی عجیب بات تھی ۔ جیتے جی جن کا ہاتھ اپنے سرپر رکھ کر دعا کی خواہشمند خواتین آج انہی سے خوف زدہ تھیں۔ سانس کا ایک رشتہ پل بھر میں کتنی دوریاں پیدا کرگیا تھا!
خیر جب میں غسل دینے کیلئے آگے بڑھی تو دو اور خواتین بھی ساتھ ہولیں۔ غسل دینے سے پہلے ہی غسالہ نے صاف کہہ دیا تھا کہ غسل کی ذمہ داری تو بہو بیٹیوں کی ہی ہوتی ہے ، میں صرف آیتیں پڑھوں گی اور طریقہ بتاؤں گی ۔ باقی سارا کام آپ ہی کو کرنا ہے اور میں سوچنے لگی اگر یہ بات ہے تو پھر لوگ انہیں غسالہ کیوں کہتے ہیں ؟
بہر کیف غسل کی تکمیل کے بعد تائی ماں کو کفن پہنایا گیا اور آخری دیدار کیلئے سب کو بلایا گیا تو غسالہ اپنے دوپٹہ کا دامن پھیلاکر میت کے پاس بیٹھ گئیں اور کہنے لگیں ’’چلو اماں جلدی جلدی دیدار کرتے جاو اور پیسے ڈالتے جاؤ‘‘۔ تمہاری دی ہوئی نوٹ ثابت کرے گی کہ تمہیں میت سے کتنی محبت ہے ۔ میں دلہن اور نوزائیدہ کی منہ دکھائی کے بارے میں تو جانتی تھی جب ان کا چہرہ دیکھنے کے بعد انہیں بطور تحفہ کچھ رقم دیجاتی ہے ۔ مگر یہ پہلا اتفاق تھا جہاں میت کی منہ دکھائی کی قیمت بٹوری جارہی تھی۔ تعجب تو اس بات پر ہوا کہ سب بلا چون و چرا غسالہ کی جھولی میں پیسے ڈالتے گئے اور بعد میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ نیا رواج کب سے شروع ہوا …؟ اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ کب ہوا ؟ کیونکر ہوا یا کون اس کے موجد ہیں ؟
جیسے ہی مردانہ جنازہ کے ساتھ قبرستان کیلئے روانہ ہوا ۔ غسالہ بیٹھ کر جمع شدہ رقم گننے لگی اور پھر زرین سے کہنے لگی بی بی یا تو تمہارے سارے رشتہ دار غریب ہیں یا پھر بے انتہا کنجوس ۔ کل ملاکر 500 روپئے بھی وصول نہیں ہوئے جبکہ ہر جگہ مجھے ہزار دو ہزار تو مل ہی جاتے ہیں ۔ ثواب کا ہی تو کام ہے۔ ایسے مواقع بار بار تھوڑے ہی آتے ہیں اور پھر وصول شدہ پیسوں کو اپنے پرس میں ٹھوس کر وہ چل پڑی۔ سارے لوگ ایک دوسرے کو حیرت و استعجاب سے دیکھتے رہ گئے۔
شام کو جب سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہورہے تھے تو مہوین کی پھوپی نے تائی ماں کی بہو کو بلایا اور نصیحت کرنے لگیں کہ ’’دیکھو بہو گھر کے بڑے تو گزر گئے اب تمہاری ذمہ داری ہے کہ گھر میں ہمیشہ چراغ جلائے رکھنا اور بھابھی کے نام سے روزانہ کسی غریب کو کھانا ضرور کھلانا۔ خیال رہے کہ ان کی پسندیدہ چیزیں زیادہ سے زیادہ بنیں تاکہ ان کی روح کو سکون ملے اور بہو بیگم ہاں کے اشارے میں سر ہلاتی رہیں۔
زیارت کے دن پھر سب جمع ہوئے تو پھوپھی نے فوراً بہو بیگم کو بلایا اور پوچھا ’’بہو بیگم کل سے بھابھی کے نام کا کھانا کسی غریب کو کھلانا ہے ۔ تم نے اس کا انتظام کردیا نا‘‘ ؟
یہ سن کر بہو بیگم بولیں ’’کیا بتاؤں پھوپھی جان آپ کو انتقال کے دوسرے دن سے ہی کسی غریب عورت کی تلاش شروع کردی تھی ۔ پر کوئی مل ہی نہیں رہی تھی ۔ آخر کار مسجد میں اعلان کروایا تو تب ایک صاحب نے کہا کہ وہ کل سے آئیں گے کھانا لے جانے‘‘۔
بہو بیگم کی بات سن کر میں سوچنے لگی، شہر کے ہر بازار چوراہے ، مندر ، مسجد ، ہوٹل ، سگنل ، ہر جگہ ہمیں غربت کی منہ بولتی تصاویر گداگروںکی شکل میں دکھائی دیتی ہیں جس کیلئے حکومت پریشان ہے اور ان کی بازآبادکاری کیلئے اقدامات بھی کر رہی ہے اور یہاں انہیں ایک وقت کا کھانا کھلانے کیلئے ایک غریب نہیں مل رہا ہے، تعجب ہے !
دہم کی فاتحہ پر جب میں تائی ماں کے گھر پہنچی تو اصلی گھی اور مغزیات کی سوندھی سوندھی خوشبو باہر تک مہک رہی تھی۔ اندر داخل ہوئی تو دیکھا کہ سب لوگ حلوہ اور شیر مال کا سینڈوچ بنانے میں مصروف تھے ۔ یہ بات میری سمجھ سے باہر تھی کہ ؎
مرنے والے تو مرجاتے ہیں
اُن کے غم میں لوگ حلوہ شیرمال کیوں کھاتے ہیں؟
دیکھتے دیکھتے 40 دن کا عرصہ گزر گیا اور پھر تائی ماں کے چہلم کا کارڈ بھی آگیا۔
جب میں تائی ماں کے گھر پہنچی تو سب کی نگاہیں کسی کی منتظر تھیں۔ وہ تھیں حیات بی جو ابھی تک آئی نہیں تھیں۔ میرے پوچھنے پرپتہ چلا کہ حیات بی وہی غریب عورت ہیں جو روزانہ تائی ماں کے نام کا کھانا لے جانے کیلئے آتی ہیں۔ اچانک شور ہوا کہ حیات بی آگئیں۔ دیکھا تو ایک 50-55 سالہ عورت و مرد صاف ستھرے کپڑے پہنے داخل ہوئے۔
’’کیا بات ہے حیات بی آج بڑی دیر لگادی‘‘ بہو بیگم نے سوال کیا۔ ’’کیا کروں اماں تمہارا ایک گھر تو ہے نہیں جہاں سے میں کھانا لیتی ہوں ، 56 محلوں میں جانا کھانا لینا ، ان سب میں وقت تو لگتا ہی ہے نا ، انہوں نے جواب دیا۔
فطرتاً میں نے کچھ کھوج کی تو پتہ چلا کہ دونوں میاں بیوی روزانہ ایسے کئی گھروں سے کھانا لینے جاتے ہیں، جہاں کسی کا انتقال ہوتا ہے ۔ اپنے اس مقصد کی تکمیل کیلئے انہوں نے مساجد کے پیش امام صاحب سے رابطہ قائم کر رکھاہے جو انہیں ہر مرنے والے کی اطلاع فراہم کرتے ہیں اور یہ لوگ وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ آنے جانے کیلئے حیات بی نے ایک آٹو کا راتب بھی کرلیا ہے ۔ جس میں بیٹھ کر وہ لوگ کھانا لینے جاتے ہیں ۔ میں نے آٹو کے اندر جھانک کر دیکھا تو پیچھے کی طرف 6 مختلف اقسام کے توشے دان تھے جن میں سے مختلف قسم کے پکوانوں کی ملی جلی خوشبو آرہی تھی ۔ آٹو والا بتا رہا تھا کہ یہ سارے توشے دان دوسرے دن ان کے سارے خاندان کیلئے کافی ہوجاتے ہیںاور انہیںکچھ پکانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
بحر کیف حیات بی سے کہا گیا کہ وہ جلدی سے ان کپڑوں کو پہن لیں جو تائی ماں کے نام سے ان کے لئے بنائے گئے تھے ۔ وہ جھٹ اٹھیں اور 10 منٹ میں تیار ہوکر آگئیں۔ نئی ساڑی ، بلاؤز ، چپل ، چوڑیاں ، مسی اور نہ جانے کیا کیا ! سب کچھ تو انہوں نے پہن لیا تھا ۔ سوائے چوڑیوں کے۔ جسے لیکر وہ اپنے شوہر کے پاس پہنچیں اور انہیں پہنانے کیلئے کہا تو وہ پہنانے لگے اور پہناتے پہناتے بولے مہوین کیا تمہاری امی کو کنکر کا جوڑا پسند نہیں تھا ؟ ’’کیوں نہیں وہ تو بڑے شوق سے پہنتی تھیں‘‘ ۔ مہوین نے جواب دیا۔
’’تو پھر تم نے حیات بی کی چوڑیاں لاکر گویا اپنی ماں کو تکلیف دی ہے۔ تمہیںتو ان کی خوشی کیلئے بھاری کنکر کا جوڑا لانا چاہئے تھا۔ انہوں نے ناگواری سے کہا۔
’’دیکھو تو بلاؤز کا رنگ بھی ساڑی سے برابر میچ نہیں کر رہا ہے ۔ حیات بی نے بلاؤز کو بتاتے ہوئے کہا ۔ یہ سب سن کر مہوین بیچاری خاموش بیٹھی رہی۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ان باتوں کا کیا جواب دے؟
کھانے کے دوران حیات بی اور ان کے شوہر پھر سے بولنے لگے ’’ہمارا توشہ دان تیار ہوگیانا …؟ نیا لے آئیے نا آپ لوگ…؟ اُسکے ساتھ رکابی ، گلاس ، چمچہ ، کٹورا بھی لائیے نا …؟ وہ سارے برتن دینا ہوتا ہے جو آپ کی ماں استعمال کرتی تھیں اور وہ بھی نئے اور ہاں جاء نماز اور قرآن شریف ادھر رکھ دیجئے میں لے لوں گا۔ عطر کی شیشی بھی اُسی کے ساتھ رکھ دیجئے۔
اُن کا سارا سامان رکھ دیا گیا اور اب جاتے وقت وہ ہرایک سے مل رہے تھے اور اپنا فون نمبر سب کو دے رہے تھے ۔ یہ کہہ کر کہ خاندان میں کسی کا بھی انتقال ہو تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ صرف ایک فون کال کیجئے ہم لوگ 40 دن تک پابندی سے آپ کے پاس کھانا لینے آئیں گے ور میں سوچنے لگی کیا یہ واقعی غریب اور مستحق ہیں یا پھر غریبی کو دور بھگانے کیلئے ان لوگوں نے 40 دن کے کھانے کو ایک بزنس کا روپ دیدیا ہے۔
ایصال ثواب کی خاطر سر شام مستحقین کو دروازہ کھٹکھٹاکر کھانا لیجاتے ہوئے تو ضرور دیکھا تھا ۔ مگر اس منظم طریقہ سے انجام دیتے ہوئے پہلی بار دیکھ رہی تھی۔ کاش یہ طریقہ کار کسی چھوٹی موٹی تجارت یا پیشہ کیلئے اپنایا جاتا تو یقیناً حیات بی اوران کے شوہر آج سیٹھ سٹھانی کہلاتے اور گھر گھر جاکر کھانا لینے کے بجائے کھانا کھلانے والوں میں شامل ہوتے۔