خاندان بکھرگئے … والدین اولڈ ایچ ہوم اور
بچے نوکروں اور چلڈرنس ہوم کے حوالے
محمد نعیم وجاہت
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں سوشیل میڈیا کی رسائی اس قدر زیادہ ہوگئی ہے کہ اگر کہیں بھی کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو منٹوں میں اس کی تفصیلات واٹس اپ، فیس بُک، ٹوئٹر اور انسٹا گرام کے ذریعہ منظر عام پر آجاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں دل کو جھنجوڑ دینے والا ایک پوسٹ واٹس اپ پر تیزی سے وائرل ہوا۔ جس میں ایک دادا اور پوتے کے درمیان بات چیت کو بڑے ہی دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا۔ کمسن پوتا اپنے دادا سے دریافت کرتا ہے ، دادا جان آپ لوگ اپنے دور میں انٹرنیٹ کے بغیر کس طرح رہا کرتے تھے ہم تو انٹرنیٹ کے بغیر رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ واٹس اپ ہماری ضرورت بن گیا، فیس بُک اکاؤنٹ رکھتے ہوئے ہم خود کو تعلیم یافتہ ظاہر کرتے ہیں۔ ٹوئٹر کا استعمال کرتے ہوئے ہم خود کو مشہور و معروف شخصیتوں میں اپنے آپ کو شمار کرتے ہیں۔ انسٹا گرام بھی ہماری روز مرہ مصروفیات میں شامل ہوگیا ہے۔ سوشیل میڈیا آج کے دور میں ہماری زندگیوں کا حصہ بن گیا ہے۔ دادا نے بڑے غور سے اپنے پوتے کی بات کو سن کر ایک ٹھنڈی آہ بھری … اور کہا بیٹا ہمارے دور میں بے شک انٹرنیٹ و سوشیل میڈیا نہیں تھا مگر اس دور میں ہمارے پاس افراد خاندان کے لئے کافی وقت تھا، پیار محبت، ایثار و خلوص، عزت و احترام، ہمدردی و انسانیت کے پاکیزہ جذبے ہوا کرتے تھے۔ بڑوں کی عزت بچوں سے پیار کی ہم میں خوبیاں پائی جاتی تھیں۔ جس طرح تم آج کے دور میں اِن نعمتوں کے بغیر جی رہے ہو ہم بھی اُس دور میں انٹرنیٹ کے بغیر جیا کرتے تھے۔ دادا اور پوتے کی یہ گفتگو ہمارے معاشرے کی موجودہ صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔
یقینا موجودہ دور ترقی کا دور ہے۔ معاشرے میں کافی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ انسان چاند کی سیر کررہا ہے۔ ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے نئی نئی کھوج کررہا ہے۔ تجربات کے ذریعہ نئی چیزوں کی ایجاد کرتے ہوئے عوامی زندگیوں کے مشکل لمحات کو پلک جھپکتے ہی آسان بنادیا ہے۔ دنوں کے سفر کو گھنٹوں میں تبدیل کردیا ہے۔ کمپیوٹر ، لیاپ ٹاپ، اسمارٹ فون نے فاصلوں کو گھٹا دیا ہے۔ ایس ایم ایس، ای میل، چیاٹنگ، اور ویڈیو چیاٹنگ وغیرہ نے میلوں دور رہنے والے رشتہ داروں اور دوست احباب کو ایک دوسرے کے روبرو کردیا ہے۔ انٹرنیٹ انسانی زندگیوں میں انقلاب لانے کا موجب ضرور بنا ہے۔ اس سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اس ترقی نے ساری دنیا کو ایک کٹورے میں تبدیل کردیا ہے۔ انٹرنیٹ کے اور بھی کافی مثبت پہلو ہیں جس کا استعمال انسانی زندگی کے لئے بے حد ضروری ہوگیا ہے لیکن اس کے دوسرے رُخ پر نظر ڈالیں تو اس کے منفی نتائج نے معاشرے کو تباہی و بربادی کو دعوت دی ہے۔ معاشرے کی تباہی کے اور بھی وجوہات ہیں جس میں انٹرنیٹ اور سوشیل میڈیا کا بہت بڑا دخل ہے۔ معاشرے میں مادہ پرستی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ لوگ رشتوں پر لالچ اور انسانیت پر دولت کو ترجیح دی جارہی ہے۔ امیر اور سماج میں بااثر شخصیتیں غربت اور غریبوں سے دوری اختیار کررہے ہیں۔ مانباپ کی عزت و احترام سے اولاد گریز کرنے لگے ہیں۔ ان کی نصیحتوں پر اولاد ناگواری کا اظہار کرنے لگی ہے اور بچوں کے جذبات کو بھی ماں باپ سمجھنے کی کوشش نہیں کررہے ہیں۔ دراصل یہ جنریشن گیاپ ہے۔ اس پر دونوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے کئی واقعات کو دیکھا ہے اور پڑھا ہے۔ لڑکی تولد ہونے سے قبل اس کو مادر رحم میں ختم کیا جارہا ہے یا لڑکیوں کو جنم دینے کے بعد مار دیا جارہا ہے۔ دوسری جانب ایک بیٹا اپنی زندہ ضعیف ماں کو جیتے جی رات کے اندھیرے میں قبرستان میں تنہا چھوڑ کر چلا گیا۔
گزشتہ چند دنوں کے دوران ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جس سے روح کانپ اُٹھی ہے۔ شہر میں ایک شوہر نے اپنی شریک حیات کو پانی نہانے کے لئے برقی زیادہ استعمال کرنے پر حمام سے برہنہ لاتے ہوئے ارکان خاندان کے سامنے اتنی مار پیٹ کی کہ اس خاتون نے شرم کے مارے خودکشی کرلی۔ ایک خاتون نے اپنے شوہر کا ظلم حد سے زیادہ بڑھ جانے پر اسے قتل کرتے ہوئے اپنے آپ کو قانون کے حوالے کردیا ہے۔ مگر ان کے تین معصوم بچے جن کا کوئی قصور نہیں ہے وہ بے یار و مددگار ہوگئے ہیں۔ ضلع کھمم میں ایک مزدور نوجوان کی ایک غریب لڑکی سے شادی طے ہوئی مگر یہ ایک عجیب شادی تھی جس سے رشتہ طے ہوا اس لڑکی سے شادی رچانے کے بجائے اُس مزدور نے لڑکی کی ماں (ساس) سے شادی کی۔ ایک اور واقعہ میں ماں نے اپنی بیٹی کی فکر کئے بنا داماد سے شادی کرلی۔ اور گاؤں کی پنچایت نے اس شادی کو قبول بھی کیا۔ ناجائز تعلقات اور لڑکے لڑکیوں کے ایک سے زیادہ بوائے فرینڈس و گرل فرینڈس اس ہائی سوسائٹی کا فیشن بن گیا ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو دھوکہ دینے، گمراہ کرنے جھوٹ بولنے وعدے کی خلاف ورزی کرنے کو فن تصور کررہا ہے۔ جذبۂ انسانیت کا برسر عام خون کیا جارہا ہے۔ قدرتی نظام معاشرتی ڈھانچے میں بیجا مداخلت اور دین اور مذہب سے دوری کی وجہ سے یہ واقعات پیش آرہے ہیں۔ بچوں کی تربیت کو نظرانداز کرنے عارضی خوشیوں کے لئے جھوٹ کا سہارا لینے سے مستقبل تاریک بن رہا ہے۔
رشتوں کی گہرائی اور اس کی اہمیت کا احساس ختم ہورہا ہے۔ نصیحتیں نوجوان نسل کے لئے ناگواری لگنے لگی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ضعیف والدین جنھوں نے رات رات جاگ کر دن بھر محنت کرتے ہوئے جن بچوں کی پرورش کی ہے۔ ان کے غم کو اپنا غم سمجھا جن کی خوشیوں کے لئے اپنی خوشیاں قربان کردیں خود روکھی سوکھی کھا کر پڑھایا لکھایا اور سماج میں اپنے بچوں کا اونچا مقام بنانے کے لئے اپنی اوقات کو بھول گئے۔ وہی اولاد بڑھاپے میں ماں باپ کا سہارا بننے کے بجائے ان کے وجود کو اپنے لئے بوجھ سمجھ رہے ہیں ان کی ضروریات کو احسان کے طور پر انجام دیتے ہوئے ان کی توہین کررہے ہیں یا انھیں اولڈ ایج ہوم کے حوالے کررہے ہیں۔ صرف پیدا کرنے والے والدین کے ساتھ ہی نہیں بلکہ بھائی بہنوں کے رشتوں میں بگاڑ پیدا ہوگیا ہے۔ آپس میں میل جول پیار و محبت ختم ہوگیا ہے۔ ان میں بے شمار اختلافات نے جگہ لے لی ہے۔ ہر طرف شر پھیلی ہوئی ہے۔ محبت کی جگہ نفرت نے لے لی ہے۔ مروت کا مقام بے مروتی نے حاصل کرلیا ہے۔ ایثار و خلوص پر خود غرضی اور مفاد پرستی حاوی ہوگئی ہے۔ شارٹ کٹ اور شارٹ فارم زندگی کے احساس کو ختم کررہی ہے۔ پہلے محبت کو انگریزی میں Love کہا جاتا تھا اب LUV اس کی شکل بن گئی ہے۔ زندگی کو انگریزی میں LIFE کہا جاتا تھا مگر اب LYF نے لائف اس کی جگہ لے لی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مادر رحم بھی فروخت ہونے لگی ہے۔ انسانوں میں رحم دلی گھٹتی اور بے رحمتی بڑھتی جارہی ہے۔ عالمی سطح پر جو صورتحال ہے اس کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ احترام کا جذبہ تیزی سے گھٹتا جارہا ہے۔
جب مادر رحم ہی چند سکوں میں فروخت ہورہی ہے تو بقیہ چیزوں کا کیا ہوگا۔ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کارخانۂ قدرت میں بیجا مداخلت بھی معاشرے کے بگاڑ کا سبب بن رہی ہے۔ مشترکہ خاندان کا وجود کہانی، افسانوں اور داستانوں کا ایک حصہ بن کر رہ گئی ہے۔ ماضی میں وسیع و عریض مکانات میں رہنے والوں کے دل بھی بہت بڑے اور سوچ پاکیزہ ہوا کرتی تھی۔ اب گھروں کی طرح انسانوں کی سوچ و فکر بھی سمٹ کر رہ گئی ہے۔ بڑے ٹی وی چیانلوں سے چپکے رہتے ہیں تو بچے ویڈیو گیمز اور سوشیل میڈیا میں ایسے مگن ہیں جیسے ان ہی چیزوں کے لئے پیدا ہوئے ہیں اور ان کا مقصد حیات بھی یہی ہے۔
رشتوں میں لالچ اور بلیک میلنگ بڑھ گئی ہے۔ اس کے لئے دوسروں کو قصوروار قرار دینا ناانصافی ہوگی ہر انسان کو خود اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کی پرورش میں لالچ کا عمل دخل بڑھ گیا ہے۔ بچوں کی پڑھائی ہو یا دوسرے کوئی کام انھیں راضی کرانے کے لئے بڑوں کی جانب سے لالچ دیا جارہا ہے جو بچوں کی عادت بن جارہی ہے اور بعد میں ضد میں تبدیل ہورہی ہے۔ بچے بھی اپنی بات منوانے کے لئے بڑوں کو بلیک میل کررہے ہیں۔ ان کی خواہش پوری نہ کرنے پر وہ کسی بھی کام انجام دینے سے انکار کررہے ہیں۔ یہی سے معاشرے میں بگاڑ کی شروعات ہورہی ہے۔ بڑے خاندان ٹوٹ کر بکھرنے کے اثرات کا معاشرے پر بہت بُرا اثر پڑا ہے۔ اگر ماں باپ دونوں کمانے والے ہوں تو بچوں کی پرورش بہت بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔ بچوں کو نوکروں کے حوالے یا چلڈرن ہومس کے حوالے کیا جاتا ہے یا ٹیلی ویژن اور ویڈیو گیمز سے انھیں مصروف کیا جارہا ہے۔ ویڈیو گیمز میں جیتنے کا چیلنج بچوں کو ضدی بنارہا ہے۔ یہ بھی بگاڑ کی ایک اہم وجہ بن رہا ہے۔