ڈاکٹر مجید خان
زندگی کے ہر شعبے میں شفافیت کا دور چل رہا ہے ۔ میں اسکے اثرات موجودہ سیاست کے تناظر میں سمجھنا اور سمجھانا چاہوں گا ۔ ایک نفسیات کے طالب علم ہونے کے ناطے اس کو نفسیاتی نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کروں گا ۔ میں خود جب اس موضوع پر سوچنے لگا تو اس کی بڑھتی ہوئی اہمیت پر حیرت کرنے لگا ۔ ویسے تو لفظ شفافیت بہت عام طور پر استعمال ہورہا ہے مگر کیا ہمارا موجودہ نظام زندگی اس کا متحمل ہوسکتا ہے یا نہیں قابل غور مسئلہ ہے ۔
ہر شام ٹیلیویژن پر ہم لوگ نئے نئے انکشافات دیکھ کر محظوظ ہوا کرتے ہیں ، جو حکومت کے نمائندوں کو پریشان کردیتے ہیں ۔ کسی بھی ادارے یا دفتر یا پھر منسٹروں کے کالے کرتوت منظر عام پر لائے جاتے ہیں اور ان کی خوب دھلائی ہوا کرتی ہے ۔ دیکھئے حال ہی میں سبرتا رائے کا کیا حشر ہوا ۔ چند سال پہلے کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ تہاڑ جیل کی ہوا کھائے گا ۔
ہر پارٹی کے سربراہ اسکے جیب میں تھے ۔ میرے پاس اسکے ایک مقامی عہدے دار اپنی بیوی کے ساتھ آیا کرتے تھے ۔ مذاقاً میں جب ان سے کہتا تھا کہ آپ کا مالک ایک دن جیل کی ہوا کھائے گا تو وہ لوگ ہنستے ہوئے کہتے تھے کہ اگر کوئی اس کو ہاتھ لگائے تو حکومتیں گرجائیں گی ، مگر صرف کیرالا کا ایک دیانتدار عہدیدار خاموشی سے اسکے خلاف مواد جمع کرتا رہا اور اس کو کیفر کردار تک پہنچا ہی دیا ۔ اسکا نام MAbrahams IAS ہے ۔ رازداری سے جو غیر قانونی کاروبار وہ شخص چلارہا تھا اس میں کئی حکومتیں اور بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں حصے دار تھیں ۔ حکومتیں اور سیاسی پارٹیاں جو عوام میں اپنی دیانتداری اور خوبیوں کے دعوے کرتی ہیں انکے بھانڈے پھوٹ رہے ہیں ۔ پرانے زمانے میں شفافیت ممکن نہیں تھی مگر آج ٹکنالوجی اتنی ترقی کرچکی ہے کہ خاموشی سے کالے کرتوت کیمرے میں محفوظ ہوجاتے ہیں ۔ کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ۔ DNA ٹکنالوجی کی وجہ سے ہی بالآخر این ڈی تیواری کو قبول کرنا پڑا کہ جس لڑکے کو وہ اپنی اولاد نہیں کہہ رہے تھے وہ انہی کی اولاد نکلی مگر آئندہ کی سیاست پر اس شفافیت کا کیا اثر ہونے والا ہے ۔ اس پر ذرا غور کیجئے ۔
تمام سیاسی پارٹیوں میں بی جے پی ہی ایک ایسی پارٹی مانی جاتی تھی جو فرقہ پرست ہی سہی مگر اصول پسند اور اپنے قواعد پر پابند رہا کرتی تھی ۔ اس کی جڑیں راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ سے نکلتی ہیں ، جو تقریباً ایک نیم فوجی جماعت سمجھی جاتی ہے ۔ کم از کم آر ایس ایس کے تعلق سے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ راز داری اس کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے ۔ انتہائی خفیہ طور پر ان کے کاروبار چلتے ہیں ۔ یہ انکی سب سے بڑی طاقت اور صفت رہی ہے جو آج تک بھی انکے عزائم اور پوشیدہ ایجنڈوں کو منظر عام پر نہیں لائی۔ یہی حال بی جے پی کا تھا ، جس کی بہترین مثال نریندر مودی ہے ۔ نریندر مودی آر ایس ایس زیادہ اور بی جے پی کم ہیں ۔ اب چونکہ یہ شخص ملک کے وزیراعظم کا دعویدار بن گیا ہے اس لئے ذرائع ابلاغ اس کی زندگی اور طور طریقوں کی تحقیقات میں لگے ہوئے ہیں ۔ آر ایس ایس جھوٹ اور پروپگنڈہ کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی ۔ یہ نازی اور فاشسٹ تنظیموں کا وصف ہے ۔ یہ انتہائی خفیہ تنظیمیں ہیں ۔ چونکہ بی جے پی ایک سیاسی جماعت ہے اس لئے اس کا ہر ممبر آر ایس ایس کے اصولوں کا پابند نہیں ہے ۔ اسی لئے شفافیت ان کے لئے زہر بن رہی ہے ۔ حالیہ ایک واقعہ سے میں اس کی توضیح کرنا چاہوں گا ۔
گذشتہ ہفتے ٹیلیویژن کے ایک شام کے قومی مباحثے میں مدھو کشور جو ایک صحافی ہے اور جو ہمیشہ بی جے پی اور مودی کے گن گایا کرتی ہے اچانک یہ انکشاف کیا کہ سشما سوراج اور ارون جیٹلی یہ نہیں چاہتے کہ مودی وزیراعظم بنے ۔ یہ تو ایک دھماکہ خیز بیان تھا ۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ارون جیٹلی اور نتیش کمار بڑے گہرے دوست ہیں اور اسکے بعد ہی نتیش کمار نے میڈیا سے کہا کہ میں تو وزیراعظم کے عہدہ کے موجودہ دعویدار سے بہتر وزیراعظم بن سکتا ہوں ۔
اب عہدوں کی رازداری کی قسم کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی ۔ انتہا پسند تنظیموں کا ڈسپلن اور نظم و ضبط اب بھی رازداری پر منحصر ہے ۔ آر ایس ایس چونکہ اقتدار و ہندو راشٹر چاہتی ہے اسلئیبی جے پی نے جو عوامی راستہ اختیار کیا ہے اس میں دراڑیں آچکی ہیں ۔ ان تنظیموں کی بقا کیلئے مطلق العنان سربراہ ضروری ہے اور اندرونی جمہوریت جیسا کوئی نظام نہیں ہے جیسا کہ آر ایس ایس کا دستور ہے ۔ یہ ایک عجیب الخلقت وجود ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ بی جے پی آر ایس ایس کے تابع ہے اور آر ایس ایس کی مرضی کے بغیر پتّا بھی نہیں ہل سکتا ۔ مگر بی جے پی نہ صرف اپنے آپ کو سیکولر مانتی ہے بلکہ اندرونی جمہوریت کے دم بھی بھرتی ہے ۔ بظاہر ایسا نظر بھی آتا ہے ۔ جب کبھی اختلافات رونما ہوتے ہیں تو پارٹی کے ڈسپلن کا پول کھل جاتا ہے ۔ آر ایس ایس کی پوشیدہ حکمرانی اور نظریات کی کجی کی بہترین مثال نریندر مودی کی زبردستی نامزدگی ہے ۔ گو کہ یہ ایک زبردست قومی تحریک بن گئی ہے
مگر بی جے پی ہی کے مرکزی اندرونی حلقوں میں اب کھلبلی مچ گئی ہے ۔ یہ لوگ ایک سنگین غلطی کربیٹھے ۔ وقت سے بہت پہلے مودی کے نام کا اعلان کربیٹھے ۔ اعلان کیا کیا اس کو سب کے سر پر مسلط کر بیٹھے اور اپنے سوشیل نٹ ورک اور آر ایس ایس کے کیڈر کی انتھک کوششوں سے اس کو اس مقام تک پہنچاچکے ہیں جہاں سے واپس ہونا ممکن نہیں ہے ۔ ارون جیٹلی ،سشما سوراج اور ان کے پیچھے لال کرشن اڈوانی جو اس دیوانگی کی مہم میں زبردستی کھینچے گئے اب مودی کے خطرناک اور آمرانہ پہلوؤں سے خوفزدہ نظر آرہے ہیں ۔ اگر مودی وزیراعظم بن جائے تو یہ سب لوگ اپنا اپنا سیاسی اور سماجی مقام کھوتے جائیں گے ۔ ان کو مودی کی جی حضوری کرنی پڑے گی اور وہ شخصی رازداری کا نہ صرف ایک مجسمہ ہے بلکہ معمہ بھی جس کی بظاہر ہر حرکت اچھے اچھوں کے لئے ناقابل فہم ہے ۔ رازداری کا سب سے اہم اصول یہ ہیکہ راز آپ ہی کے سینے میں چھپے رہے ۔ پرانی حکومتوں میں خاص طور سے بادشاہوں کے درباروں میں راز افشاء کرنے کے سخت نتائج ہوا کرتے تھے جس میں سزائے موت بھی تھی ۔
اب حالات بدل گئے ہیں ۔ صرف صیغۂ راز ہی میں دوران ملازمت ہی کی حد تک لوگ رازداری کی قسم کے تابع رہتے ہیں ۔ وظیفے پر علحدہ ہونے کے دوسرے ہی دن حکومتوں کے اہم راز افشا کرنا شروع کردیتے ہیں جس طرح سے حال میں ریٹائر ہوئے افسران نے بی جے پی میں شامل ہو کر کیا ہے ۔ رازداری کو شفافیت میں بدل کر یہ لوگ سیاسی طور پر مستفید ہورہے ہیں ۔ رازداری اور شفافیت کا یہ ایک پہلو ہے جس کی وجہ سے حکومتوں کے تختے الٹ رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ خفیہ الکٹرانک آلوں کے استعمال سے مشہور ہستیوں کی خانگی زندگیوں کے عبرتناک پہلوؤں پر بلاجھجک روشنی ڈالی جاتی ہے اور کئی ایسے لوگ جیل کی ہوا کھارہے ہیں ۔اس تناظر میں ذرا آپ ایک بار پھر ہندوستان کے ممکنہ سیاسی مستقبل پر غور کیجئے ۔ فرض کیجئے کہ نریندر مودی ہندوستان کا وزیراعظم بن ہی جاتا ہے تو صورتحال کیا ہوگی ۔ اس کی شخصیت کے کچھ پہلوؤں پر غور کیجئے یا تو دھواں دھار شعلہ بیانی کرتا ہے یا تو اپنی خانگی زندگی میں بہت خاموش رہا کرتا ہے ۔ یہ بڑے ہی خطرناک مزاج کا امتزاج ہے ۔
گجرات کی حکومت پر گذشتہ دس سال سے جو اس کا آہنی شکنجہ رہا ہے اسکی نظیر ہندوستان میں آزادی کے بعد تو نظر نہیں آتی ۔ صرف شمالی کوریا کی موجودہ حکومت ہے جس کا موجودہ ڈکٹیٹر اپنے ہی چچا کو حال ہی میں اپنے ہی حکم سے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ کیا کبھی آپ نے حکومت گجرات کے دوسرے اور کوئی وزراء کے بیانات ٹیلیویژن پر دیکھے ہیں ۔ وہ لوگ سب ربر اسٹامپس ہیں ۔ سارے اہم فیصلے وہ خود ہی لیا کرتا ہے ۔ کیا ایسی تاناشاہی دہلی میں چل سکتی ہے ۔ ان تمام حالات پر غور کرنے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہیکہ 2014 کے انتخابات کے نتائج آنے کے بعد صورتحال اور غیر یقینی ہوجائے گی اور اندرونی خانہ جنگی شروع ہوجائے گی ۔ اب ایک بات تو صاف ہے کہ رازداری جیسا کہ ماضی میں ہوا کرتی تھی وہ اب ممکن نہیں ہے ۔ یہ صرف ایک ڈکٹیٹر ہی کے دور میں ہوسکتی ہے جیسا کہ گجرات میں دیکھا جارہا ہے ۔