رشیدالدین
کشمیر میں گورنر راج… پی ڈی پی ذمہ دار
دہلی میں مودی کیلئے کجریوال اہم چیلنج
جموں و کشمیر میں انتخابات کے باوجود تشکیل حکومت میں ناکامی کے سبب نئی دہلی جیسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جبکہ نئی دہلی میں وسط مدتی انتخابات کا بگل بجنے والا ہے۔ دونوں ریاستوں کے انتخابی نتائج اور سیاسی صورتحال میں یکسانیت ہے۔ کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی اور مخلوط حکومت کی تشکیل کی کوششیں دونوں ریاستوں میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ دہلی میں کانگریس کی تائید سے عام آدمی پارٹی کی حکومت صرف 49 دن میں زوال سے دوچار ہوگئی جس کے بعد صدر راج نافذ کردیا گیا ۔ جموں و کشمیر میں تشکیل حکومت پر سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے کی کمی کے سبب گورنر راج نافذ کردیا گیا ہے۔ دونوں ریاستوں میں بی جے پی کیلئے جو بات مشترک تھی، وہ اس کی مایوسی ہے۔ دہلی میں حکومت کی تشکیل میں ناکامی کے غم سے وہ ابھی ابھر نہیں پائی تھی کہ جموں و کشمیر پر حکمرانی کا خواب بکھر گیا۔
دونوں ریاستوں میں رسوائی اور مایوسی کے بعد اب بی جے پی تازہ انتخابات کے ذریعہ دہلی میں اقتدار پر واپسی کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ ملک پر حکمرانی کرنے والی بی جے پی دارالحکومت دہلی پر اپنا پرچم لہرانے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ جموں و کشمیر اور جھارکھنڈ میں بی جے پی کے مظاہرے کو دیکھتے ہوئے اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ مودی حکومت کے 7 ماہ کے مایوس کن مظاہرہ نے ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کی صورتحال پیدا کردی ہے۔ جموں و کشمیر میں مودی کے وجئے رتھ کی رفتار دھیمی پڑگئی اور جھارکھنڈ میں اسے تشکیل حکومت کیلئے حلیف جماعت کی تائید حاصل کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس اعتبار سے دہلی کے اسمبلی چناؤ کسی چیلنج سے کم نہیں۔ جموں و کشمیر کی شکست کو بی جے پی دہلی میں کامیابی سے تبدیل کرنا چاہے گی تاکہ آئندہ بہار اور اترپردیش کے اسمبلی چناؤ میں کامیابی کا تسلسل جاری رکھا جاسکے۔ جموں و کشمیر میں گورنر راج کے نفاذ کے ذریعہ ریاست کسی طرح بی جے پی کے کنٹرول میں تو آگئی
اور اس کی دیرینہ حسرت پوری ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے کہ گورنر راج کا مطلب مرکز کا راج ہوگا جہاں نریندر مودی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت ہے۔ بی جے پی کی یہ کوشش ہوگی کہ راست طور پر نہ سہی لیکن بالواسطہ طور پر کشمیر پر حکمرانی کریں اور اپنے مقاصد کی تکمیل کریں۔ جب تک صدر راج برقرار رہتا ہے یا پھر جب تک نئی حکومت کی تشکیل کی راہ ہموار نہیں ہوتی، اس وقت تک مرکز کی ہی حکمرانی رہے گی، جو ریاست کیلئے اچھی علامت نہیں ہے۔ بی جے پی نے پی ڈی پی کے ساتھ مل کر کشمیر پر حکمرانی کا خواب دیکھا تھا لیکن یہ خواب ادھورا ہی رہ گیا ۔ تاہم چور دروازہ سے سہی گورنر راج کے سبب ریاست مودی حکومت کے کنٹرول میں آچکی ہے ۔ کشمیر کے دو علاقوں وادی کشمیر اور لداخ میں عوام کی جانب سے مسترد کئے جانے کے باوجود اور دوسری بڑی پارٹی کا موقف رکھتے ہوئے بی جے پی نے تشکیل حکومت کی کوشش کی اور گورنر سے مہلت طلب کی لیکن پی ڈی پی سے اس کی بات چیت کامیاب نہ ہوسکی۔ جموں و کشمیر میں گورنر راج کا نفاذ دراصل جمہوریت اور عوامی رائے کی توہین ہے۔ عوام کا فیصلہ دراصل غیر بی جے پی جماعتوں کی مخلوط حکومت کے حق میں تھا لیکن پی ڈی پی عوامی فیصلہ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس راہ میں رکاوٹ بن گئی اور بی جے پی کے آلہ کار کا رول ادا کیا ۔ جموں و کشمیر میں گورنر راج کا نفاذ دراصل بی جے پی ۔ پی ڈی پی ملی بھگت کا نتیجہ ہے ۔ بظاہر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ بعض حساس نوعیت کے مسائل پر دونوں میں اتفاق رائے نہ ہوسکا۔ دراصل بی جے پی 6 سالہ میعاد کے ابتدائی تین سال اپنا چیف منسٹر چاہتی ہے تاکہ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست پر ہندو چیف منسٹر کا دیرینہ خواب پورا ہوسکے۔ تشکیل حکومت کیلئے پی ڈی پی کا بی جے پی کی طرف جھکاؤ اور مذاکرات اس بات ثبوت ہیں کہ اقتدار کیلئے پی ڈی پی اصولوں سے انحراف اور عوامی جذبات کو کچل سکتی ہے۔
وادی کے رائے دہندوں نے جس امید کے ساتھ پی ڈی پی کو اکثریت عطا کی، ان کے جذبات سے کھلواڑ کا خمیازہ پی ڈی پی اور اس کی قیادت کو بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ پی ڈی پی قیادت نے ایسی پارٹی سے مذاکرات کئے جس نے کشمیر کی تباہی کیلئے ’’باپ بیٹی‘‘ کو ذمہ دار قرار دیا تھا۔ بی جے پی سے بات کرنا پی ڈی پی کی کوئی مجبوری نہیں تھی جبکہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے اقتدار میں شراکت کے بغیر غیر مشروط تائید کی پیشکش کی تھی۔ ان دونوں کو کشمیر میں اقتدار کا وسیع تر تجربہ اور ریاست کی سیاست پر گہری نظر ہے لہذا نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی تائید کے ذریعہ مستحکم حکومت قائم کی جاسکتی تھی۔ ریاست کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام نے اس قدر بھارتی تعداد میں رائے دہی میں حصہ لیا لیکن عوامی فیصلہ کی توہین کرتے ہوئے پی ڈی پی نے حقیر سیاسی مفادات کیلئے ریاست کو بی جے پی کے کنٹرول میں دیدیا۔ اگر پی ڈی پی ۔
بی جے پی حکومت قائم ہوتی تو وادی کی صورتحال کے مزید بگڑ جانے کا اندیشہ تھا۔ حکومت کے ساتھ ساتھ پی ڈی پی قائدین کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکتا تھا ۔ لہذا خود کو بچانے کیلئے بالواسطہ طور پر جموں و کشمیر کو مرکز کے کنٹرول میں دیدیا گیا۔ کشمیر کے عوام جنہوں نے 87 رکنی اسمبلی میں 28 نشستوں کے ساتھ پی ڈی پی کو سب سے بڑی پارٹی کا موقف عطا کیا اور صرف وادی میں 46 کے منجملہ 25 نشستوں پر پی ڈی پی کو کامیابی دلائی ۔ اس کے باوجود بی جے پی کی طرف جھکاؤ اور مذاکرات سے عوام برہم ہیں۔ گورنر راج کی مدت کے دوران پی ڈی پی و دیگر سیکولر جماعتوں کو مل کر حکومت تشکیل دینی چاہئے ، ورنہ آئندہ انتخابات میں پی ڈی پی عوامی غیض و غضب کا شکار ہوسکتی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ پی ڈی پی عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے سیکولر حکومت کی تشکیل عمل میں لائے ۔ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ بی جے پی صدر امیت شاہ ابھی بھی کشمیر میں بی جے پی حکومت کی تشکیل کے بارے میں پر امید ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مسئلہ پر پی ڈی پی سے مذاکرات جاری ہیں۔ بی جے پی کے ساتھ کسی طرح کے مذاکرات اور مشترکہ طور پر حکومت کی تشکیل کو عوام ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ گورنر راج کے نفاذ کے ساتھ ہی فوج جیسے بے لگام ہوجائے گی اور اس کے مظالم میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ سابق میں بھی گورنر راج کے دوران کشمیری عوام کو تلخ تجربات سے گزرنا پڑا تھا ۔ فوج اور سیکوریٹی فورسس کو زائد اختیارات کی کشمیری جماعتیں مخالفت کرتی رہی ہیں۔
جموں و کشمیر پر حکمرانی کے ادھورے خواب کے بعد بی جے پی نئی دہلی اسمبلی انتخابات کا سامنا کرے گی۔ جس طرح کشمیر میں اسے ہزیمت اٹھانی پڑی ، اسی طرح دہلی میں بھی اقتدار اس کے منہ سے نوالہ کی طرح چھن گیا تھا۔ عام آدمی پارٹی میں پھوٹ اور توڑ جوڑ کے ذریعہ حکومت سازی کی کوشش کی گئی لیکن اصول پسند عام آدمی پارٹی کے کارکنوں نے کسی بھی لالچ کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ آخر کار مرکز کو نئے انتخابات کا فیصلہ کرنا پڑا۔ موجودہ حالات میں جبکہ نریندر مودی کی ڈائیلاگ ڈلیوری اور مقبولیت کا جادو اپنا اثر کھونے لگا ہے، ایسے میں نئی دہلی اسمبلی انتخابات ایسڈ کی طرح ہیں۔ دہلی کے تازہ ترین حالات کے مطابق بی جے پی کے لئے گزشتہ کی نشستوں کو بچا لینا بھی آسان نہیں رہے گا۔ کانگریس کی تائید سے عام آدمی پارٹی نے 49 دن کی حکومت میں عوام کے حق میں جو فیصلے کئے، اس سے رائے دہندے مطمئن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی سادگی ، غریب پروری اور کرپشن کے خلاف شکنجے کے سبب اروند کجریوال کی عوامی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔ حالیہ سروے کے مطابق اروند کجریوال دہلی کے عوام میں مودی سے زیادہ پسندیدہ قائد کے طور پر ابھرے ہیں۔ چونکہ اسمبلی چناؤ پر مقامی مسائل چھائے رہتے ہیں لہذا اروند کجریوال کی 49 دن کی حکمرانی آج بھی عوام کی اولین پسند ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کشمیر میں کمزور مظاہرہ اور تشکیل حکومت میں ناکامی کا اثر دہلی کے چناؤ پر ضرور پڑے گا ۔
نریندر مودی حکومت کی 7 ماہ کی حکمرانی میں کوئی ایسا کارنامہ نہیں کہ دہلی کے رائے دہندوں کو راغب کیا جاسکے۔ نریندر مودی نے عوام سے جو وعدے کئے تھے، ان پر عمل آوری محض بیان بازی اور اعلانات تک محدود ہے۔ ایسے میں بی جے پی کن کارناموں کے ساتھ عوام سے رجوع ہوگی؟ 7 ماہ کے دوران جس طرح ملک بھر میں مذہبی منافرت کا زہر گھولنے کی کوشش کی گئی کیا اس بنیاد پر ووٹ کی اپیل کی جائے گی ؟ بی جے پی پر لوک سبھا انتخابات کی جیت کا جنون سوار ہے، اسے عوام سے کئے گئے وعدوں کا کوئی خیال نہیں۔ اسمبلی انتخابات سے عین قبل کانگریس کی سینئر قائد شیلا ڈکشٹ نے یہ کہتے ہوئے بی جے پی کو جھٹکہ دیا کہ ضرورت پڑنے پر کانگریس تشکیل حکومت کیلئے عام آدمی پارٹی کی تائید کرے گی ۔ ظاہر ہے کہ شیلا ڈکشٹ نئی دہلی کی سیاست پر گہری نظر رکھتی ہیں اور انہوں نے کافی سوچ وچار کے بعد ہی یہ بیان دیا ہوگا۔ کانگریس پارٹی نے اگرچہ شیلا ڈکشٹ کے اس بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا لیکن حقیقت یہی ہے کہ گزشتہ اسمبلی چناؤ کے مقابلہ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کے ووٹ بینک میں کمی آئی ہے۔ لہذا نئی دہلی میں اصل مقابلہ عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کے درمیان ہوگا۔ دہلی کے گزشتہ اسمبلی چناؤ میں عام آدمی پارٹی کو 29 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے جبکہ کانگریس کو 24 فیصد ووٹ ملے لیکن لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کے ووٹوں کا فیصد 10 فیصد گھٹ گیا۔ شیلا ڈکشٹ نے شائد اس زمینی حقیقت کی بنیاد پر عام آدمی پارٹی کی تائید کا اشارہ دیا ہے۔ انہوں نے دراصل دہلی میں سیکولر ووٹ کی تقسیم روکنے کی کوشش کی۔ کشمیر میں پی ڈی پی کے موقف پر یہ شعر صادق آتا ہے ؎
راستہ پرخطر راہبر راہزن
حال یہ ہے تو کوئی سفر کیا کرے