ڈاکٹر منیر الزماں منیر
دنیا کے تمام انسانوں میں حس مشترکہ کو باطنی حواس خمسہ کا ایک جز کہا جاتا ہے جس طرح ہر انسان سننے و جھکنے یا چکھنے کا احساس رکھتا ہے اسی طرح اور بہت سارے احساسات مشترک نوعیت کے ہوتے ہیں مثلاً خطرے کا احساس ، خوف کا احساس ، خوشی اور مسرت کے احساسات ! یہ وہ لہر ہے جو دنیا کے تمام انسانوں میں مشترک ہے ۔ دراصل یہی مشترکہ احساس دنیا کے تمام انسانوں کو ایک رشتہ میں پروتا ہے اور انسانیت کی اقدار میں سے ایک قدر کا تعین کرتا ہے ۔ اس طرح مشترکہ احساس کی بناء پر تمام انسانوں کے دکھ اور سکھ بھی مشترکہ ہوجاتے ہیں گو کہ ان کی نوعیتیں مختلف ہوتی ہیں ۔ ادبی تخلیق بھی مشترکہ احساسات کی پیکر تراشی کا دوسرا نام ہے ۔ یہ احساسات بنیادی طور پر ایک ہوتے ہیں لیکن ہر ملک ، ہر علاقے اور ہر فرد کے اعتبار سے ان کی کیفیات بالائی سطح پر مختلف ہوسکتی ہیں اس کی مثال بالکل اسی طرح سے ہے کہ شعاع آفتاب کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے لیکن جس رنگ کا چشمہ لگا کر ہم اس شعاع کو دیکھیں گے چشمے کے رنگ کے مطابق ہی شعاع نظر آئے گی ۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ادبی تخلیق میں بھی مشترکہ احساس اور بنیادی اقدار ہوتی ہیں ۔ ان مشترکہ احساسات اور بنیادی اقدار کی جب نشاندہی ہوتی ہے اور ان کی سمت کا تعین ہوتا ہے تو رجحان بنتا ہے ۔
لفظ رجحان کے معنی کی دو نوعیتیں ہوں گی ۔ نمبر ایک انفرادی اور نمبر دو اجتماعی ۔ اگر کسی فرد میں کوئی جذبہ غالب حیثیت رکھتا ہے تو وہ انفرادی رجحان کہلائے گا ۔ لیکن جس مشترکہ کی بنیاد پر اگر بہت سارے افراد میں کسی ایک خاص طرف جھکاؤ ہو تو وہ اجتماعی رجحان ہوگا ۔
ادبی تخلیق میں شاعر یا ادیب اپنے تجربات کا انتخاب کرتا ہے پھر انہیں تجربات کو جذبے اور احساس کی آنچ پر تپا کر الفاظ کا ایک پیکر تیار کرتا ہے ۔ اس پیکر تراشی میں زمانے اورحالات کا بھی دخل ہوتا ہے ۔ ہر علاقے کا جو مخصوص مزاج ہوتا ہے وہ بھی ادبی تخلیق پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ اس طرح کبھی کبھی ادبی تخلیق میں یہی حس مشترک جب لفظی پیکر کی شکل میں سامنے آتی ہے اور مشترکہ عناصر ملنے لگتے ہیں تو ایک ادبی رجحان وجود میں آتا ہے ۔
کوئی بھی تحریک پہلے رجحان کی شکل میں سامنے آتی ہے اور پھر وہ باضابطہ تحریک کی شکل اختیار کرتی ہے ۔ تحریک کے لئے :
(۱) کسی محرک کا وجود ناگزیر ہے
(۲) تحریک کے لئے کچھ لوگوں کا متاثر ہونا ضروری ہے
(۳) تحریک کی ایک سمت ہوگی ، مقصد ہوگا اور حصول مقصد کے بعد تحریک کوئی دوسری شکل اختیار کرلے گی ۔
اس اعتبار سے سیاست ہو یا سماجیات یا معاشیات ، تحریکوں کا وجود ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا ۔ کچھ تحریکیں ایسی ہوتی ہیں جن کا مقصد متعین ہوتا ہے اور جو زمانی اقدار کی پابند ہوتی ہیں اور اس کے بعد ختم ہوجاتی ہیں مثلاً تحریک آزادی ہند جو 15 اگست 1947 ء کے بعد ختم ہوگئی اس لئے کہ مقصد حاصل ہوگیا ۔ زمانے کے ایک خاص نکتے پر پہنچ کر حصول مقصد کے بعد یہ تحریک اپنی کوئی معنویت رکھتی لیکن تحریک تعلیم بالغان مسلسل تحریک ہے اور اسے زمانی تعین کا رہین منت نہیں ہونا پڑے گا اس لئے کہ بہرحال سماج میں ہمیشہ ایسے افراد رہیں گے جو بالغ ہوں اور رہ جائیں ۔ اب ایسی صورت میں اگر ادب پر منطبق کیا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ادبی تحریکیں بھی ایک خاص مقصد کے حصول کے تحت شروع کی جاتی ہیں ۔ ادبی تحریک کا یقیناً ایک نقطہ آغاز ہوتا ہے لیکن تحریک کی شکل بہت پہلے سے بننے لگتی ہے مثلاً سرسید تحریک انیسویں صدی کی ساتویں آٹھویں دہائی میں وجود میں آئی لیکن بہت پہلے غالب کہہ چکے تھے ۔
صاحبان انگلستان رانگر
ہند را صد گو نہ آئیں بستہ اند
اور اس سے پہلے بھی اردو ادب میں دھیرے دھیرے مغربی اثرات داخل ہونا شروع ہوگئے تھے ۔ میر امن ’’باغ و بہار‘‘ کے دیباچے میں اور انشاء اپنے قصائد میں مغربی اثرات کی نشاندہی کرچکے تھے ۔
چونکہ ادبی تحریک میں سیاست یا معاشیات کی طرح کسی ٹھوس شئے کا حصول مقصود نہیں ہوتا بلکہ اس کی اساس ذہنی ہوتی ہے اس لئے ادب میں تحریک بالکلیہ ختم نہیں ہوتی بلکہ ایک رجحان کی شکل اختیار کرلیتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ رجحان سے تحریک بنتی ہے اور پھر رجحان ہی پرمنتبج ہوتی ہے ۔ ان تمام تحریکات کا تجزیہ کرنے کے بعد جو نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ درج کئے جاتے ہیں ۔
(۱) تحریک عارضی اور لمحاتی ہوتی ہے جبکہ رجحان پائیدار حیثیت رکھتا ہے
(۲) دونوں کے درمیان ایک دلچسپ رشتہ ہوتا ہے یعنی رجحان کبھی کبھی تحریک کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور تحریک اپنے دور زوال میں رجحان بن جاتی ہے ۔
(۳) تحریک یا رجحان کے پس منظر میں سماجی اسباب کافرما ہوتے ہیں اور کبھی کبھی ادبی تحریکات کے محرکات میں سیاست کی بھی کارفرمائی ہوتی ہے ۔
(۴) ہر دور اور ہر زمانے میں تحریکیں اور رجحانات کے نام بھی مختلف ہوسکتے ہیں اور ایک ہی نام کے باوجود ان کی نوعیتیں اور ان کی معنویت میں بھی اختلاف ہوسکتا ہے ۔
(۵) یوروپ میں تحریکات کا اثر جو کچھ ہورہا ہے اور جس طرح انہوں نے رجحان کی شکل اختیار کی ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بھی تخلیق کار پر کلاسیکیت یا رومانیت کا مکمل لیبل نہیں لگایا جاسکتا ۔ دوسرے لفظوں میں یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر الفاظ کے رکھ رکھاؤ میں شائستگی اور اصولوں کا خیال رکھا گیا ہے تو پھر اس کی تخلیق کار کے ہاں جذباتی آرزو مندی یا پرانی دنیا کو ترک کرکے نئی دنیا کی تعمیر کا حوصلہ نہیں ملے گا ۔ دراصل تحریک ہو یا رجحان ، اگر اس میں روایات کا تسلسل ہوتا ہے اور اس کی جڑیں تہذیبی زندگی میں پیوست ہوتی ہیں تو اس میں توسیع بھی ہوتی ہے اور نئے نئے امکانات کے ارتقائی عمل کو پیش کرتے ہیں ۔ اسی وجہ سے یوروپ میں رومانیت پسندوں نے ایسی اصناف بازیافت کی جو فردوس گمشدہ بن گئی تھیں ۔