راہول میں زبردست تبدیلی ۔ بی جے پی پریشان!

امولیا گنگولی؍ عرفان جابری
راہول گاندھی کا صدر کانگریس کے طور پر ’جشن تاج پوشی‘ آئندہ ماہ اُن کے اور پارٹی کے لئے صحیح وقت پر پیش آرہا ہے۔ گزشتہ دو ماہ میں وہ غیرمعمولی کایاپلٹ سے گزرے ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ایسی تبدیلی کیونکر آئی ہے، لیکن اس کی حقیقت کے تعلق سے شاید ہی کچھ شائبہ ہے۔ ایسے شخص سے جو نظریات اور فن خطابت میں اپنی کوتاہیوں کی پارلیمنٹ اور اُس سے باہر اپنی چلاہٹ کے ذریعے پردہ پوشی کرنے کوشاں رہا، راہول گاندھی یکایک پُرسکون اور پُراعتماد بن چکے ہیں … ایسا شخص جو اپنی رائے کا روانی سے برمحل اظہار کرسکتا ہے اور یہ کہتے ہوئے خود پر ہنسنے سے خائف نہیں ہے کہ اُسے انٹرنٹ کے بعض استعمال کنندگان نے جو ظاہر طور پر زعفرانی کیمپ سے وابستہ ہیں، ’’احمق‘‘کہا ہے۔ چنانچہ کچھ تعجب نہیں کہ ہماچل پردیش اور گجرات، اور خاص طور پر گجرات میں اُن کی انتخابی ریلیوں نے بہار اور اُترپردیش میں اُن کی پہلے کی مہمات کے مقابل کہیں زیادہ پُرجوش ہجوم راغب کئے ہیں۔

راہول کی سوجھ بوجھ اُن کے اس فیصلے سے بھی عیاں ہے کہ گجرات میں وکاس یا ترقی کے تعلق سے سوشل میڈیا پر مقبول عام طنز کو پروپگنڈے کے طور پر استعمال کرنے سے گریز کیا جائے کیونکہ وہ نہیں چاہتے ہیں کہ وزیراعظم کے تئیں بے ادبی کا اظہار ہو جس سے گجراتیوں کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ شاید نہرو۔ گاندھی فیملی کی ٹھیٹ سیاسی سوجھ بوجھ اُبھر آنے لگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سینئر قائدین جیسے شرد پوار اب سونیا گاندھی کو ترجیح دینے کی بجائے مختلف اُمور کو اُن کے ساتھ راست طور پر نمٹانے کے خلاف نہیں ہیں۔ لہٰذا، اس میں تعجب نہیں ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اب اُن کے معاملے میں تن آسانی کا مظاہرہ کرنے تیار نہیں ہے، جیسا کہ نریندر مودی کے کانگریس پر حملوں کی سختی سے پرکھا جاسکتا ہے … یا جیسا کہ بڑی اپوزیشن پارٹی کو انھوں نے ’’دیمک‘‘ قرار دیا ہے … اور گجرات کو سخت ناپسند کرنے کے تعلق سے اُن کا الزام کہ کانگریس اور مخصوص خاندان کو اس ریاست کے خلاف ظاہر طور پر بغض رہتا ہے۔
یا پھر بی جے پی کا لازمی طور پر شبہ پیدا کرنے والا یہ اقدام کہ اس نے الیکشن کمیشن کو گجرات میں انتخابی تواریخ کا اعلان کرنے میں چند ہفتے کی تاخیر کے لئے ترغیب دی تاکہ رائے دہندوں کے لئے مزید چند سہولتوں کو ریاستی حکومت انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہوجانے سے قبل متعارف کراسکے۔
نہرو۔ گاندھی خاندان کے سپوت کی ترقی بروقت بھی ہے جہاں تک کانگریس کا معاملہ ہے۔ شاید ہی کچھ شک ہے کہ پارٹی مایوسی کے دلدل سے نکل چکی ہے جس میں وہ گزشتہ جنرل الیکشن میں اپنے سب سے خراب مظاہرے کے نتیجے میں پھنس گئی تھی۔ ایک وجہ کہ کیوں یہ پارٹی اب حواس باختہ نہیں رہی، اس کی 2014ء کی شکست فاش سے کچھ حد تک بحالی رہی ہے کیونکہ پارٹی نے پنجاب اسمبلی انتخابات میں اور پھر مدھیہ پردیش میں چترکوٹ کے ضمنی چناؤ میں کامیابیاں حاصل کئے ، جہاں اس نے اپنے ووٹ کا تناسب بڑھایا ہے۔علاوہ ازیں، پارٹی نے گوا اور منی پور اسمبلیوں میں نمبر 1 پوزیشن حاصل کی ، لیکن بی جے پی نے اس کے بعض لیجسلیٹرز کو لالچ کے ذریعے ورغلا کر منحرف کرالیا۔ کانگریس کا اعتماد اس لئے بھی بڑھتا جارہا ہے کیونکہ یہ یقین ہونے لگا ہے کہ پارٹی نئی نسل کی طرف جارہی ہے جس سے یقینا تنظیم میں نئی جان پیدا ہوگی، جیسا کہ پارٹی کے پرانے رہنما سرپرستی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے نوجوان نسل کو آگے بڑھا رہے ہیں … راجستھان میں سچن پائلٹ، مدھیہ پردیش میں جیوتیر ادتیہ سندھیا پارٹی کی باگ ڈور سنبھال رہے ہیں۔ اُن کے لیڈر راہول گاندھی اپنے نئے، بددماغی سے پاک اَوتار (روپ) میں توقع ہے قومی سطح پر کلیدی رول دیگر نوجوانوں کے ساتھ نبھائیں گے جو ممکنہ طور پر اُن کے حلیف ہیں جیسے اُترپردیش میں اکھلیش یادو اور بہار میں تیجسوی یادو … یہ اور بات ہے کہ آخرالذکر کو اپنے والد لالو پرساد کے چارہ اسکام کے داغ نے سیاسی طور پر اپاہج کررکھا ہے۔

کانگریس میں ایسا نہیں ہے کہ وہ سب جن کی عمریں 70 سال ہوجائیں، گوشہ نشین کردیئے جائیں جیسا کہ بی جے پی نے ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور دیگر کو اپنے ’’مارگ درشک منڈلی‘‘ یا رہنما گروہ میں شامل کردیا ہے۔ کانگریس میں امریندر سنگھ اور سدارامیا جیسے چیف منسٹرز بدستور اہم رول انجام دیتے رہیں گے۔ لیکن راہول گاندھی کی برتری پر شبہ نہ رہے گا، ٹھیک اسی طرح جیسے سونیا گاندھی کے معاملے میں نہیں ہے۔

کئی گوشوں کے لئے خاندانی سیاست کا غلبہ بھلے ہی تیل میں گری مکھی کی مانند ہوسکتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ کانگریس کے حریف اس نکتہ کو مسلسل شدت سے اٹھاتے رہیں گے کیونکہ پارٹی میں بحالی کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں جو اس کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا، اور اس کے حلیفوں کی دہلی یونیورسٹی، الہ آباد یونیورسٹی اور کاشی ودیاپیٹھ کے اسٹوڈنٹس یونین انتخابات میں کامیابیوں سے عیاں ہورہی ہے۔ آخرالذکر دو اداروں میں سماجوادی پارٹی کی طلبہ تنظیم نے بی جے پی کی طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کے مقابل جیت درج کرائی ہے۔مگر یہ حقیقت ہے کہ کانگریس اب آسان حریف نہیں رہی صرف اس وجہ سے عیاں ہے کیونکہ اسے معیشت کے بارے میں بی جے پی کے غلط اقدامات اور اپنی صفوں میں عسکریت پسند عناصر پر قابو پانے میں اس کی ناکامی کی وجہ سے فائدہ ہورہا ہے، جیسا کہ وہ دھمکیوں سے ظاہر ہورہا ہے جو فلم ’’پدماوتی‘‘ کے ڈائریکٹر اور ایکٹرز کے خلاف دی جارہی ہیں کہ یہ فلم قرونِ وسطیٰ کی ہندوستانی تاریخ کے زعفرانی چربہ سے میل نہیں کھاتی ہے!
اقتدار والی سیاست کی شاید یہ خاص بات ہے کہ جب تک سیاستدان عوام اور عام زندگی کو پریشان کرنے والے اقدامات نہیں کرتا، اُسے سیاسی شکست دینا لگ بھگ ناممکن رہتا ہے اور اس کے ٹھیک برعکس جب حکومت عوام کی نظروں سے گرجائے، اُس سے عوام متنفر ہوجائیں تو پھر ایسے حکمرانوں کی بقا بُری طرح خطرے میں پڑجاتی ہے۔ یوپی اے حکومت کے دس سال (2004-14) یہی حال بیان کرتے ہیں۔ دونوں میعادوں میں جہاں تک قیادت کا معاملہ ہے، کچھ تبدیلی نہیں ہوئی … ڈاکٹر منموہن سنگھ بدستور یوپی اے I اور یو پی اے II میں وزیراعظم رہے، سونیا گاندھی پورے دس سال یو پی اے چیئرپرسن رہیں۔ یو پی اے کابینہ معمولی ردوبدل کے ساتھ دس سال یکساں رہی۔ تاہم، یو پی اے کی پہلی اور دوسری میعاد میں زمین و آسمان جیسا فرق دیکھنے میں آیا۔ 2004ء میں اٹل بہاری واجپائی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کو ’’انڈیا شائننگ ‘‘ جیسے کھوکھلے نعروں نے خاک چٹائی اور یو پی اے کو اقتدار حاصل ہوا۔ 2009ء تک ڈاکٹر سنگھ کی حکمرانی اور سونیا گاندھی کی رہنمائی کو خوب پذیرائی ملی۔ سب کچھ شاندار ہورہا تھا۔ اسی لئے 2009ء میں دوبارہ اقتدار ملنے پر کانگریس نے ڈاکٹر سنگھ کو وزارت عظمیٰ پر برقرار رکھا۔
تاہم، یو پی اے II میں بمشکل آدھی میعاد گزری تھی کہ حکومت کے لئے مسائل شروع ہوگئے۔ یکے بعد دیگر اسکام منکشف ہونے لگے۔ وہی ڈاکٹر منموہن سنگھ ، وہی سونیا گاندھی اور لگ بھگ وہی یو پی اے کابینہ اب ہندوستان کے عوام کو کھٹکنے لگے تھے، جس کا بی جے پی نے آر ایس ایس کی سرپرستی میں بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ عوام کو اپنی بنیادی ضرورتوں کی فکریں مقدم ہوتی ہیں۔ جب یو پی اے II میں اسکام اور کرپشن کا دَور دَورہ نظر آیا، لا اینڈ آرڈر بُری طرح ناکام ہونے لگا تو عمومی طور پر ووٹروں نے قومی سطح پر ’’نریندر مودی‘‘ کو تک قبول کرلیا جو 2002ء سے گجرات فسادات کی وجہ سے اپنے سیاسی کریئر پر ’’داغ‘‘ لگائے بیٹھے تھے! اب ایسا لگتا ہے کہ جس طرح مودی کی این ڈی اے حکومت کو یو پی اے II کی ناکامیوں سے فائدہ ہوا، کچھ یہی معاملہ شاید آنے والے وقت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ 8 نومبر 2016ء کو ’’نوٹ بندی‘‘ اور پھر یکم جولائی 2017ء کو ’’جی ایس ٹی‘‘ کے ساتھ ساتھ لگ بھگ شروع سے ہی مرکز کی مودی حکومت کے دَور میں بی جے پی زیرحکمرانی ریاستوں میں گاؤکشی اور دیگر فرقہ پرستی کے معاملوں میں ہجوم کے ہاتھوں ہلاکتوں وغیرہ نے عملاً ہندوستانی ووٹروں کے لئے یو پی اے II جیسی صورتحال پیدا کردی ہے اور متبادل کو تلاش کرنے لگے ہیں۔
لہٰذا، اس کی شروعات گجرات اسمبلی الیکشن سے ہوجائے تو عجب نہیں۔ گجراتی عوام چیف منسٹر مودی کے بغیر ساڑھے تین سال اور عمومی طور پر ہندوستان وزیراعظم مودی کے ساڑھے تین سال دیکھ چکے ہیں۔ اس پس منظر میں راہول گاندھی اور اُن کے حلیفوں کو بس سیاسی سوجھ بوجھ کا دامن تھامنے کی ضرورت ہے۔ باقی کام خود رائے دہندے کردیں گے، انشاء اللہ!