رخسانہ نازنین فن و شخصیت کے آئینہ میں

خیرالنساء علیم
ہر دور میں شہر بیدر علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے ، اس سرزمین کو بڑی بڑی ادبی شخصیات نے علم و فن کی روشنی سے جلا بخشی ہے ۔ انھیں میں سے ایک روشن ستارہ رخسانہ نازنین ہیں ۔ رخسانہ نازنین نے بہت کم عمری سے لکھنا شروع کیا ۔ متعدد افسانے و مضامین لکھے ۔ ان کی کہانیاں اصلاحی پہلو کے اردگرد گھومتی ہیں ۔ ان کے افسانے و مضامین خواتین کے مسائل سے متعلق ہیں ۔ وہ آج کل کے سماجی ، معاشی ماحول کی بخوبی عکاسی کرتی ہیں۔ مصنفہ کی تین کتابیں شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں ۔ رخسانہ نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے بیدر کا نام اونچا کیا ہے ۔ وہ شہر بیدر کی پہلی افسانہ نگار خاتون ہیں ۔ جن کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’طوبیٰ‘‘ کے نام سے 2010 میں ، دوسرا افسانوی مجموعہ ’’ضیاء‘‘ 2012 میں اور تیسرا مجموعہ ’’دستک‘‘ 2013 میں منظر عام پر آچکا ہے ۔

محترمہ رخسانہ نازنین بہت ہی حساس طبیعت کی مالک ہیں ۔ اپنے اردگرد کے سماجی اخلاقی مسائل پر اخلاقی اچھائیوں اور برائیوں پر گہری نظر و فکر رکھتی ہیں ۔ اور جنھیں نہایت شائستگی و منظرکشی کے ساتھ عوام کے روبرو پیش کرتی ہیں ۔ لکھنے کا انداز دل کو چھونے والا ہے ۔ مختصر سے مختصر افسانے میں بھی انھوں نے اپنا مطلب و مقصد واضح طور پر ظاہر کیا ہے ۔ مصنفہ کے مضامین اور افسانوی مجموعے ان کے علم کی گہرائیوں کو پیش کرتے ہیں ۔ اکثر ان کے افسانے یادوں کے دریچے کھول دیتے ہیں ۔ انہوں نے بچپن کی یادیں ، نوخیز کلیوں کی نفسیات ، آپسی محبت ، زندگی کی محرومیاں ، ذاتی وارداتیں ، دل گداز تلخیاں سبھی کچھ زندگی میں پیش آنے والے واقعات کا بڑے اچھے انداز میں لکھنے کی کوشش کی ہے ۔ اور یہ کوشش کامیاب رہی ۔ رخسانہ نازنین کہانی کے مرکزی کردار کو اہمیت دیتی ہیں ۔ کہانی سے اپنا رشتہ استوار رکھتی ہیں ۔ انھوں نے اپنے افسانوں کیلئے ایسے موضؤعات منتخب کئے ہیں جن پر دیگر خواتین بہت کم توجہ دیتی ہیں ۔

صنف نازک کے مسائل ان کے افسانوں میں نمایاں نظر آتے ہیں ۔ وہ اپنے افسانوں کو طویل کرکے قاری کو بور ہونے یا اکتاہٹ میں مبتلا نہیں کرتیں بلکہ چھوٹے سے چھوٹے افسانے میں بھی اپنا مقصد بہت اچھی طرح بھرپور طریقے سے پیش کرتی ہیں ۔ رخسانہ نازنین بیدر کی وہ افسانہ نگار خاتون ہیں جو ان تھک لکھتی رہتی ہیں ۔ ان کے افسانے دنیا کے اہم اور عالمی مسائل کو اپنا موضوع بنائے ہوئے ہیں ۔ ان کے افسانوں میں المیہ کیفیت ابھرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ افسانوی مجموعہ ’’طوبیٰ‘‘ میں میری بات میں وہ یوں رقمطراز ہیں :
’’اپریل 1992 ء کو ماہنامہ ’’مشرقی دلہن‘‘ میں میرا پہلا افسانہ ’’مسکرا اٹھی حیات‘‘ کے نام سے شائع ہوا ۔ میں اس خوشی کو لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہوں ، بالآخر میں نے اپنی ایک پہچان بنا ہی لی ۔ یہاں سے شائع ہونے کا آغاز ہوا تو پھر شائع ہوتی رہی اور لکھتی چلی گئی ۔ پچھلے 18 برسوں سے مسلسل لکھ رہی ہوں‘‘ ۔ ’’طوبی‘‘ میں عرض مرتب میں محمد یوسف رحیم بیدی یوں رقمطراز ہیں ’’طوبی رخسانہ نازنین کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جس کو شہر بیدر کا پہلا افسانوی مجموعہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ اس لحاظ سے رخسانہ نازنین ہم سب کے مبارکباد کی مستحق ہیں ۔ محترمہ کے اب تک ایک سو سے زیادہ افسانے مختلف رسائل میں شائع ہوچکے ہیں‘‘ ۔جب رخسانہ نازنین یہ افسانے اور مضامین لکھتی رہیں تو انھیں قطعی خیال نہیں رہا ہوگا کہ انھیں شائع کیاجائے گا اور شائع ہوگئے تو کتاب کی شکل میں چھپ بھی جائے گا ۔
وہ بنیادی طورپر گھریلو خاتون لگتی ہیں ۔ مگر ساری دنیا پر ان کی نظر رہتی ہے ۔ ہمدرد مخلص خاتون ہونے کی وجہ سے انسانی رشتہ داریوں سے خاص لگاؤ رکھتی ہیں ۔ ان کے یہاں آزادی افکار بھی ہے ۔ دنیا کے نشیب وفراز اور مسائل سے بھی واقفیت ہے ۔ ہر طرح کی گھریلو نمائندگی ، رشتہ داریوں کی نزاکتیں ، بچوں کی ناز برداریاں ، دوست احباب کے نخرے ، غرض کون سی ایسی بات ہے جو ان کے افسانوں میں ظاہر نہیں ہوتے ۔ وہ مردوں کی برتری کی قائل ہیں لیکن عورتوں کے حدود میں رہ کر ان جیسا بننا چاہتی ہیں۔

رخسانہ نازنین ایسی قلمکار خاتون ہیں جسے دنیا میں اچھائیاں ہی اچھائیاں نظر آتی ہیں ۔ وہ بروں کو بھی اچھی سمجھتی ہیں ۔ ان کی نیک و نرم دلی ، مزاج کی حساسیت ان کی تحریروں میں جگہ جگہ نظر آجاتی ہے ۔
ہر ادیب اپنے زمانے اور اپنے سماجی ماحول کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے ۔ آج لکھنے والوں کا ماحول اور ان کے عصری تقاضے بالکل مختلف ہیں ۔ لیکن دائمی اقدار تو نہیں بدلے ۔ رخسانہ نازنین کے افسانوں میں سماج کے ستائے ہوئے لوگوں کے حالات نظر آتے ہیں ۔ ان کے افسانے بھی ان کی ذات اور کردار کے آئینہ دار ہیں ۔ عورت کبھی تنہا ایک فرد واحد نہیں ہوتی ۔وہ اپنے کنبہ کو ساتھ لے کر چلتی ہے ۔ ماں باپ ، بہن بھائی ، شوہر ، اولاد ، عزیز اقارب ، میکہ اور سسرال اس کی دنیا ، ان ہی رشتوں سے آباد ہے ۔ ان کے افسانے ان کی اپنی ذاتی شخصیت اور کردار کے آئینہ دار ہیں ۔ ان کی دردمندی ، خلوص اور ایثار پسندی کے امین ہیں ۔

انسان دنیا میں اپنی جگہ خود بناتا ہے ۔ اپنے رشتے خود قائم کرتا ہے ۔ مصنفہ کے افسانوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے ان کی زندگی کے تانے بانے آپس میں کتنے مربوط اور مضبوط ہیں ۔ ان کے افسانوں کا بے ساختہ پن ایسا ہی ہے جیسے لگتا ہے وہ خود بات کررہی ہوں ۔ مجھے یقین ہے رخسانہ نازنین کے افسانے و مضامین دلچسپی سے پڑھے جائیں گے ۔ اور ادب کی دنیا میں اپنا مقام خود بنائیں گے ۔ اللہ تعالی سے میری دعا ہے کہ ان کے قلم کی طاقت کو اور بڑھائے ۔ انھیں صحت و تندرسی سے اپنا مشن آگے بڑھانے کی ہمت و حوصلہ عطا فرمائے ۔آمین

آخر میں محمد یوسف رحیم بیدی صاحب کا نظریہ جو انھوں نے ’’دستک‘‘ مضامین کے مجموعہ کے پیش لفظ میں تحریر کیا ہے ’’سخت محنت اور وسائل کی کمی کے باوجود رخسانہ نے تین کتابیں دنیائے علم و ادب کو دی ہیں ۔ ان کی یہ دین قابل فخر ہے ، اور قابل ذکر بھی ۔ آخری بات یہ کہ 1980 کے بعد بیدر کی کسی خاتون کی سماجی مضامین کی یہ پہلی کتاب ہے جو منظر عام پر آئی ہے‘‘ ۔ رخسانہ نازنین قابل مبارکباد ہیں ۔ ہمیشہ میری دعائیں ونیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں ۔ اللہ سبحانہ تعالی انھیں صحت و سلامتی کے ساتھ رکھے ۔ آمین
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ