رزق کا ضیاع

کے این واصف
محکمہ بلدیہ مکہ مکرمہ کے حوالے سے مقامی اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی کہ ماہ رمضان کے پہلے تین دن میں 5000 ہزار ٹن غذائی اشیاء پر مشتمل کوڑا (Garbage) بلدیہ نے صرف مکہ شہر سے اٹھایا۔ اس خبر کے پڑھنے والوں کے ذہن میں ان لوگوں کی تصویر ابھری ہوگی جنہیں 24 گھنٹے میں ایک وقت پیٹ بھر کھانا میسر نہیں آتا، ان کے ذہنوں میں وہ اعداد و شمار بھی آئے ہوں گے جس میں بتایا گیا کہ دنیا میں 9 کروڑ سے زائد افراد روزانہ بھوکے سوجاتے ہیں اور اسی دنیا کے کچھ حصوں میں بے دردی سے غذائی اشیاء کا بے دریغ ضیاع ہوتا۔ ویسے یہ ہر اس انسان کی ذمہ داری ہے جسے اللہ کے کرم سے کھانا میسر ہے، وہ رزق کے ایک ایک دانے کی قدر کرے کیونکہ غذائی اشیاء کے ضیاع کرنے والوں کو سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے اور ان خوش نصیب انسانوں کو جنہیں رب کریم نے ماہ رمضان میں خانہ کعبہ کی حاضری نصیب فرمائی وہ کھانے پینے کی چیزوں کے ضائع نہ ہونے دینے کا پورا پورا خیالرکھیں۔ وہ ضیوف الرحمان ، انہیں قرب خدا وندی حاصل ہے وہ اللہ کے گھر کے مہمان ہیں ۔ انہیں لمحہ لمحہ اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ کہیں ان سے کوئی لغزش تو نہیں ہورہی ہے ، کہیں ان سے احکامات الٰہی کی پابندی میں کوئی کوتاہی تو نہیں ہورہی ہے ۔

ماہ رمضان میں مکہ میں زائرین و معتمرین کی تعداد عام دنوں سے بلکہ ایام حج سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔ لاکھوں کی تعداد میں عمرہ کی سعادت حاصل کرنے والے شہر مکہ میں جمع ہوتے ہیں۔ لوگ سحری اور افطار کیلئے قبل از وقت کھانے پینے کی اشیاء کا معقول انتظام کرلیتے ہیںبلکہ اکثر صورتوں میں لوگ اپنی ضرورتوں سے کچھ زیادہ ہی کھانے پینے کی چیزیں خرید لیتے ہیں۔ ابھی یہ لوگ اپنی افطار یا سحری سے فارغ بھی نہیں ہوپاتے کہ نماز کا وقت ہوجاتا ہے اور لوگ حرم کی طرف نماز کیلئے دوڑ پڑتے ہیں۔ اس طرح لوگ اپنی کھانے پینے کی اشیاء حرم کے صحنوں ، راہ داریوں وغیرہ میں چھوڑ کر نماز کیلئے چلے جاتے ہیں لیکن یہ طر یقہ کار درست نہیں۔ رزق کا احترام اور اس کو ضائع ہونے سے بچانا ہمارا فرض ہے ، اس کے لئے کوئی عذر قابل قبول نہیں ۔ رزق اللہ کی نعمت ہے ۔ ہمیں یہ نعمت آج حاصل ہے اور ہم اس کی قدر و احترام نہ کریں تو ممکن ہے کل ہم اس سے محروم کردیئے جائیں ۔ لوگ جو غذائی اشیاء چھوڑ کر اٹھ جاتے ہیں اسے صفائی عملہ فوری اٹھاکر کوڑے دان میں ڈال دیتے ہیں۔ سعودی وزارت تجارت کے مطابق ماہ رمضان میں مکہ مکرمہ کے کوڑے (Garbage) میں 45 فیصد حصہ غذائی اشیاء کا ہوتا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق مملکت میں 45000 ٹن کھانا ہر روز ضائع ہوتا ہے ۔

کنگ سعود یونیورسٹی کی ایک تحقیق رمضان میں روزانہ 4 ملین Dishes تیار کی جاتی ہیں جس کا 30 فیصد استعمال ہوئے بغیر ضائع ہوجاتا ہے جس کی قیمت کا اندازہ 1.2 ملین ریال ہے۔ مملکت کی وزارت اسلامی امور نے مشورہ دیا کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں اسٹورنٹس والے اور غذائی اشیاء فروخت کرنے والے کھانے کے چھوٹے پیکٹس بناکر فروخت کریں اور خریدنے والے بھی غذائی اشیاء اپنے استعمال کی مقدار کے اعتبار سے بلکہ اس سے کچھ کم مقدار میں خریدیں تو کھانا ضائع ہونے سے بچ سکتا ہے۔ بتایا گیا کہ القصیم شہر کا محکمہ بلدیہ نے بریدہ کے علاقہ میں ایک فیکٹری قائم کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا ہے جہاں ضائع شدہ غذائی اشیاء سے فرٹیلائزر تیار کیا جائے گا ۔
بہرحال نہ صرف مقدس شہروں میں بلکہ دنیا کے ہر حصہ میں لوگوں کو غذائی اشیاء کے ضائع ہونے سے بچانا چاہئے کیونکہ احتیاط سے خرچ کرنا بھی پیداوار میں اضافے کے مماثل ہے ۔ اہم یہ کہ ہم اس احتیاط سے عذاب الٰہی سے بچ سکتے ہیں۔

ریاض میں جشنِ تلنگانہ
’’تلنگانہ (گلف) این آر آئیز فورم‘‘ کے زیر اہتمام ہفتہ کی شب ریاض کے مضافات میں واقع ایک فنکشن ہال میں ’’جشنِ تلنگانہ‘‘ منعقد کیا گیا جس میں میر لیاقت علی ہاشمی، جنرل سکریٹری تنظیم ہم ہندوستانی اور معروف شاعر ابو نبیل خواجہ مسیح الدین نے بحیثیت مہمانان خصوصی شرکت کی ۔ تقریب کی صدارت فورم کے صدر محمد عبدالمجیب نے کی ۔ یہ تقریب دو حصوں پر مشتمل تھی ۔ جشن کے افتتاحی اجلاس کی ابتداء قاری عبدالجبار خاں کی قرأت کلام پاک سے ہوئی ۔ خوش لہن کم سن لڑکی ام الخیر عنیقہ نے حمد باری تعالیٰ پیش کی جبکہ حافظ خواجہ علیم الدین نے نعت مبارکہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جس کے بعد فاروق رحیم نے شاعر انور اقبال کا لکھا معروف ترانہ تلنگانہ ترنم سے پیش کیا ۔

داؤد اسلوبی نے بھی تلنگانہ پر اپنی نظم پیش کی ۔ فورم کے نائب صدر مقصود احمد قریشی نے خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے تقریباً 7 لاکھ افراد سعودی عرب میں کام کرتے ہیں۔ تلنگانہ فورم حکومت سے ان کے مسائل کی نمائندگی کرے گا ۔ چیف منسٹر تلنگانہ چندر شیکھر راؤ کے ہم جماعت رہے۔ ریاض کے معروف شاعر ابو نبیل خواجہ مسیح الدین نے کہا کہ علاقہ تلنگانہ اور اس کے رہنے والے نصف صدی تک استحصال کا شکار رہے ۔ 45 سال کی جدوجہد کے بعد اہل تلنگانہ کو علحدہ ریاست حاصل ہوئی ہے۔ سابق فرماروائے دکن نواب میر عثمان علی خاں نے اپنے دور حکومت میں اس علاقہ کو اور خصوصاً شہر حیدرآباد کو جدید خطوط پر ترقی دی۔ ہم کو اس قسم کی تقاریب کے ذریعہ نئی نسل کو اپنے شاندار ماضی اور ملک کی ترقی میں مسلمانوں کے کردار اور کارناموں سے واقف کرایا جانا چاہئے ۔
میر لیاقت علی ہاشمی نے کہا کہ ملک کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے علاقہ تلنگانہ اور آندھرا کو ضم کر کے ایک ریاست کے قیام کو ’’ایک بے جوڑ شادی‘‘ سے تعبیر کیا تھا اور کوئی نصف صدی کے بعد آخر کار یہ دو علاقوں کا بے جوڑ بندھ ٹوٹ گیا ۔ انہوں نے کہا کہ علاقہ تلنگانہ اور آندھرا کے کلچر میں زمین آسمان کا فرق ہے بلکہ جو تلگو زبان اہل تلنگانہ بولتے ہیں وہ خود علاقہ آندھرا کی زبان سے یکسر مختلف ہے ۔ لہذا لسانی بنیاد پر ان دو علاقوں کو متحد کرنا بھی درست نہیں تھا ۔ ہاشمی نے کہا کہ ریاست تلنگانہ 1969 ء ہی میں وجود میں آجاتی اگر اس وقت کے سیاسی قائدین اپنے شخصی مفاد کیلئے مرکز سے سودے بازی نہ کرتے ۔

بہرحال آندھرائی باشندوں کے علاقہ تلنگانہ کے ساتھ استحصال اور ناانصافیوں کا سلسلہ آخر کار ختم ہوا۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ علاقہ میں برسر اقتدار تلنگانہ راشٹریہ سمیتی سے صرف ایک مسلم رکن اسمبلی منتخب ہوا جبکہ علاقہ تلنگانہ میں ایک قابل لحاظ مسلم آبادی ہے۔ ہاشمی نے کہا کہ تلنگانہ حکومت کی جانب سے اقلیتوں اور بالخصوص مسلم اقلیت کیلئے دیئے گئے تیقنات کا ہم خیرمقدم کرتے ہیں ۔ صدر جلسہ محمد عبدالمجیب نے کہا کہ تلنگانہ (گلف) این آر آئیز فورم کا قیام سن 2002 ء میں عمل میں آیا ۔ جب علحدہ ریاست کیلئے ٹی آر ایس نے جدوجہد کا آغاز کیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ سابق میں ریاست حیدرآباد دکن جس میں علاقہ تلنگانہ بھی شامل تھا ، مسلمانوں نے ایک ہزار سال سے زائد حکومت کی ۔ علاقہ میں آج بھی ہندو مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی قائم ہے ۔ ہم نئی حکومت کے توقع کرتے ہیں کہ ریاست کی ترقی میں تمام طبقات کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ نیز علاقہ کی قدیم تہذیب کا احیاء عمل میں لایا جائے گا جسے پچھلے 50 برسوں میں آندھرائی کلچرل نے آلودہ اور تباہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ فورم چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو تلنگانہ این آر آئیز کے مسائل اور مطالبات پر مشتمل ایک میمورنڈم روانہ کیا ہے۔

عشائیہ کے بعد تقریب کا دوسرا حصہ ایک رنگا رنگ کلچرل پروگرام مشتمل تھا جس میں معروف گلوکار اظہر اینڈ گروپ نے ا پنے فن کا مظاہرہ کیا ۔ ندیم توفیق جگتیالی نے نظامت کے فرائض انجام دیئے ۔ آخر میں توفیق الدین شاہ کے ہدیہ تشکر پر پروگرام کا اختتام عمل میں آیا ۔ اس محفل میں علاقہ تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔