جانوروںکے نام پر ہندوتوا ایجنڈہ
یوگی کا جنگل راج … عارضی مندر کا دورہ
رشیدالدین
’’ہندوستان میں اب کسی انسان کا خون نہیں بہایا جائے گا اور انسانیت کا خون کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے گی ۔ مرکز کا یہ حکمنامہ تمام ریاستوں کیلئے قابل عمل ہوگا‘‘۔ کیا واقعی مرکزی حکومت نے اس طرح کا کوئی حکم جاری کیا ہے ؟ نہیں ایسا تو کوئی حکمنامہ جاری نہیں ہوا۔ اگر ایسا حکم جاری ہوتا تو بہتر تھا اور موجودہ حالات میں اس کی سخت ضرورت تھی ۔ مرکز نے انسانوں کیلئے نہیں بلکہ جانوروں کے تحفظ کیلئے احکامات جاری کئے ہیں۔ نریندر مودی حکومت کو انسانوں سے زیادہ مویشیوں سے ہمدردی کیوں ؟ کیا انسانوں کے بجائے جانوروں نے بی جے پی کو ووٹ دیا ہے ؟ آخر کیا بات ہوگئی کہ مرکزی حکومت کے نزدیک انسانوں کی جگہ جانوروں نے لے لی ہے۔ اگر یہی رجحان رہا تو پارلیمنٹ میں بھی جانوروں کے داخلہ کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے اور کابینہ میں بھی جانور شامل ہوں گے ۔ جانوروں میں بھی تمام سے حکومت کو محبت نہیں ہے بلکہ صرف گائے اور اس کے قبیلے پر ساری محبت امنڈ آئی ہے۔ کسی مزاح نگارنے کہا کہ یہ فیصلہ دیگر جانوروں کی جانب سے احتجاج کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے ۔ گائے اور اس کے قبیل کے جانوروں سے نریندر مودی حکومت کی ہمدردی کو دیکھتے ہوئے ایک شخص نے اپنی گائے پر یہ تحریر چسپاں کردی ’’ بری نظر والے تیرا منہ کالا‘‘ جانوروں کی افزائش اور بہتر نگہداشت کیلئے ریاستوںاور مرکز میں علحدہ وزارت موجود ہے لیکن مرکز کے فیصلہ کے بعد نئی وزارت ’’گاؤ رکھشا‘‘ قائم کرنی پڑے گی۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ جو شخص کسی چیز سے محروم ہو تو دوسرے میں اس خوبی کا دشمن ہوجاتا ہے ۔ احساس محرومی اسے دشمنی کے راستے پر ڈال دیتی ہے ۔ کچھ یہی حال نریندر مودی حکومت کا ریموٹ کنٹرول رکھنے والے سنگھ پریوار کا دکھائی دے رہا ہے ۔ گائے کے تحفظ کے لئے قانون سازی کی تجویز اور بے قصور افراد کو نشانہ بناتے ہوئے گائے کو مذہبی شناخت دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
کیا سنگھ پریوار اس بات سے انکار کرسکتاہے کہ ان کے ہاں اور بھی دوسرے جانوروں کو بھگوانوں سے نسبت حاصل ہے لیکن ان کے تحفظ میں دلچسپی نہیں۔ مختلف گوشوں سے گائے کو قومی جانور کا درجہ دینے کی مانگ کی جارہی ہے ۔ اگر یہ فیصلہ کرلیا گیا تو پھر بنگال ٹائیگر کا کیا ہوگا ، جو 70 کی دہائی سے قومی جانور کا درجہ رکھتا ہے۔ ایک قومی نیوز چیانل کے مشہور نیوز اینکر نے گائے کو ماتا قرار دینے والوں سے سوال کیا کہ ماں سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا تو پھر اسے جانور کے زمرہ میں کیوں رکھا جائے۔ ’’قومی جانور‘‘ کے بجائے گائے کو ’’قومی ماں‘‘ کا درجہ کیوں نہیں؟ نریندر مودی حکومت کے تین سال کی تکمیل کے موقع پر سنگھ پریوار نے ہندو راشٹرا کی سمت ایک قدم بڑھایا ہے ۔ امیت شاہ اور موہن بھاگوت کی ناگپور میں بند کمرہ کی ملاقات کے بعد جانوروں کے ذبیحہ کو روکنے کے احکامات جاری کئے گئے۔ ایک طرف ملک میں گائے کے تحفظ کے نام پر بے قصور افراد کا خون بہایا جارہا ہے لیکن حکومت کے نزدیک انسان کے خون سے زیادہ جانور کی اہمیت ہے ۔ ظاہر ہے کہ گجرات میں ہزاروں بے گناہوں کا خون دیکھنے والوں کیلئے ایک دو افراد کے خون کی کیا اہمیت ہوگی۔ انسانی زندگی کے اہمیت کا اندازہ ان کو ہوسکتا ہے جن میں انسانیت ہو۔ اقلیتوں کا خون بہانا جن کا محبوب مشغلہ ہو ، ایسی حکومتوں سے قاتلوں کے خلاف کارروائی کی امید کرنا عبث ہے۔ سنگھ پریوار اپنے ایجنڈہ پر عمل آوری میں اس قدر اندھا ہوچکا ہے ، اسے ملک کے نقصان کی پرواہ نہیں۔ اس فیصلہ سے 4 بلین ڈالر بیف اکسپورٹ متاثر ہوگا جو سرکاری خزانہ کا بھاری نقصان ہو۔ مسلم اقلیت کو نشانہ بنانے کے مقصد سے فیصلہ کرنے والے بھول گئے کہ مسلمانوں سے زیادہ دیگر اقوام گوشت کا استعمال کرتے ہیں۔ ملک کی 95 فیصد آبادی نان ویجیٹرین ہے ۔ ملک کی 11 ریاستیں ایسی ہیں جہاں 80 تا 98 فیصد آبادی نان ویجیٹرین ہے ۔ بی جے پی پہلے اپنی ریاست گوا میں بیف پر پابندی عائد کرے۔ شمال مشرقی ریاستوں کے بی جے پی قائدین مرکز کے فیصلہ کے خلاف کھل کر اظہار خیال کر رہے ہیں۔ میگھالیہ کے ایک اہم بی جے پی قائد نے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دیدیا کہ اگر بیف نہیں تو پارٹی نہیں۔ سنگھ پریوار کا ایجنڈہ آخر ملک کو کہاں لے جائے گا۔ ملک کی عدالتیں چونکہ آزاد ہیں، لہذا وہ حکومت کے مخالف عوام فیصلوں کے خلاف احکامات جاری کر رہی ہے۔ چینائی ہائیکورٹ میں جانوروں کی فروخت پر امتناع پر حکم التواء جاری کردیا ۔ کیرالا ، مغربی بنگال اور ٹاملناڈوکی حکومتوں نے مرکز کے فیصلہ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔ ٹاملناڈو کی ڈی ایم کے پارٹی نے جل کٹو طرز پر ایجی ٹیشن کی دھمکی دی ہے جس میں سپریم کورٹ اور مرکزی حکومت دونوں کو عوامی جذبہ کے احترام پر مجبور ہونا پڑا تھا ۔ سنگھ پر یوار کے ایجنڈہ کے خلاف اگر کوئی مزاحمت کررہا ہے تو وہ مغربی بنگال اور کیرالا کی حکومتیں ہیں۔ ان کے علاوہ سیکولر جماعتیں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جدوجہد قابل ستائش ہے۔ جانوروں کے ذبیحہ پر پابندی کی کوشش مرکزی حکومت کی سرکاری عدم رواداری نہیں تو اور کیا ہے ۔ حکومت کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ عوام کے کھانے کا مینو طئے کرے۔ ہر شخص کو اپنی پسند کی غذا کھانے کا اختیار دستور نے دیا ہے ۔ ملک میں ایک وزیر اعظم ایسے بھی گزرے جو خود اپنا قارورہ بطور دوا استعمال کرتے تھے لیکن انہیں کسی نے نہیں روکا۔ ملک میں دلت اور مسلمان فرقہ پرست طاقتوں کے ظلم و ستم کا شکار ہیں لیکن حکومت کو جانوروںکے تحفظ کی فکر ہے۔ عیدالاضحیٰ سے عین قبل مرکز کا یہ فیصلہ شرپسندی کا حصہ ہے تاکہ عید سے قبل ماحول کو کشیدہ بنایا جائے۔ عید الاضحیٰ مسلمانوں کو ہراساں کرنا اور بڑے جانور کے تاجروں پر مظالم اس حکمنامہ کا مقصد ہے ۔ گائے کے تحفظ کے نام پر ملک میں فساد برپا کر کے نریندر مودی چار ممالک کے دورہ پر روانہ ہوگئے ۔ یو پی انتخابات سے قبل بیرونی دورے نہیں ہوئے تھے اور اب اس تفریح سے اترپردیش کی تھکن اتر جائے گی۔ آخر حکومت کو اس طرح کے مسائل کو ہوا دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ کیا حکومت اور پارٹی میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ؟
گزشتہ تین برسوں میں اسلام اور شریعت کے حوالے سے پے در پے حملے ہورہے ہیں لیکن مسلمان جاگنے کیلئے تیار نہیں ۔ اسلام میں حلال کردہ اشیاء کو حکومت حرام کرنا چاہتی ہے لیکن ہر سطح پر سناٹا ہے۔ دیگر سیکولر جماعتوں سے زیادہ آواز بلند کرنے کی ذمہ داری ہماری ہے ۔ سنگھ پریوار ملک کی دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کو ذہنی طور پر کمزور اور خوفزدہ کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ خود کو ہمیشہ کیلئے دوسرے درجہ کا شہری تسلیم کرلیں۔ مزاحمت نہ ہونے کے نتیجہ میں زعفرانی بریگیڈ کے حوصلے بلند ہیں ، اگر اسی طرح کی بے حسی چھائی رہی تو مسلمانوں کا حال اسپین کی طرح ہوگا۔ عوام خود بھی اس قدر باشعور ہیں کہ انہیں مذہبی اور سیاسی قیادتوں کی رہنمائی کیلئے انتظار کی ضرورت نہیں۔ سنگھ پریوار اپنے ایجنڈہ کے ذریعہ آزمانے کی کوشش کر رہا ہے کہ آیا مسلمان کس حد تک باخبر ، چوکس اور جاگ رہے ہیں۔ دوسری طرف اترپردیش میں یوگی راج عملاً جنگل راج میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ یوگی ادتیہ ناتھ نے دو ماہ میں جرائم پر قابو پانے کا دعویٰ کیا تھا لیکن گزشتہ حکومت کے مقابلہ جرائم کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوچکا ہے ۔ یوگی ادتیہ ناتھ کو جرائم پر قابو پانے سے زیادہ مذہبی کھیل میں دلچسپی ہے۔ بابری مسجد شہادت کے مقدمہ میں عدالت میں حاضری کیلئے جب اڈوانی اور دیگر قائدین لکھنو پہنچے تو یوگی نے گیسٹ ہاؤز پہنچ کر اڈوانی سے ملاقات کی ۔ بعد میں انہوں نے ایودھیا میں عارضی مندر کا درشن کرتے ہوئے پوجا کی ۔ کسی متنازعہ مقام پر حکومت کے سربراہ کا جانا غیر قانونی اور غیر دستوری ہے کیونکہ یہ معاملہ عدالت میں زیر دوران ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ جب عارضی مندر جاسکتے ہیں تو کیا مسلمانوں کو بھی اس مقام پر عبادت کی اجازت دی جائے گی اور یہ ان کا بنیادی حق بھی ہے کیونکہ یہاں مسجد موجود تھی ، اسے شہید کردیا گیا ۔ ایک رکنی بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی خاموشی بھی معنی خیز ہے ۔ چیف منسٹر کی ذمہ داری قانون کی حفاظت ہے اور وہی قانون شکن بن جائیں تو کیا ہوگا۔ 2002 ء میں راج ناتھ سنگھ نے چیف منسٹر کی حیثیت سے عارضی مندر کے درشن کئے تھے۔ اس طرح اس مقام کا دورہ کرنے والے یوگی ادتیہ ناتھ دوسرے چیف منسٹر ہیں۔ انہیں سہارنپور دورہ کرنے کی توفیق نہیں ہوئی جہاں دلتوں کا خون بہایا جارہا ہے ۔ یوگی کے چیف منسٹر بننے کے بعد ایک طرف مسلمان تو دوسری طرف دلت نشانہ پر ہیں اور مرکزی حکومت اس صورتحال پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ امن و ضبط کی ابتر صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 15 مارچ تا 15 اپریل ایک ماہ کے دوران اترپردیش میں ڈکیتی کے 20 ، لوٹ مار 273 ، قتل 240 اور عصمت ریزی کے 179 واقعات پیش آئے جبکہ 2016 ء میں اسی مدت کے دوران ان جرائم کی تعداد علی الترتیب 3 ، 67 ، 101 اور 41 تھی۔ سماج وادی پارٹی پر غنڈوں کی سرپرستی کرنے کا الزام لگانے والے یوگی کے 324 ارکان اسمبلی میں 114 مجرمانہ ریکارڈ کے حامل ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی انتخابی مہم میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو اہم موضوع بنایا تھا لیکن آج بگڑتی صورتحال مرکز کو دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔ نریندر مودی نے دلتوں پر مظالم پر افسوس کا اظہار تک نہیں کیا۔ شہود آفاقی نے کیا خوب کہا ہے ؎
راستہ پر خطر راہبر راہزن
حال یہ ہے تو کوئی سفر کیا کرے