راہول گاندھی کا دوسرے حلقہ سے مقابلہ

تیری منزل سے جو آگے ہیں مقاماتِ حیات
قافلہ اب کسی منزل پر ٹھہرتا ہی نہیں
راہول گاندھی کا دوسرے حلقہ سے مقابلہ
توقعات کے مطابق یہ باضابطہ اعلان ہوگیا ہے کہ کانگریس کے صدر راہول گاندھی جنوبی ہند میں بھی ایک لوک سبھا حلقہ سے مقابلہ کرینگے ۔ راہول گاندھی کو جنوب کی تین ریاستوں کرناٹک ‘ کیرالا اورٹاملناڈو میں کسی حلقہ سے مقابلہ کی پیشکش کی گئی تھی اور ان پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ وہ جنوبی ہند سے بھی مقابلہ کریں۔ انہیںکرناٹک میں بنگلورو نارتھ ‘ میسورو اور بیدر حلقوں کی پیش کش کی گئی تھی ۔ اس کے علاوہ ٹاملناڈو کے ایک حلقے اور کیرالا کے وینارڈ حلقہ سے مقابلہ کی بھی پیشکش کی گئی تھی ۔ جنوبی ہند میںکرناٹک اور کیرالا میں کانگریس کا موقف مستحکم ہے ۔ ٹاملناڈو میں اس کا ڈی ایم کے کے ساتھ ا تحاد ہے جبکہ آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں اس کا موقف کمزور ہے ۔ چونکہ وینارڈ کا حلقہ کرناٹک ‘ ٹاملناڈو اور کیرالا کی سرحد پر واقع ہے اس لئے کانگریس اور اس کے قائدین نے تفصیلی غور وخوض کے بعد وینارڈ حلقے سے مقابلہ کا فیصلہ کیا ہے اورا س کا باضابطہ اعلان بھی کردیا گیا ہے ۔ ویسے تو سیاسی جماعتوں کے کچھ قائدین کی جانب سے ایک سے زائد حلقوں سے مقابلہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور وقفہ وقفہ سے ایسا ہوتا آیا ہے لیکن راہول گاندھی کے مقابلہ کرنے میںایک حکمت عملی بھی دکھائی دیتی ہے ۔ ان کے مقابلہ کرنے سے جنوبی ہند کے کانگریس کارکنوں میں نیا جوش و خروش پیدا ہوگا اور اس کا اثر تین ریاستوں کے حلقوں پر بھی پڑسکتا ہے ۔ چونکہ جنوب میں بی جے پی کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے ایسے میں کانگریس پارٹی چاہتی ہے کہ بی جے پی کو جتنا ممکن ہوسکے جنوبی ہند سے مایوسی ہی ہاتھ آئے اور کانگریس یا اس کی حلیف جماعتوں کو کامیابی حاصل ہوسکے ۔ اس کا قومی سیاست پر بھی اثر ہوسکتا ہے اور بی جے پی کی نشستوں کی تعداد میں کمی آتی ہے تو اس سے اپوزیشن کو فائدہ ہوسکتا ہے ۔ جنوب میں بی جے پی صرف کرناٹک میں قدرے مستحکم دکھائی دیتی ہے ۔ کیرالا میں قدم جمانے کی اس کی تمام تر کوششیں اب تک ناکام ہی ثابت ہوئی ہیں۔ ٹاملناڈو میں انا ڈی ایم کے کے ساتھ اتحاد کے باوجود اس کا اپنا کوئی اثر دکھائی نہیںدیتا جبکہ تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں بھی بی جے پی نہ ہونے کے برابر ہی ہے اور یہاں سے اسے کوئی خاص امید بھی نہیں ہے ۔
حالیہ عرصہ میں یہ بات ضرور محسوس کی گئی ہے کہ کانگریس نے جارحانہ تیور اختیار کرتے ہوئے بی جے پی کے خلاف مقابلہ کرنے کا طریقہ کار اختیار کیا ہے ۔ مدھیہ پردیش ‘ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کی کامیابی نے اس کے حوصلے اور بھی بلند کردئے ہیں۔ اس کے کارکنوں میں نیا جوش و خروش پیدا ہوا ہے ۔ بہار میں اس کا آر جے ڈی کے ساتھ اتحاد مضبوط ہی کہا جاسکتا ہے حالانکہ وہاں مقابلہ سخت ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح کانگریس پارٹی نے طویل انتظار کے بعد پرینکا گاندھی کو بھی سرگرم کردیا ہے اور وہ باضابطہ سیاست کا حصہ بن گئی ہیں۔ وہ یو پی میں جنرل سکریٹری بنائی گئی ہیں اور ان کی آمد سے یو پی اور اطراف میں بھی پارٹی کارکنوں میں جوش و خروش پیدا ہوگیا ہے ۔ وہ ایک نئے جوش کے ساتھ کام کرنے لگے ہیں۔ حالانکہ یو پی میں ان کی سرگرمی سے پارٹی کو نشستوں کی تعداد کے معاملہ میں زیادہ فائدہ ہونے کی امید نہیں ہے لیکن پارٹی کے ووٹ شئیر میں اضافہ ضرور ہوگا اور یہی بات کانگریس کیلئے اہمیت کی حامل ہوسکتی ہے ۔ ریاست میں ایس پی ۔ بی ایس پی ۔ آر ایل ڈی اتحاد طاقتور بن گیا ہے اورجو سروے سامنے آ رہے ہیں ان کے مطابق یہ اتحاد ریاست میں اکثریتی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا ۔ بی جے پی کی شکست میں یہاں بھی کانگریس کا اپنا فائدہ ہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس نے جنوب میں بی جے پی کو مزید کمزور کرنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے ۔
کیرالا میں کانگریس کا موقف مستحکم ہے اور وہاں وہ حکمران بھی رہی ہے۔ ایسے میں وینارڈ حلقہ کا راہول گاندھی کیلئے انتخاب کرنا ایک اہم حکمت عملی فیصلہ کہا جاسکتا ہے ۔ اس سے ٹاملناڈو اور کیرالا کے سیاسی ماحول پر بھی اثر پڑیگا ۔ کانگریس کارکنوں میںجوش و خروش میں اضافہ ہوگا اور بی جے پی کے ووٹوں کے تناسب میں کمی آئے گی ۔ بی جے پی حالانکہ دوسری نشست سے راہول کے مقابلہ پر منفی پروپگنڈہ کر رہی ہے لیکن اس کا زیادہ کوئی اثر ہوتا نظر نہیں آتا ۔ جس طرح سے کانگریس اپنے اعلانات کے ذریعہ بی جے پی کو حیرت کا شکار کر رہی ہے ویسے ہی یہ فیصلہ بھی بی جے پی کیلئے فکر کا باعث ہوسکتا ہے کیونکہ پہلے ہی سے جنوب میں کمزور بی جے پی کو یہاں مزید اپنی اہمیت اور وقعت گھٹتی نظر آنے کا امکان ہے ۔