پی چدمبرم
کوئی فیصلہ اُس بات کیلئے اتھارٹی ہوتا ہے جو کچھ وہ طے کرتا ہے یعنی تناسبی فیصلہ، اور اُس کیلئے اتھارٹی نہیں ہوتا جو اُس فیصلے کا منطقی طور پر نتیجہ ہوسکتی ہے۔ یہی قانون کا مسلمہ اُصول ہے۔ منوہر لال شرما بمقابلہ نریندر دامودر داس مودی و دیگر کیسوں (رافیل معاملت کے کیس) کے معاملے میں سپریم کورٹ نے 14 ڈسمبر 2018ء کو جو فیصلہ سنایا وہ اُن سوالات کیلئے زیادہ یاد کیا جائے گا جن کا عدالت نے فیصلہ نہیں کیا بمقابل اُن سوالات جن کے بارے میں فیصلہ کیا گیا۔ عدالت کا طریقہ کار کافی سادہ اور سیدھا رہا: دفاعی حصولیابی کے کسی کیس کا جائزہ لیتے وقت عدالت کا دائرۂ کار بہت محدود ہے۔ اس طرح عام قاری کیلئے تو معاملہ مشکل بن گیا، جیسا کہ عدالت نے حسب ذیل الفاظ کے ساتھ فیصلہ سنایا: تاہم، ہم واضح کرتے ہیں کہ مذکورہ بالا ہماری آراء بنیادی طور پر دستور ہند کے آرٹیکل 32 کے تحت دائرۂ کار کو بروئے کار لانے پر حاصل ہونے والے موقف پر مبنی ہیں، جو موجودہ کیسوں کے گروپ میں لاگو کیا گیا ہے۔‘‘
دائرۂ کار کے حدود
عدالتی فیصلے سے حاصل ہونے والا سبق واضح ہے: درخواست گزاروں نے دستور کے آرٹیکل 32 کے تحت سپریم کورٹ کا دائرۂ کار سمجھنے میں غلطی کی۔ عملی طور پر کسی تنازعہ کے کلیدی مسائل کا جائزہ لینے سے انکار یا فیصلہ کرنے کا ارادہ عدالت کے حدود کار کے تعلق سے نتیجہ اخذ کرنے کے بعد ہی طے ہوتا ہے۔ ’’یہ بھی واضح کردیا گیا کہ اسلحہ کی قیمت یا تکنیکی مناسبت سے متعلق امور کا مسئلہ عدالت کے جائزے میں نہیں آئے گا۔‘‘ (پیراگراف 12) ’’ہم مطمئن ہیں کہ ایسا کوئی موقع نہیں کہ واقعی طریقۂ کار پر شبہ کیا جائے، اور اگر معمولی انحراف ہوئے بھی ہیں تو اس کا نتیجہ نہیں ہوگا کہ عدالت کی جانب سے کنٹراکٹ کو کالعدم کیا جائے یا پھر تفصیلی تنقیح کی ضرورت پڑے۔‘‘ (پیراگراف 22)
’’ہم 126 کی جگہ 36 طیاروں کی خریدی کے فیصلے کی دانشمندی کے بارے میں کوئی فیصلہ صادر نہیں کرسکتے ہیں۔‘‘ (پیراگرف 22)
’’یہ بلاشبہ اس عدالت کا کام نہیں کہ زیربحث مسئلہ جیسے معاملوں میں قیمتوں کی تفصیلات کا تقابل انجام دیں۔‘‘ (پیراگراف 26)
’’ … یہ نہ تو مناسب ہے اور نہ ہی اس عدالت کے تجربے میں آتا ہے کہ کوئی چیز تکنیکی طور پر ممکن ہے یا نہیں۔‘‘ (پیراگراف 33)
مختصر یہ کہ سپریم کورٹ کی بتائی گئی وجوہات کی بناء عدالت نے بالآخر عرضیوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
مشکوک دعوے ؍ بیانات
عدالتی فیصلے کا ایک اور پہلو ہے جو خلاف معمول ہے۔ عدالت نے ایسا ظاہر ہوا کہ وہ سب کچھ ’قبول‘ کرلیا جو کچھ حکومت نے مہربند لفافہ میں پیش کردہ نوٹ میں بیان کیا یا زبانی دلائل میں پیش کیا ہے۔ حسب ذیل نمونہ ملاحظہ کیجئے: اصل آر ایف پی سے دستبرداری کا عمل مارچ 2015ء میں شروع کیا گیا؛ ڈسالٹ اور ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ (ایچ اے ایل) کے درمیان کنٹراکٹ کی بات چیت بوجہ غیریکسوئی شدہ مسائل نتیجہ خیز نہ ہوسکی؛ ہندوستان کی طرف سے بات چیت کرنے والی ٹیم نے قیمت، ڈیلیوری اور دیکھ بھال سے متعلق بہتر شرائط طے کئے؛ تمام ضروری طریقۂ کار کی تعمیل ہوئی؛ سی اے جی کی رپورٹ کا ردوبدل والا چربہ پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا اور سی اے جی رپورٹ کا پی اے سی نے جائزہ لیا؛ چیف آف ایئر اسٹاف نے قیمتوں کی تفصیلات کے افشاء کے تعلق سے اپنے تحفظ سے مطلع کیا؛ قیمتوں کی تفصیلات کا دونوں حکومتوں کے درمیان آئی جی اے کے آرٹیکل 10 کی ذریعے احاطہ کیا گیا؛ 36 رافیل طیارے خریدنے میں تجارتی فائدہ ہے؛ آئی جی اے میں دیکھ بھال اور اسلحہ کے پیاکیج کے اعتبار سے بعض بہتر شرائط تھے؛ ڈسالٹ کو ایچ اے ایل کی طرف سے کنٹراکٹ کی شرائط کی تکمیل کرنے کے بارے میں شک وشبہ رہا؛ ڈسالٹ نے کئی کمپنیوں کے ساتھ پارٹنرشپ کے معاہدوں پر دستخط کئے ہیں اور زائد از سو کے ساتھ بات چیت میں ہے؛ ممکنہ طور پر مادر ریلائنس کمپنی اور ڈسالٹ کے درمیان اگریمنٹ کی شروعات سال 2012ء سے ہوئی؛ اور اور سابق صدر فرانس مسٹر اولاند کے دیئے گئے انٹرویو کے ہر حصے سے واضح تردید ہوتی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی بیانات؍ دعوے پوری سچ نہیں ہیں اور عدالت نے اپنے محدود دائرۂ کار کے سبب ان کی تصدیق کا جائزہ نہیں لیا۔ لہٰذا، کون جائزہ لے سکتا ہے؟ صاف جواب ہے کہ صرف پارلیمانی انکوائری ان بیانات؍ دعوؤں کے غلط ہونے کا افشاء کرتے ہوئے سچائی کو سامنے لائے گی۔عدالت نے جس مجبوری کا مظاہرہ کیا اس کے نتیجے میں عدالت نے بڑی غلطی کردی ہے۔ ابھی سی اے جی کی کوئی رپورٹ نہیں آئی ہے؛ رپورٹ کے کوئی بھی چربہ میں ردوبدل نہیں ہوا ، نا ہی پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے؛ اور رپورٹ کا تبادلہ ہوا ہوا ، نا ہی پی اے سی نے جائزہ لیا ہے۔ عدالت کو گمراہ کرنے کے بعد حکومت نے آسانی سے عدالت کو ہی موردِ الزام ٹہرا دیا کہ اس کے نوٹ کی ’غلط تشریح‘ کی گئی! حکومت نے عدالت کو انگریزی قواعد (گرامر) کے بارے میں سبق بھی دیئے ہیں! یہ خرابیاں ’مہربند لفافہ‘ کا طریقہ اختیار کرنے پر پیدا ہوتی ہیں۔
سوالات جن کے جواب نہ ملے
ایسے کم از کم تین بڑے سوالات ہیں جن کے جواب صرف پارلیمنٹری انکوائری کے ذریعے حاصل ہوسکتے ہیں:
کیوں حکومت نے ڈسالٹ اور ایچ اے ایل کے درمیان ٹکنالوجی کے تبادلے کا معاہدہ اور کام بانٹے کا اگریمنٹ (13 مارچ 2014ئ) منسوخ کردیا جبکہ 95 فیصدی مذاکرات دونوں (ڈسالٹ سی ای او، 28 مارچ 2015ئ) اور معتمد خارجہ (8 اپریل 2015ئ) کے درمیان مکمل ہوچکے تھے؟
اگر نئی قیمت 9 تا 20 فیصد سستی ہے تو کیوں حکومت نے ڈسالٹ کی پیشکش کے مطابق 126 طیارے نہیں خریدے، کیونکہ ایئر فورس (فضائیہ) کو لڑاکا طیاروں کے اپنے بیڑے کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے؟
کیوں حکومت نے ایچ اے ایل کا کیس پورے یا آفسٹ کنٹراکٹس کے کچھ حصے کیلئے آگے نہیں بڑھایا، جو واحد کمپنی ہے جس نے انڈیا میں ایرکرافٹ تیار کیا ہے؟
سپریم کورٹ کے فیصلہ سے قطع نظر کئی غیرمصدقہ دعوے اور سوالات ہیں جن کے جواب نہیں دیئے گئے۔ عدالتی فیصلہ نے ازخود پارلیمنٹری انکوائری کو ناگزیر بنادیا ہے۔ یہ معاملہ اب عوام کی عدالت پر چھوڑتے ہیں۔