راشٹرپتی بھون میں مچھر

میرا کالم              سید امتیاز الدین
ہم نے پچھلے دنوں اخبار میں ایک خبر پڑھی جس سے ہم کو بہت حیرت ہوئی ۔ ہم نے پڑھا کہ نئی دہلی میونسپل کارپوریشن نے راشٹرپتی بھون کو 80 نوٹسیں جاری کی ہیں کہ ڈینگو مچھروں کی نسل راشٹرپتی بھون کے وسیع و عریض علاقے میں پرورش پارہی ہے اور روز افزوں ترقی پر ہے۔ بلدیہ کے عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ کئی جگہوں پر مچھروں کی کثیر تعداد پائی گئی ہے ۔ یہ مچھر زیادہ تر اسٹاف کوارٹرس کے پاس دیکھے گئے ہیں ۔ ان اسّی نوٹسوں میں بار بار یہ گزارش کی گئی ہے کہ ان مچھروں کو مزید بڑھنے سے نہ صرف روکا جائے بلکہ ان کے صفائے کی تدابیر اختیار کی جائیں ۔ ایک چار رکنی ماہرین کی ٹیم بھی بنائی گئی ہے جو موثر اور عاجلانہ تدابیر اختیار کرے گی تاکہ مچھروں کا جلد سے جلد خاتمہ ہوسکے ، معلوم ہوا ہے کہ دہلی کے محکمۂ بلدیہ نے دہلی کے نامی گرامی ہسپتالوں کو بھی ایسی نوٹسیں جاری کی ہیں ،جہاں مچھروں کی بہتات ہے ۔ یہ مچھر ڈینگو بخار پھیلاتے ہیں جس کا نام عام طور پر دہلی میں سننے میں آتا ہے ۔ اس لئے بعض لوگ اسے ڈینگو دہلوی کے نام سے بھی جانتے ہیں ۔ ہم کو یہ خبر پڑھ کر پریشانی بھی ہوئی اور تھوڑا سا فخر بھی کہ کم سے کم ایک چیز ایسی ہے جو اِن دنوں راشٹرپتی بھون میں ہے اور ہمارے گھر میں بھی ، یعنی مچھر ۔ راشٹرپتی بھون میں مچھروں کا پایا جانا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہاں صفائی اور ستھرائی کا مناسب انتظام نہیں ۔ بات دراصل یہ ہے کہ راشٹرپتی بھون میں نہایت خوبصورت باغات ، لانس ، سیکڑوں قسم کے درخت ، ہزاروں قسم کے پھول ، کروٹن اور نہ جانے کتنی قسم کے نباتات موجود ہیں ۔ راشٹرپتی بھون کا روز گارڈن اتنا عمدہ اور نادر ہے کہ ہر سال شاید مارچ کے مہینے میں یہ روز گارڈن عوام کے لئے کھول دیا جاتا ہے تاکہ گلاب کے شائقین پھولوں کے بادشاہ گلاب کا نظارہ کرسکیں اور اُن کی آنکھوں اور اُن کے جمالیاتی ذوق کی تسکین ہو ۔ ظاہر ہے جب نباتات کی ایسی فراوانی ہو تو وہاں پانی اور کھاد وغیرہ کا بھی کثرت سے استعمال ہوگا ۔ ایسے میں مچھروں کو بھی موج مستی کا موقع مل جاتا ہے ۔ حفاظتی عملہ آدمیوں اور بڑے جانوروں کو تو آنے سے روک سکتا ہے لیکن مچھر حفاظتی عملے کو بھی کاٹتے ہوئے داخل ہوجاتے ہیں اور اپنی کالونیاں آباد کرلیتے ہیں ۔ ہمیں امید ہے کہ چار رکنی ماہرین کی ٹیم جو دہلی کے محکمۂ بلدیہ اور دیگر متعلقہ محکموں کی جانب سے بنائی جارہی ہے بہت جلد حالات پر قابو پالے گی ۔

ہمارے گھر میں جو مچھر پائے جاتے ہیں ،وہ گھر کے کونوں کھدروں میں دن بھر آرام کرتے ہیں اور سرشام جب ہم سونے کی تیاریوں میں ہوتے ہیں ،ہمارے خانہ نشین مچھر بیدار ہوتے ہیں اور ہمارا خون پینے کے لئے گنگناتے ہوئے ہمارے اطراف گھومنے لگتے ہیں ۔ ایسے میں ہم بازار میں ملنے والی چند احتیاطی تدابیر اختیار کرلیتے ہیں ۔ ہمارے بچپن میں مچھر دانی کا رواج تھا لیکن اب پتہ نہیں کیوں مچھر دانیاں ذرا کم ہی دکھائی دیتی ہیں ۔ اس کی بجائے کڑاکے کی سردی میں بھی لوگ رضائی یا کمبل اوڑھ لیتے ہیں اور پوری رفتار سے پنکھا چلا کر مچھروں سے اپنا بچاؤ کرتے ہیں اور اگلی صبح سردی زکام کا شکار ہو کر اٹھتے ہیں ۔ ہمارے ایک دوست نے مچھردانی کا عجیب استعمال ہمیں بتایا ۔ کہنے لگے ’’میں مچھردانی میں نہیں سوتا لیکن اُس کا نہایت صحیح استعمال کرتا ہوں‘‘ ۔ ہم نے پوچھا وہ کیسے ۔کہنے لگے ’’میں سرشام اپنے پلنگ کی مچھردانی لگادیتا ہوں لیکن اس کو ایک طرف سے کھلا رکھتا ہوں ۔ تمام مچھر جوق در جوق مچھردانی میں جمع ہوجاتے ہیں ۔ جب میرے سونے کا وقت ہوتا ہے تو میں مچھردانی کو اچھی طرح سے بند کردیتا ہوں اور خود باہر فرش پر سوجاتا ہوں ۔ رات بھر میرے خون کے پیاسے مچھر میرے ہجر میں تڑپتے ہیں اور تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں ۔ صبح میں بھلا چنگا اٹھتا ہوں‘‘ ۔ ہم نے ان سے پوچھا ’’یہ عجیب و غریب منطق آپ نے کیسے نکالی؟‘‘ کہنے لگے ’’چوہے دان سے ! دیکھو ، چوہوں کو پکڑنے کے لے آدمی چوہے دان میں نہیں داخل ہوجاتا ۔ چوہوں کو چوہے دان میں پھانستا ہے‘‘  اور خود باہر رہتا ہے ۔
راشٹرپتی بھون کے مچھروں کی روک تھام بلکہ اُن کا قلع قمع اس لئے بھی ضروری ہے کہ وہاں معزز بیرونی مہمان آتے ہیں اور ان کی شاندار ضیافتیں ہوتی رہتی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ڈینگو مچھر کا پایا جانا کچھ اچھی بات نہیں ہے ۔

راشٹرپتی بھون کے ساتھ ہم کو ایک بات اور یاد آگئی ۔ جن دنوں ڈاکٹر راجندر پرساد صدر جمہوریہ تھے تو انھوں نے ایک خوشگوار روایت ڈالی تھی جو آج بھی برقرار ہے ۔ راشٹرپتی سال میں ایک بار جنوب میں قیام کے لئے حیدرآباد آتے تھے اور بلارم میں راشٹرپتی نیلایم میں قیام پذیر ہوتے تھے ۔ جون ، جولائی کے مہینوں میں دہلی کے موسم کے مقابلے میں حیدرآباد کا موسم راجن بابو کو زیادہ سازگار ہوتا تھا ۔ اس لئے وہ یہاں کم سے کم ایک مہینہ ضرور ٹھہرتے تھے ۔ راجن بابو کے بعد بھی صدر جمہوریہ آتے رہے لیکن ان کا قیام مختصر رہنے لگا ۔ راشٹرپتی نیلایم اور اس سے ملحقہ اسٹاف کوارٹرس سال کے بیشتر حصوں میں یونہی پڑے رہنے لگے ۔ ایک بار راشٹرپتی کے آنے سے چند دن پہلے اچانک معلوم ہوا کہ راشٹرپتی نیلایم کے احاطے میں سانپ آزاد گھوم رہے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ سانپ مچھر کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک چیز ہے ۔ سپیروں اور سانپ پکڑنے والوں کی مدد لی گئی تب جاکے اس پریشانی سے نجات ملی ۔
راشٹرپتی بھون کے مچھروں کی اہمیت ایک اور وجہ سے بھی بڑھ گئی ہے۔ آج کل سوچھ بھارت ابھیان چل رہا ہے اور چار پانچ سال کے اندر ہمارے ملک کو دنیا کے انتہائی صاف ستھرے ملک کی حیثیت سے اپنی شناخت بنانی ہے ۔ ابھی دوچار مہینے پہلے ملک کی قدآور شخصیات کے ہاتھوں میں اور بھی قدآور جھاڑوئیں تھیں ۔

اگرچہ کہ آج کل جھاڑو صرف فرّاشوں ، جاروب کشوں کے ہاتھوں میں دکھائی دے رہی ہے لیکن بہرحال صفائی ستھرائی کا شعور ضرور بیدار ہوا ہے ۔ ہم کو یہ جان کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اکثر دیہاتوں میں لوگ رفع حاجت کے لئے منھ اندھیرے آبادی سے دور جاتے ہیں ۔ ہم کو اس سلسلے میں ٹی وی کا ایک اشتہار بہت پسند آتا ہے جس میں فلم اداکارہ ودیّا بالن بڑے دلنشین انداز میں کہتی ہیں ’’اپنے گھر میں بیت الخلاء بنوایئے اور اُسے استعمال کیجئے‘‘ ۔ ہم کو یہ اشتہار پسند تو بہت آیا لیکن یہ بات ذرا عجیب لگتی تھی کیونکہ استعمال کیجئے کا ٹکڑا غیر ضروری سا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جو آدمی بیت الخلاء بنوائے گا وہ استعمال بھی کرے گا ۔ یاد دلانے کی کیا ضرورت ہے ۔ ہمیں بتلایا گیا کہ برسوں کی عادت راتوں رات نہیں جاتی ۔ بہت سے لوگ بیت الخلاء بنوالیتے ہیں لیکن نیند کے غلبے میں علی الصبح لوٹا لیکر گھر سے باہر نکل جاتے ہیں ۔ گاؤں کے باہر جانے کے بعد انھیں یاد آتا ہے کہ بیت الخلاء تو گھر میں موجود تھا ۔ برسوں کی عادت سے مجبور یہ لوگ کھلی ہوا میں نکل آتے ہیں ۔ اس لئے بیت الخلاء بنوایئے اور اسے استعمال کیجئے کا ٹکڑا نہایت ضروری ہے ۔ ہم نے خود ٹرین کے ایک سفر میں عجیب منظر دیکھا ۔ صبح کی اولین ساعتیں تھیں ۔ ٹرین سگنل نہ ملنے کی وجہ سے تھوڑی دیر کے لئے رکی تھی ۔ ہم نے ایک نظر کھڑکی سے باہر دیکھا تو عجیب منظر دیکھا ۔ کئی لوگ اجتماعی طور پر فارغ ہورہے تھے ۔ تب ہمیں بیت الخلاء کی ضرورت کی اہمیت کا اندازہ ہوا ۔ بیت الخلاء کا ذکر نکلا تو ہمیں اپنے ایک دوست کا قصہ یاد آیا ۔ ایک بار وہ سفر میں تھے ۔ انھیں ایک اسٹیشن پر ٹرین بدلنی تھی ۔ وہ دوسری ٹرین کے انتظار میں تھے کہ ان کو اجابت محسوس ہوئی ۔ اسٹیشن پر ٹائلٹس تھے لیکن کسی میں بھی نل نہیں تھا ۔ چار پانچ ٹائلٹس دیکھنے کے بعد انھیں ایک ٹائلٹ میں نل دکھائی دیا اور وہ خوشی خوشی اس میں داخل ہوگئے  ۔ اندر جانے کے بعد انھوں نے دیکھا کہ بیت الخلا کے دروازے کی کنڈی نہیں تھی ۔ پھر بھی وہ بیٹھ گئے ۔ بمشکل دو منٹ گزرے ہوں گے کہ ایک آدمی خاکی یونیفارم میں بکٹ لے کر داخل ہوا اور ان کی موجودگی کے باوجود بکٹ بھر کر نکل گیا ۔ جب یہ سلسلہ بار بار جاری رہا تو انھوں نے التجائیہ انداز میں اس سے کہا ’’بھئی! اس طرف مت دیکھو‘‘  اس آدمی نے لاپروائی سے جواب دیا ’’دیکھنے کی فرصت کسے ہے‘‘ ۔

بات نکلی تھی مچھروں کی اور کہاں پہنچ گئی ۔ بہرحال ہمارے ملک میں صفائی کی لاکھ کوشش کرلیجئے مچھروں ، مکھیوں سے چھٹکارا بہت مشکل ہے ۔ گندگی پھیلتی نہیں پھیلائی جاتی ہے  ۔ دواخانوں میں تک صفائی کا انتظام ٹھیک طریقے سے نہیں ہوتا ۔ گنٹور کے دواخانے میں چوہے کے کاٹنے سے ایک معصوم بچے کی جان گئی ۔ وجہ اس کی یہ بتائی جارہی ہے کہ مریض اور ان کے تیمار دار کھانے پینے کی چیزوں کے پیکٹ لاپروائی سے ادھر ادھر ڈال دیتے ہیں ۔ چوہے ایسی چیزوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ غرض عالی شان مکان ہو یا معمولی آدمی کی کٹیا ، گلی کوچے ہوں یا بڑی بڑی شاہراہیں ، صفائی پر ہر جگہ ضروری ہے ۔

ہمارا خیال ہے کہ صفائی کی مہم صرف جھاڑو دینے یا کچرا صاف کرنے تک محدود نہ رہے ۔ دماغوں کی گندگی بھی صاف ہونی چاہئے ۔ راشٹرپتی بھون سے قریب ہی پارلیمنٹ ہاوز واقع ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پارلیمنٹ کا سیشن تو شروع ہوتا ہے لیکن شور شرابے میں ڈوب جاتا ہے اور کوئی کارروائی ہونے نہیں پاتی ۔ الیکشن کی مہم میں کامیاب امیدوار وہی سمجھا جاتا ہے جس نے اپنے حریف پر زیادہ سے زیادہ کیچڑ اچھالا ہو ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قدرت کو بھی ہم سے ویسی دلچسپی نہیں رہی ۔ برسات کا موسم ہے لیکن بارش کا پتہ نہیں ۔ یوں لگتا ہے جیسے موسم گرما نے اپنا ویزا بڑھالیا ہے ۔ جب انسان سے انسانیت ختم ہوجائے تو اُسے مچھروں  ،چوہوں اور دیگر حشرات الارض کی فکر چھوڑ دینی چاہئے ۔ اپنی فکر کرنی چاہئے  ۔