رام پنیانی
موہن داس کرمچند گاندھی، بابائے قوم نے کہا تھا کہ وہ ہندو ہیں؛ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ مذہب اُن کیلئے نجی معاملہ ہے۔ اُن کے سب سے بڑے شاگرد جواہر لعل نہرو منطق پسند اور خدا کے وجود پر گہرا یقین نہ رکھنے والے شخص تھے جنھوں نے سکیولر ہندوستان کی بنیادیں رکھیں جہاں مذہب سے متعلق امور کو سماجی یا شخصی سطح پر نمٹالینے کی امید رکھی گئی۔ پہلے وزیراعظم ہند کے انتقال کے تقریباً چھ دہوں بعد حالات قیاس و خیال سے کہیں تجاوز کرچکے ہیں۔ نہرو کا پڑپوتا جس نے اپنا سیاسی کریئر مذہب کے سرعام مظاہرے کی علامتوں کے بغیر شروع کیا، آج اپنی مذہبیت کا واضح عوامی مظاہرہ کررہا ہے۔ اس بیان سے لے کر کہ وہ ’جنیودھاری‘ (جو مقدس دھاگہ پہنتا ہے) شیو بھکت ہے، درجنوں مندروں کے درشن یا پھر مانسروور کے مقدس سفر تک مذہبی شناخت کے اظہار کیلئے سب کچھ کیا جارہا ہے۔ وہ صدر کانگریس ہیں، اور پارٹی کی مدھیہ پردیش یونٹ نے ’رام ون گامن پدیاترا‘ کا پروگرام بنایا، اور ہر پنچایت میں گاؤشالا (گائے پنڈال) کا وعدہ کیا گیا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ترجمان ان تمام تبدیلیوں پر سوال اٹھا رہے ہیں، کیونکہ انھیں اس طرح کے معاملوں میں اپنی اجارہ داری خطرے میں نظر آرہی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ بعض نقاد کانگریس کی سیاست کو نرم ہندوتوا قرار دے رہے ہیں۔ ایسی علامتیں گاندھی اور نہرو کی پارٹی میں ایک حد تک تشویش پیدا کرتی ہیں۔ پھر بھی کیا اس کا مطلب ہے کہ کانگریس سکیولرازم کی راہ ترک کررہی ہے، وہ راستہ جس کا ہمارے دستور میں خاکہ پیش کیا گیا ہے؛ کہ مذہب عوام کی شخصی پسند کا معاملہ ہے، جس سے افراد اور برادریاں اپنے طور پر نمٹ لیا کریں؟ کیا کانگریس اُس راہ پر چلنے کی کوشش کررہی ہے جسے آر ایس ایس ۔ بی جے پی نے اختیار کیا تاکہ اقتدار حاصل کیا جاسکے، مذہبی خطوط پر برادریوں کی سیاسی شیرازہ بندی کا راستہ، انتشار پسند سیاست کا راستہ، رام مندر اور مقدس گائے۔بیف جیسے جذباتی مسائل پیدا کرتے ہوئے اہم مادی مسئلوں کو ترک کردینے کا راستہ؟
عام انتخابات 2014ء میں کانگریس کی شکست کے بعد اس پارٹی کی اے کے انٹونی کمیٹی نے رپورٹ پیش کی کہ اس کی شکست کا بڑا سبب عام نظریہ ہے کہ اسے موافق مسلم پارٹی کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور اس طرح خودبخود اسے مخالف ہندو باور کیا جاتا ہے۔ یہ رپورٹ آر ایس ایس۔ بی جے پی کی طرف سے بے تکان پروپگنڈہ کے پس منظر میں سامنے آئی کہ کانگریس مسلمانوں کی خوشامد کررہی ہے، وغیرہ۔ اس پروپگنڈہ کو یہ جھوٹ کے ساتھ گڈمڈ کردیا کہ جواہر لعل نہرو کا تعلق مسلم نسل سے تھا، اور یہ کہ کانگریس کو ہندوؤں کے مفادات کی فکر کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، وغیرہ۔ یہ بحث بھی کی گئی کہ ایک طرف ہندو بی جے پی ہے اور دوسری طرف خدا سے عاری سکیولر لوگ ہیں۔ اس جھوٹ کی جڑوں کا پتہ چلانے کیلئے ہمیں ماضی میں کافی پیچھے جانا پڑے گا۔ جب انڈین نیشنل کانگریس کی تشکیل ہوئی تو وہ اُبھرتے ہندوستان کی نمائندہ رہی … تمام ہندوستانیوں کی اجتماعی تنظیم کی حیثیت سے اس میں بھارت کی تمام برادریوں سے ارکان تھے۔ یہ بات فیروزشاہ مہتا اور بدرالدین طیب جی اس کے ابتدائی صدور جیسے لوگوں سے واضح ہوجاتی ہے۔ اسی مرحلے میں مستقبل کی ہندو مہاسبھا۔ آر ایس ایس آئیڈیالوجی کے جداعلیٰ، ہندو زمینداروں کے ایک گوشہ اور فرقہ پرست عناصر نے یہ کہنا شروع کردیا کہ کانگریس مسلمانوں کی خوشامد کررہی ہے۔ جب ہم کچھ آگے بڑھتے ہیں، آر ایس ایس تربیت یافتہ ناتھورام گوڈسے نے گاندھی جی کو مسلمانوں کو ڈھیٹ بنانے کا موردالزام ٹہرایا، جس کے باعث انھوں نے پاکستان کا مطالبہ کیا اور بھارت کو تقسیم کرایا۔ یہی غلط فہمی والا تاثر رہا کہ گوڈسے نے بابائے قوم کا قتل کردیا۔
آزادی پر جمہوریت میں بعض پالیسیاں درکار ہوئیں کہ مذہبی اقلیتوں سے متعلق امور کا تحفظ کیا جائے جس کی انھیں دستور کے تحت اجازت ہے کہ اپنے خود کے تعلیمی ادارے قائم کریں۔ اس کے ساتھ حج سبسیڈی جو دراصل ایئر انڈیا کیلئے سبسیڈی تھی، آر ایس ایس پریوار کے ہاتھوں میں مضبوط ہتھیار ثابت ہوا کہ ’اقلیتی خوشامدی‘ کی دروغ گوئی کا واویلا مچایا جائے۔ اس طرح کے پروپگنڈے کو مزید تقویت ملی جب کانگریس نے ایک سنگین غلطی میں شاہ بانو کے معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اُلٹ دیا، اور ’مسلم ویمن پروٹکشن بل‘ منظور کیا۔ اس نے کانگریس کی جانب سے جاری ’مسلمانوں کی خوشامد‘ کے پروپگنڈے کا سلسلہ چھیڑ دیا۔ یہ فیصلہ کی بڑی غلطی سرزد ہوئی جو زیادہ تر قدامت پسند مسلم عناصر کی جانب سے شاہ بانو حکمنامہ کے خلاف احتجاجوں پر مجبوراً کیا گیا اقدام تھا۔ عدالتی فیصلہ نے شاہ بانو کو طلاق کے بعد گزارہ دینے کا حکم دیا تھا۔ فرقہ وارانہ تشدد کو کنٹرول کرنے میں کانگریس کے رول میں خامی نے اسے فسادات میں تبدیل کردیا، اور یہ دنگے حقیقت میں بالخصوص مسلمانوں اور سکھوں کے خلاف تعصب پر مبنی رہے۔
بابری مسجد کے باب الداخلے کو قدامت پسند ہندو دباؤ کے تحت کھول دینے میں کانگریس کا رول، اور پھر بابری مسجد کے انہدام کو لاچاری سے دیکھتے رہنا بہت فاش سیاسی غلطیاں ہیں۔ بہرحال، سکیولر توازن کو برقرار رکھنے میں کانگریس کی مساعی میں خامیاں رہیں اور ہندوتوا، ہندو قوم پرستی کے عروج کو روکا نہیں جاسکا۔ آج، سیاسی مباحثے ہندوتوا سیاست کے خطوط پر ہورہے ہیں، سیاست کو آر ایس ایس۔ بی جے پی چلارہے ہیں۔ نہ صرف کانگریس حتیٰ کہ ممتا بنرجی نے بھی حالیہ عرصے میں مذہبیت کے مظاہرے کی طرف جھکاؤ دکھایا ہے، جیسا کہ انھوں نے درگا پوجا پنڈالوں کیلئے رعایتی برقی منظور کی اور رام نومی میں بہ نفس نفیس حصہ لیا۔
لہٰذا، سوال ہے کہ آیا راہول گاندھی زیرقیادت کانگریس نرم ہندوتوا پر عمل پیرا ہے؟ بالکل نہیں۔ یہ مذہبیت کے اظہار میں اَن چاہا جھکاؤ ہے، موافق مسلم ہونے کے گمان کا ازالہ کرنے کی کوشش ہے، اور یہ بھی کہ خدا پر ایقان سے بالکلیہ عاری سکیولرسٹ ہونے کے امیج کو ختم کیا جائے۔ ہندوتوا سیاست کی اساس ذات پات اور جنس کے برہمنی نظام پر مبنی ہے۔ اس کا مقصد بتدریج سکیولر جمہوریت کو ختم کرنا اور ہندو مملکت قائم کرنا ہے۔ اس رجحان کے خلاف لڑائی کیلئے گاندھی جی کے ہندومت کے مشمولاتی نظریہ کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے، جہاں تکثیریت اور تنوع کی اقدار کو عظیم تر اہمیت حاصل ہے۔
یہ بلاشبہ ماضی کی طرف لوٹنے والے زمانے کی علامت ہے کہ ہندو قوم پرستی کی باتیں ہندوستانی قوم پرست اقدار پر حاوی ہورہی ہیں۔ آر ایس ایس پریوار کے شرائط مباحث کا کس طرح ازالہ کیا جاسکتا ہے… ’ہندو‘ آر ایس ایس۔ بی جے پی بمقابلہ ’موافق مسلم، خدا پر ایقان سے عاری سکیولر لوگ‘؟ مذہبیت کا اظہار اُس روش پر ردعمل ہے جو عام ہوگئی ہے۔ اب اہم یہ ہے کہ ہندوؤں کے حاشیہ پر کئے گئے گوشوں جیسے کسانوں، مظلوم طبقات و خواتین اور سماجی نظام کے شکار افراد کے مسائل سے نمٹا جائے۔ کانگریس نے ماضی میں برطانوی حکمرانی سے آزادی کی تحریک کی قیادت کا رول نبھایا۔ اب اسے قوم کو ذات پات کے نظام، فرقہ پرستی اور غیرواجبی سماجی بندشوں سے آزاد کرانے میں اسی طرح کے رول کا ذمہ لینے کی ضرورت ہے۔
ram.puniyani@gmail.com