رافیل : میڈیا رپورٹ کے بعد پی ایم او بے نقاب

رویش کمار
اہم کاغذات آشکار ہونے لگے ہیں۔ اگر آپ کوئی اخبار پڑھیں تو مانو آپ حکومت کو پڑھ رہے ہیں۔ ہندوستان کے آسمان میں رافیل نے ابھی اُڑان نہیں بھری ہے لیکن اُس کی فائلوں کے کاغذات اُڑائے جارہے ہیں۔ اخبار ’دی ہندو‘ کی حالیہ اشاعت کی ایک خبر کے بعد تمام فائلیں بے نقاب ہوں گے، لیکن دو یا تین صفحات منظرعام پر آچکے ہیں۔ اخبار ’دی ہندو‘ مورخہ 24 نومبر 2015ء کے صفحہ اول پر این رام نے اصل سوال اٹھایا کہ جو خریداری طے کی گئی اُس سے وزیر دفاع، معتمد دفاع وغیرہ قطعی واقف نہ تھے اور لاعلم رہے کہ وزیراعظم مودی کا دفتر اپنی سطح پر فرانس کے ساتھ راست مذاکرات کررہا ہے۔نیز کون انکار کرے گا کہ سینئر وزیر دفاع منوہر پاریکر اور ایئرمارشل ایس بی پی سنہا سربراہ کمیٹی برائے دفاعی خریداری کی ٹیم بھی کچھ کرنے سے قاصر رہے کیونکہ دفتر وزیراعظم (پی ایم او) کی مداخلت ہورہی تھی۔ کیا ڈیفنس ٹیم نے پی ایم او سے کہا کہ جب ہم کچھ کرنہیں سکتے تو ہم دستبردار ہوتے ہیں، آپ ہی معاملت طے کرلیجئے۔
رافیل طیارہ کی خریداری کیلئے وزارت دفاع میں ایک ٹیم تشکیل دی گئی جس کے سربراہ ڈپٹی چیف آف ایئر اسٹاف ایس بی ایس سنہا، آئی اے ایف رہے۔ اسی طرح ایک ٹیم فرانس میں رہی جس کے لیڈر جنرل راب تھے۔ ڈیفنس منسٹری نے ایک نوٹ لکھا جسے ’دی ہندو‘ نے شائع کیا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ ہمیں پی ایم او کو تجویز پیش کرنا چاہئے کہ خریداری کیلئے تشکیل شدہ ٹیم کا حصہ نہ ہونے والا کوئی بھی آفیسر فرانسیسی حکومت کے ساتھ متوازی مذاکرات نہیں کرے گا۔ بہرصورت، 24 نومبر 2015 ء کے مکتوب میں پی ایم او کی ممکنہ مداخلت کے بارے میں ٹھوس پیام ہے۔ اس مکتوب کی تین سینئر عہدیدارانِ وزارت دفاع نے حمایت کی جن میں ایئر مارشل ایس بی پی سنہا شامل ہیں۔ مکتوب کے پیراگراف 5 میں واضح ہے کہ وزارت دفاع اور ہندوستانی ٹیم کی صورتحال اس معاملے میں پی ایم او کی متوازی بات چیت کے سبب کمزور ہوچلی ہے۔ کیا یہ کوئی عمومی تبصرہ ہے؟ ڈیفنس سکریٹری نے تین آفیسرز کی رائے کا انکشاف نہیں کیا۔ بہرحال دونوں ملکوں کے درمیان معاملت آگے بڑھی۔ کیا حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ اس معاملت میں پرائم منسٹرس آفس بھی ملوث ہے، جس کی اطلاع منسٹری آف ڈیفنس کو نہ تھی؟ اس معاملت کا اعلان 10 اپریل 2015ء کو پیرس میں کیا گیا۔
چند ماہ بعد 23 اکٹوبر 2015ء کو فرانسیسی جنرل اسٹیفن راب کا وزارت دفاع کو مکتوب سے ظاہر ہوتا ہے کہ جاوید اشرف جوائنٹ سکریٹری پی ایم او اور لوئی وسی ڈپلومیٹک اڈوائزر برائے فرانسیسی وزارت دفاع کے درمیان ٹیلی فونی بات چیت ہوئی ہے۔ اس مکتوب تک یہ معلوم نہ تھا کہ پی ایم او بھی اس معاملت میں رول ادا کررہا ہے۔ یہ تمام باتیں ہندو اخبار میں شائع کی گئی ہیں، جس کا اقتباس میں پیش کررہا ہوں۔ پی ایم او خود اپنی سطح پر کچھ کررہا ہے۔ ایئر مارشل ایس بی پی سنہا بھی جوائنٹ سکریٹری جاوید اشرف کو مکتوب لکھتے ہیں۔ کیا جاوید اشرف اپنی سطح پر بات چیت کررہے تھے یا کسی کے کہنے پر ایسا کررہے تھے؟ اس کے جواب میں جاوید اشرف توثیق کرتے ہیں کہ انھوں نے ڈپلومیٹک اڈوائزر لوئی وسی کے ساتھ مشاورت کی ہے اور انھوں نے فرانسیسی صدر کے مشورہ کے بارے میں بتایا ہے۔
میں آپ کو یاددہانی کرا دوں کہ گزشتہ 21 ستمبر کو ’اسوسی ایٹیڈ پریس‘ نے کہا تھا کہ مودی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک نیا فارمولا وضع کیا ہے جس میں ریلائنس گروپ کا نام آرہا ہے۔ چنانچہ نومبر کے ایک ریمارک میں کہا گیا کہ اس سے متعلقہ ہندوستانی ٹیم کو سودا طے کرنے میں بڑی دقت پیش آئے گی۔ فرانسیسی فریق کو فائدہ ہوسکتا ہے اور آخرکار وہی کچھ ہوا۔ ہندوستان کی مذاکرات ٹیم طویل عرصہ سے کوشش کررہی تھی کہ یا تو فرانسیسی حکومت اپنی سطح پر معاملت کی ضمانت دے یا پھر بینک گیارنٹی دی جائے۔ لیکن وزارت دفاع نے اسے یکسر نظرانداز کرتے ہوئے بینک گیارنٹی یا حکومتی ضمانت کے بغیر معاملت کو آگے بڑھا دیا۔ صرف مکتوب ِ تصدیق جاری ہوا کہ تمام تر شرائط کی تکمیل کی جائے گی۔ راہول گاندھی نے پریس کانفرنس میں دوبارہ کہا کہ سال ڈیڑھ سال سے جو لوگ کوشش کررہے تھے وہی ثبوت ہیں کہ معاملت میں گڑبڑ ہوئی ہے۔
بلاشبہ بی جے پی کی طرف سے بھی ردعمل سامنے آیا۔ پارلیمنٹ میں نرملا سیتارمن نے اس مسئلہ کو بے فیض موضوع قرار دیا۔ نرملا نے ایک سوال اٹھایا کہ اخبار نے صرف نصف حصہ شائع کیا۔ نرملا سیتارمن کے اس سوال پر علحدہ بحث کی جاسکتی ہے، شاید اخبار نے نیوز کے دوسرے حصہ کو دوسرے دن کیلئے رکھا۔ لیکن حکومت کی طرف سے ایسا رویہ ٹھیک نہیں۔ جو کچھ شائع ہوا، اس میں ڈیفنس سکریٹری نہ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈیفنس منسٹر سب کچھ دیکھ رہے ہیں بلکہ یہ کہہ بھی رہے ہیں کہ وزیراعظم آزادانہ طور پر بات چیت کررہے ہیں۔ وزارت دفاع کی صورتحال کمزور ہوگئی۔ کیوں پی ایم او نے ڈیفنس منسٹری کو نہیں بتایا کہ وہ بھی کچھ رول ادا کررہا ہے۔ یہی پورا صفحہ ہے جو وزیر دفاع نے چاہا کہ ہندو اخبار کو مکمل شائع کرنا چاہئے تھا۔ تاہم، اس فائل پر ایک چیز ضرور دیکھیں۔ اس پر پاریکر صاحب کی دستخط ہے جو 11 جنوری 2016ء کو کی گئی۔ وزارت دفاع کی پہلی دستخط 24 نومبر 2015ء کو کی گئی۔ ڈیفنس منسٹر نے اس صفحہ پر لکھا ہے کہ ظاہری طور پر پی ایم او اور فرانس کے پریسیڈنٹس آفس اس مسئلہ کی پیشرفت کی نگرانی کررہے ہیں، جسے چوٹی اجلاس میں طے کیا گیا۔ پاریکر نے یہ بھی لکھا کہ معتمد دفاع کو وزیراعظم کے پرنسپل سکریٹری سے اس معاملے میں مشورہ کرنا چاہئے۔ اگر یہی جواب ہے تو حکومت کو دوبارہ سوچنا چاہئے کہ آیا وہ درست جواب دے رہی ہے یا نہیں۔ وزیر دفاع کے مطابق پی ایم او ایک سال قبل سے نگرانی کررہا تھا، جسے آخرکار اپریل 2015ء میں پیرس میں طے کیا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اپریل 2015ء سے نومبر 2015ء تک پرائم منسٹرس آفس خود اپنے ڈیفنس منسٹر اور وزارت دفاع کی مذاکرات ٹیم کو اس بارے میں نہیں بتاتا ہے۔ آپ قارئین خود فیصلہ کرلیں کہ اس طرح کا عمل نگرانی کہلاتا ہے یا پہلے سے جاری عمل کو نظرانداز کردینا؟ نرملاجی کا کہنا ہے کہ پی ایم او اُن کی وزارت سے بار بار پوچھے جارہا ہے کہ (رافیل معاملت میں) پیشرفت ہورہی ہے یا نہیں۔ اسے مداخلت سمجھا جاسکتا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ڈیفنس منسٹری کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا؟ یہ جواب دیا جارہا ہے کہ پی ایم او سے سوال پوچھنا مداخلت ہے کہ نہیں۔ نرملاجی یہ بتائیں کہ ڈیفنس سکریٹری کی نوٹس سے قبل کب پی ایم او نے اس تعلق سے پوچھا؟
ہندو اخبار میں قیمتوں کے تعلق سے کچھ بھی شائع نہیں کیا گیا۔ سابق ڈیفنس سکریٹری کو اصل سوالات کے جواب دینے کے بجائے یہ نہیں بتانا چاہئے کہ فائل پر کیا لکھا ہے۔ انھوں نے کیوں فائل پر یہ تحریر کیا کہ اگر پی ایم او کو وزارت دفاع کے کام پر بھروسہ نہیں ہو تو ایسی صورتحال میں پرائم منسٹرس آفس کو مناسب سطح پر مذاکرات کا نیا انتظام کرلینا چاہئے۔ کیوں یہ باتیں فرانس کی طرف سے سامنے آئیں کہ پی ایم او اپنی سطح پر مذاکرات کررہا ہے۔ اب قیمت اور معاملت کی باتوں کا کیا ہوا؟ چیئرمین پرچیز کمیٹی ایس بی پی سنہا بھی ایک مختلف سوال ظاہر ہوتے ہیں۔ بنیادی سوال ہے کہ کیوں 24 نومبر 2015ء کے مکتوب پر تحریر کیا گیا کہ پی ایم او اُن کے موقف کو کمزور کرتے ہوئے اپنی سطح پر سودا طے کررہا ہے۔
ravish@ndtv.com