رافیل معاملت ‘ نرملا سیتارمن بھی پریکر کے نقش قدم پر

دانش قادری
رافیل معاملت پر جاریہ تنازعہ کس نے شروع کیا ؟ ۔ فوجی گوشوں سے راست وزیر دفاع نرملا سیتارامن کی سمت اشارے کئے جا رہے ہیں جنہوں نے اسمسئلہ پر اندرون دو ماہ دو تبصرے کئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود حکومت میںالجھن ہے ۔ اس سے کانگریس کے صدر راہول گاندھی کو ایک موقع فراہم کیا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف رافیل معاملت پر ٹوئیٹر پر تنقیدیں شروع کریں۔ کانگریس قائدین نے پارلیمنٹ میں وزیر اعظم مودی کو نشانہ بنایا تھا اور سوال کیا تھا کہ وزیر اعظم اپنی خاموشی کب توڑیں اور رافیل معاملت پر کب اظہار خیال کرینگے ۔ رافیل معاملت کو شخصی طور پر وزیر اعظم نریندر مودی نے منظوری دی تھی اور اس کی تفصیلات پیش کرنے میں سرکاری پس و پیش سے کانگریس پارٹی کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور وہ اس مسئلہ پر حکومت کو نشانہ بنا رہی ہے ۔ ایک پریس کانفرنس میں گذشتہ سال نومبر میںنرملا سیتارامن سیاسی دباؤ کے آگے مجبور ہوگئی تھیں اور انہوں نے بیان دیا تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ اس مسئلہ پر اعداد و شمار بتانے سے گریزاں نہیں ہیں۔ انہوں نے مرکزی ڈیفنس سکریٹری سنجے مترا کی سمت مڑتے ہوئے ان کو ہدایت دی تھی کہ وہ تفصیلات پیش کریں۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ 36 طیاروں کی معاملت کو وزیر اعظم نریندر مودی نے قطعیت دی تھی کیونکہ صورتحال سنگین تھی اور حکومت کو تیزی سے آگے بڑھنا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ معاہدہ کے تحت طیارے خریدنے کا جو معاہدہ ہوا ہے اس کی قیمت سابقہ کانگریس زیر قیادت یو پی اے حکومت کی طئے کردہ قیمت سے کافی بہتر ہے ۔ سیتارامن نے اس پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اس معاملت میں خریدی سے متعلق طریقہ کار کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی گئی ہے ۔ جو الزامات عائد کئے جا رہیں وہ شرمناک ہیں۔ ایک شفاف طریقے سے یہ معاملت طئے پائی ہے ۔ پریس کانفرنس میں مسٹر سنجے مترا کے علاوہ ڈپٹی چیف آف ائر اسٹاف ائر مارشل رگھوناتھ نامبیار بھی موجود تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاملت میں طیاروں کی قیمت سستی ہے ۔
ڈسمبر میں ایک بار پھر وزیر دفاع نے پارلیمنٹ کو ایک تحریری جواب سے تیقن دیا تھا کہ ان کی حکومت نے ان جیٹ طیاروں کی خریدی کیلئے بہتر قیمت کا تعین کیا ہے ۔ سابقہ یو پی اے حکومت نے جملہ 126 طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا تھا ۔ نرملا سیتارامن کا حالانکہ یہ اعتراف بھی تھا کہ دونوں معاملتوں کا ایک دوسرے سے تقابل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ طیاروں کی منتقلی میں فرق ہے ۔ سابقہ یو پی حکومت کے معاہدہ کے مطابق 18 طیارے اڑان بھرنے کی صلاحیت کے ساتھ آنے والے تھے جبکہ مابقی 108 طیاروں کو ٹرانسفر آف ٹکنالوجی کی بنیاد پر لائسنس حاصل کیا جا رہا تھا ۔ نرملا سیتارامن کا کہنا تھا کہ طیاروں کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے بلکہ قیمت اور بھی بہتر ہوئی ہے ۔ حالانکہ 36 طیاروں کیلئے ٹکنالوجی کی منتقلی کی بنیاد پر حاصل نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ وہ اڑان بھرنے کی صلاحیت میں آ رہے ہیں۔

اور اب اپنے تیسرے بیان میں صرف دو ماہ کے بعد وزیر موصوف نے سابق میں دئے گئے تمام تیقنات کو عملا ترک کردیا ہے اور ان کا یہ کہنا تھا کہ رافیل لڑاکا طیاروں کے حصول کی معاملت پر تفصیلات کو پیش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ فرانس کے ساتھ رازداری کا معاہدہ ہوا ہے اور یہ کلاسیفائیڈ اطلاعات ہیں۔ سیتارامن سماجوادی پارٹی کے رکن راجیہ سبھا نریش اگروال کے سوال کا جواب دے رہے تھیں۔ ان کا سوال تھا کہ حکومت کیوں اس معاملت کی تفصیلات کا افشا نہیں کر رہی ہے جس میں کانگریس نے این ڈی اے حکومت پر بدعنوانی کا الزام عائد کیا ہے اور کہا ہے کہ زائد قیمتیں ادا کرتے ہوئے یہ طیارے حاصل کئے جا رہے ہیں۔ اپنے تحریری جواب میں وزیر دفاع نے کہا تھا کہ بین حکومتی معاہدوں کے دفعہ 10 کے تحت حکومت ہند اور حکومت فرانس کے مابین رافیل طیارے خریدنے کا جو معاہدہ ہوا ہے وہ کلاسیفائیڈ اطلاعات ہیں اور ان کا افشا نہیں کیا جاسکتا ۔ اس سوال پر کہ آیا خانگی شعبہ کی کسی کمپنی کو اس معاملت میں شامل کیا گیا ہے سیتارامن نے کہا تھا کہ نہ عوامی شعبہ کی اور نہ خانگی شعبہ کی کسی کمپنی کو اس معاہدہ میں شامل کیا گیا ہے ۔
نرملا سیتارامن کے پیشرو منوہر پریکر بھی اس معاملہ پر الٹ پلٹ بیانات دیتے رہے تھے تاہم بعد میں وہ کسی طرح اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے دورہ فرانس کے موقع پر اپریل 2015 میں خود اپنے وزیر دفاع کو بھی حیرت کا شکار کردیا تھا اور اس وقت تک ہو رہی بات چیت کو جو تعطل کا شکار تھی یکلخت ختم کرتے ہوئے اعلان کردیا تھا کہ ان کی حکومت 36 لڑاکا طیارے خریدنے کا فیصلہ کرچکی ہے جو اڑان بھرنے کی صلاحیت میں ہونگے ۔ اس کے فوری بعد یہ معاملت پس پردہ چلی گئی تھی جب پریکر نے اس پر اٹھنے والے سوالات پر جواب دینے کی کوشش کی تھی لیکن وہ موثر ثابت نہیں ہوئی ۔ اس وقت اخبارات میں بھی یہ اطلاعات شائع ہوئی تھیں کہ اقتدار کے گلیاروں میں یہ کہا جا رہا ہے کہ خود وزیر دفاع کو بھی وزیر اعظم کے اعلان کا علم نہیں تھا اور وہ حیرت کا شکار ہوگئے تھے ۔ مزید حیرت کی بات یہ تھی کہ اس دورہ سے کچھ قبل وزیر دفاع نے پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے کہا تھا کہ اطلاعات اور قیمت سے متعلق درخواست پر جو معاہدہ کی شرائط ہیں ان پر مزید کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے اور اس تعلق سے قطعی فیصلہ معاہدہ پر تبادلہ خیال سے متعلق کمیٹی کی رپورٹ اپریل میں پیش کئے جانے کے بعد ہی ہوگا ۔

پریکر نے در حقیقت اپنے انٹرویو سے خود کو بھی الجھن کا شکار کردیا تھا اور عوام بھی الجھن میں پڑگئے تھے ۔ نئی معاملت کو قطعیت دئے جانے کے کئی دن بعد تک پریکر اس پر خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے اور اس پر سوالات کا جواب دینے سے گریز کر رہے تھے ۔ پریکر کا کہنا تھا کہ اس مسئلہ کا یہی واحد حل تھا ۔ در حقیقت وزیر اعظم مودی ایسے فیصلے کرسکتے ہیں۔ ماضی میں بھی وزرائے اعظم نے جن میں اٹل بہاری واجپائی نمایاں تھے اس طرح کے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔ تاہم وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ فیصلہ مکمل نہیں ہے ۔ یہ فیصلہ صرف 36 طیارے حاصل کرنے سے متعلق ہے اور وہ بھی بہتر شرائط پر ۔ وہ کانگریس کی پریس کانفرنس دیکھ رہے تھے انہیں حیرت ہوئی کہ کانگریس پارٹی اس بات سے واقف نہیں ہے کہ حقیقت میں ہوا کیا ہے ۔ پارٹی نے مزید اطلاعات حاصل کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا ۔ ان کے خیال میں کانگریس لیڈر اے کے انٹونی کو یہ اطلاعات حاصل کرنی چاہئے تھیں کیونکہ وزارت دفاع میں ان کے کئی جانے والے موجود ہیں۔
مودی کے دورہ فرانس کے ایک ماہ بعد بھی اس معاملت پر واضح صورتحال نہیں تھی ۔ مئی 2015 میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے پریکر نے کہا تھا کہ ہم صرف 36 طیارے خرید رہے ہیں ۔ اگر ہم 126 طیارے خریدتے تو پھر قیمت 3.75 گنا ہوجاتی ۔ ہاں اس میں کچھ رقمی معاملات ہیں لیکن زیادہ خر چ موثر انداز میں کرنا اہمیت کا حامل ہے ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ رافیل معاملت پر بنیادی پیام یہ ہے کہ اس میں تعداد کو کم کردیا گیا ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے ہم تقریبا 60 تا 65 ہزار کروڑ رقم بچالیں گے جسے میک ان انڈیا پر خرچ کیا جائیگا ۔ رافیل معاملت میں بھی ہم نے 50 فیصد گنجائش رکھی ہے ۔ اس سے بھی میک ان انڈیا پر توجہ دی جائیگی ۔ تاہم اس بیان کے ایک دن بعد ہی پریکر الجھن کا شکار ہوگئے تھے ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ہم مزید طیارے خریدینگے اور وہ یہ بھی نہیں کہہ رہے ہیں کہ ہم مزید طیارے نہیں خریدینگے ۔ اس کے کچھ دن بعد ان کا پھر کہنا تھا کہ اس پر بات چیت مکمل ہونے تک وہ زبان نہیں کھولیں گے ۔ جب بات چیت جاری ہو تو اس پر اظہار خیال نہیں کیا جاتا ۔ ایسا کرنا بیوقوفانہ ہوگا ۔ خود ہم اس پر تبصرہ نہیں کرسکتے ۔ تیسرا فریق ایسا کرسکتا ہے ۔ کرنے والوں کو تبصرے کرنے دیجئے ۔ بعد میں کوئی نتیجہ سامنے آئیگا ۔ وہ صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ اس کو پوری شفافیت سے پورا کیا جائیگا تاکہ کسی سوال کی گنجائش باقی نہ رہے ۔
اس معاملت کے دو سال بعد بھی شفافیت سامنے نہیں آئی ہے ۔ وزیر نرملا سیتارامن لفظی تیقنات کے بعد پر اسرار خاموشی اختیار کرچکی ہیں اور کانگریس پارٹی نے سب کچھ ٹھیک نہیں ہے کی مہم شروع کر رکھی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ 36 رافیل طیاروں کی قیمت 8.2 بلین ڈالرس ہے جبکہ 126 طیاروں کی معاملت کی قیمت صرف 18 تا 22 بلین ڈالرس کے درمیان تھی ۔ یہ اعداد و شمار سرکاری نہیں ہیں لیکن وقفہ وقفہ سے سامنے ضرور آ رہے ہیں۔