راجیو گاندھی کے قاتلوں پر جیہ للیتا مہربان کیوں؟

ظفر آغا
کسی کے قتل و خون پر سیاست کی بساط بچھائی جائے یہ خیال بھی آسانی سے ممکن نہیں ہے ۔ لیکن اس اکیسویں صدی کے مکروہ دور سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے ۔تب ہی تو کسی اور نہیں بلکہ اس ملک کے سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کے خون پر اب 23 برس بعد سیاست ہورہی ہے ۔ قاری واقف ہوں گے راجیو گاندھی کے قاتلوں کو سپریم کورٹ نے کس طرح ابھی حال ہی میں سزائے موت کے باوجود معاف کردیا ۔ ان کی سزائے موت نہ صرف معاف کردی گئی بلکہ تاملناڈو کی وزیراعلی جیہ للیتا نے اس فیصلے کے فوراً بعد یہ بھی اعلان کردیا کہ مرکز جو چاہے کرے وہ تین دنوں کے بعد راجیو گاندھی کے قاتلوں کو رہا کردیں گی ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ جیہ للیتا نے کھل کر اس معاملے کو ایک الیکشن ایشو بنا کر تامل جذبات کو مرکز کے خلاف ہوا دینی شروع کردی تاکہ انکی پارٹی 2014 کے لوک سبھا چناؤ میں تامل جذبات بھڑکا کر زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرسکے ۔

افسوس کہ ہندوستانی سیاست میں اب یہ دن آگئے کہ راجیو گاندھی جیسے قائد کے قاتلوں کو خود ہندوستان میں ہیرو بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔ راجیو گاندھی کوئی معمولی شخصیت کے حامل نہیں تھے ۔ وہ جواہر لال نہرو کے نواسے اور اندرا گاندھی کے بیٹے تھے ۔ پھر راجیو خود پانچ برس تک اس ملک کے وزیراعظم رہے تھے ۔ جواہر لال اور اندرا گاندھی ہندوستانی سیاست کی ایسی دو قدآور شخصیات تھیں ، جن کا آزاد ہندوستان کی سیاست میں ثانی تلاش کرنا ممکن نہیں ہے ۔ جواہر لال اگر آزادی کے بعد ملک کے وزیراعظم نہ بنتے تو غالباً یہ ملک آج سیکولر نہ ہوتا ۔ ملک کے بٹوارے کے بعد ہندو فرقہ پرست لابی یہ چاہتی تھی کہ اس ملک کے مسلمانوں کو سیاسی حقوق نہ ملیں ۔ یہ جواہر لال کا ہی کمال تھا کہ بٹوارے کے بعد بھی انہوں نے ملک میں مسلمانوں کو وہ تمام برابری کے آئینی حقوق دلوائے جو ہندوؤں کو حاصل تھے ۔ پھر جواہر لال نے اردو اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی مرتے دم تک حفاظت کی تھی ۔ جواہر لال جدید ہندوستان کے معمار تھے ۔ یہی حال اندرا گاندھی کا تھا ۔ ملک ہی نہیں بلکہ عالمی سیاست میں اندرا گاندھی کا دبدبہ تھا ۔ فلسطین کے مسئلہ پر اندرا گاندھی نے ہمیشہ کھل کر فلسطینیوں کا ساتھ دیا اورآخر وہ بھی ماری گئیں ۔ اکثر سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اندرا گاندھی کے قتل کے پس پردہ سی آئی اے کا ہاتھ تھا کیونکہ وہ ساری زندگی امریکہ کی مخالفت کرتی رہیں ۔ راجیو گاندھی ایسی قد آور شخصیات کے خاندان سے تھے ۔ راجیو گاندھی نے پانچ برسوں میں ملک میں جو کمپیوٹر اور ٹیلی کام انقلاب بپا کیا اس کے سبب آج ہندوستان دنیا کی ایک اہم معیشت میں شمار کیا جاتا ہے ۔

صرف اتنا ہی نہیں ، راجیو گاندھی کا قتل انتہائی سفاکی سے کیا گیا تھا ۔ آج سے 23 برس قبل لوک سبھا چناؤ کے دوران ایک میٹنگ میں شرکت کرنے سری پرمبدور گئے تھے ۔ اس وقت کانگریس پارٹی اور جیہ للیتا کی پارٹی ساتھ مل کر تاملناڈو میں چناؤ لڑرہی تھیں ۔ اس میٹنگ کو راجیو گاندھی اور جیہ للیتا دونوں مل کر مخاطب کرنے والے تھے لیکن آخر وقت میں جیہ للیتا وہاں نہیں پہونچیں اور راجیو گاندھی کو اکیلے جانا پڑا ۔ راجیو جیسے ہی اس میٹنگ میں پہونچے ویسے ہی ان کو پھولوں کا ہار پہنانے کے بہانے تامل ایل ٹی ٹی ای کے لوگوں نے بم سے اڑادیا ۔ راجیو کا قتل اس سفاکی سے ہوا تھا کہ انکے پرخچے اڑ گئے تھے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وقت وہاں کے ایک اعلی افسر جن کا نام جاوید تھا ، انہوں نے اس میٹنگ کے بارے میں پہلے ہی کہا تھا کہ اس میٹنگ میں راجیو گاندھی کی جان کو خطرہ ہے لیکن ان کی میٹنگ کو سیکورٹی خطرے کے باوجود ٹالا نہیں گیا ۔ اس میٹنگ میں صرف راجیو ہی نہیں بلکہ پولیس افسر جاوید کا بھی قتل ہوا ۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ سیکورٹی الرٹ کے باوجود میٹنگ ہوئی اور اس میٹنگ میں راجیو کا قتل ہوگیا جبکہ جیہ للیتا آخری لمحے میں بہانہ کرکے بچ گئیں ۔ وہی جیہ للیتا اب راجیو گاندھی کے خون پر سیاست کرکے ملک کی وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ رہی ہیں ۔ آخر یہ کیسی سیاست ہے ؟ ۔ اس ملک کے ایک وزیراعظم کے قتل کو بھول کر آج اس کے خون پر سیاست کا برہنہ رقص کیا جارہا ہے ؟ سچ تو یہ ہے کہ اس ملک میں ہندو فرقہ پرست لابی کو نہرو ۔ گاندھی خاندان سے ہمیشہ نفرت رہی ہے ۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ خاندان ہندوستانی سیاست میں نہ صرف سیکولرازم کا علمبردار رہا ہے بلکہ نہرو ۔ گاندھی خاندان ، اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کا بھی سب سے بڑا محافظ ہے ۔ اس کے برخلاف ہندو فرقہ پرست لابی اس ملک کو ہندوتوا سیاسی نظریہ میں باندھ کر ثقافتی سطح پر ملک سے گنگا جمنی سیاست کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے ۔ اس لابی کو نہرو ۔ گاندھی خاندان سے سخت نفرت ہے ۔ جیہ للیتا ان دنوں اس لابی کے بہت قریب ہیں ۔ وہی لابی اس ملک سے نہرو ۔ گاندھی خاندان کا نام و نشان اور ان کی سیاسی وراثت کو اسی طرح ختم کرنا چاہتی ہے ، جیسے 1857 ء کے بعد انگریز مغلوں کا نام و نشان مٹانا چاہتے تھے ۔ جیہ للیتا نے راجیو گاندھی کے قاتلوں کو جس طرح رہا کرنے کی دھمکی دی ہے وہ ایک منظم اور سوچی سمجھی سیاسی سازش ہے ۔ اس کا مقصد محض 2014 ء کے لوک سبھا چناؤ میں سیاسی فائدہ ہی حاصل نہیں کرنا ہے بلکہ اس کا مقصد اس ملک کی سیکولر سیاست اور گنگا جمنی تہذیب کو کمزور کرنا بھی ہے ، کیونکہ اگر آج نہرو ۔ گاندھی خاندان کے قاتلوں کو عزت بخشی جاسکتی ہے تو کل اس ملک سے سیکولرازم اور گنگا جمنی تہذیب کو بھی بے عزت کرنے میں آسانی ہوسکتی ہے ۔ اس لئے اس ملک میں سیکولرازم اور گنگا جمنی تہذیب میں یقین کرنے والی تمام طاقتوں کو 2014ء کے چناؤ میں نہرو ۔ گاندھی خاندان کی وراثت کا تحفظ کرکے ملک کی مفاد پرست ہندو فرقہ پرست سیاست کو ناکام بنانا چاہئے ورنہ 2014 ء کے بعد نہرو ۔ گاندھی خاندان کی سیاسی قدروں کے دشمن ملک پر حاوی ہوجائیں گے ۔