ڈاکٹر مسعود جعفری
فلسفیوں اور حکیموں نے انسان کو حیوان ظریف کہا ہے ۔ زیر لب تبسم اور قہقہوں کی صفت انسانی فطرت میں ودیعت کی گئی ۔ آدمی کو نطق سے نوازا گیا ہے ۔ کوئی جانور متبسم نہیں ہوسکتا ۔ البتہ وہ رو سکتا ہے ۔ سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ادیبوں اور شاعروں نے ظرافت کے بھی شگوفے کھلائے اور ادب کے دامن کو مالا مال کیا ۔ پطرس بخاری ، شوکت تھانوی اور اکبر الہ آبادی نے طنز ومزاح کی پھلجڑیاں بکھیردیں ۔ راجہ مہدی علی خاں نے بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مزاحیہ شاعری میں چار چاند لگادئے ۔ ان کے تخلیقی سفر کا آغاز لاہور سے ہوا ۔ وہ آگے چل کر بمبئی آگئے اور اس وقت روشنی یا limelight میں آئے جب ان کے فلمی نغمے ہند و پاک کی فضاؤں میں گونجنے لگے ۔ فلم ان پڑھ کی غزل ہواؤں میں نور و نکہت گھولنے لگی ۔
آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے
دل کی اے دھڑکن ٹھہر جا مل گئی منزل مجھے
یہ اور اس طرح کے اور شعروں نے راجہ مہدی علی خاں کو ہزاروں ، لاکھوں لوگوں کا محبوب شاعر بنادیا ۔ اس کی مزاحیہ شاعری چیز دیگر ہے ۔ ان کی زبان جہاں سادہ سلیس ہے وہیں ان کے تخیلات روز و شب ہونے والے واقعات کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ ان کی تضمین غضب کی ہوتی ہے ۔ مرزا غالب کی غزلوں پر ان کی تضمین ملاحظہ کیجئے۔
سب کہاں کچھ فلم میں جا کر نمایاں ہوگئیں
صورتیں کیا کیا یہاں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
دیکھی ہے ساری دنیا ان کی بزم آرائیاں
ہم بچاری بیٹھی بیٹھی طاق نسیاں ہوگئیں
راجہ مہدی علی خاں نے تہذیب و شائستگی کو مجروح ہونے نہیں دیا ۔ ان کے ہاں ابتذال نہیں ہے۔ ان کی شاعری میں اکبر الہ آبادی کی روایتوں کا تسلسل ملتا ہے ۔ فکر و فن کی شگفتگی پائی جاتی ہے ۔ ان کے اشعار زیر لب تبسم کی منہ بولتی مثال ہیں۔جمالیاتی حسن بھی سحر انگیز ہے ۔ مسکراہٹوں کے ستارے غزلیات میں سموئے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے آحری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی مشہور زمانہ غزل پر تضمین کی ہے ۔
لگتا نہیں ہے جی میرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
اس میں راجہ کی تضمین دیکھئے
بکتا نہیں ہے گھی مرا اجڑے دیار میں
بھوکا مروں گا عالم ناپائیدار میں
لاہور سے چرا کے میں لایا تھا چار ٹن
دو بمبئی میں بک گئے دو مالابار میں
میں شاعری کو چھوڑ کے بیچوں گا ڈالڈا
گھر گھر پھروں گا بیٹھ کے خوشتر کی کار میں
رکشے میں کھٹ سے بیٹھ کے چلدی وہ مہ لقا
عاشق کھڑے ہی رہ گئے لمبی قطار میں
ہوں وہ گنہ گار کے منکر نکیر نے
پیٹا ہے مجھ کو گھس کے ہی میرے مزار میں
راجہ مہدی علی خاں کی ایک اور نظم ڈاکو ابن ڈاکو ابن ڈاکو کو طنز و مزاح کی چاشنی لئے ہوئے ہے ۔ اس کے کچھ شعر درج کئے جاتے ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے بے ساختہ ہنسی کا فوارہ چھوٹ جاتا ہے ۔ اس میں نادر و نایاب نکات بیان کئے گئے ہیں ۔
مرے ماموں کے جعلی نوٹ امریکہ میں چلتے تھے
ہزاروں چور ڈاکو ان کی نگرانی میں پلتے تھے
مرے خالو کہیں نیویارک میں جیبیں کترتے تھے
لب ساحل وہ چودہ عورتوں سے عشق کرتے تھے
چچا میرے بہت مشہور تھے فن رذالت میں
مقدمہ ہار کے لنگے وہ ناچے تھے عدالت میں
راجہ مہدی علی خاں نے مثنوی قہر البیان بھی لکھی ہے ۔ یہ مختلف ابواب پر مشتمل ہے ۔ ہر باب دلچسپ اور دیوار قہقہہ ہے ۔ اسے پڑھتے ہوئے ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑجاتے ہیں ۔ اسی طرح ان کی ایک غزل مطلب نکل جانے کے بعد بھی قاری کو لوٹ پوٹ کردیتی ہے ۔ اس کے دو تین شعروں سے لطف اندوز ہویئے ۔
کبھی آنکھیں پھیر لیں مطلب نکل جانے کے بعد
بات ہی کرتے نہیں ہیں ریوڑیاں کھانے کے بعد
اچھی امی اک دو ہنڑ اس طرف اک اس طرف
مار بھی کھائیں گے ہم تو چاکلیٹ کھانے کے بعد
دل میرا جاپاں نہیں تو بم نصیحت کے نہ پھینک
مت لڑائی کر لڑائی ختم ہوجانے کے بعد
ممتاز شاعر ، مصنف اور نقاد وزیر آغا نے راجہ مہدی علی خاں کے بارے میں بڑی خاص بات کہی ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر مقدر کی لکھی ہوئی کتاب کی اشاعت کے بعد اردو دنیا راجہ مہدی علی خاں کے مزاح کی شعاؤں میں پوری طرح بھیگ جائے گی ۔ انہوں نے اپنی کتاب شام دوستاں آباد میں راجہ پر ایک مضمون بھی شامل کیا ۔ ان کی شاعری کا انتخاب آخری نظمیں بھی مرتب کی گئیں ۔ راجہ پر ایک مضمون تیسری آنکھ کا شاعر بھی تحریر کیا ۔ راجہ مہدی علی خاں نے فلموں کے لئے کم و بیش تین سو گانے لکھے ۔ وہ نغمے بہت چلے اور دوامی شہرت حاصل کی ۔ آج بھی وہ سنائی دیتے ہیں تو سماعتوں میں شہد گھولتے ہیں ۔ دل شاد و آباد ہوجاتا ہے ۔ وجدان جھومنے لگتا ہے ۔ روح رقص کرنے لگتی ہے ۔ راجہ مہدی علی خاں ایک بھولا ہوا شاعر بن گیا ہے ۔ اس کی شخصیت فن اور فکر پر سمینار ہونے چاہئے ۔ اس کی سنجیدہ و مزاحیہ شاعری پر مقالے لکھے جائیں ۔ ان کے ادبی کارناموں کو واشگاف کیا جائے ۔ اردو نے ان پر اور انہوں نے اردو پر جو احسانات کئے ہیں انہیں نئی نسل کے سامنے پیش کیا جائے ۔ راجہ مہدی علی خاں کی علمی وفلمی شاعری کو آب زر سے لکھا جائے ۔ انہوں نے اس زمانے میں پردہ سیمیں پر اتنی خوبصورت غزلیں پیش کیں جب ہر طرف شکیل ، ساحر ،مجروح ، حسرت جئے پوری اور ایچ ایس بہاری کے نام و کام کا ڈنکا بج رہا تھا ۔راجہ مہدی علی خاں نے اپنے مدھر اور سریلے گیتوں سے دل و ذہن پر وجد طاری کردیا ۔ ہر نکڑ اور ہر چوراہے پر ان کے لکھے ہوئے معصوم و گلفام گانے بجنے لگے ۔ ان کے ایک ایک مصرعے پر لوگ بے خودی کے عالم میں سردھننے لگے ۔ ان یہ شعر تو دلوں پرنقش ہوگیا تھا ۔
جو ہم نے داستاں اپنی سنائی آپ کیوں روئے
تباہی تو ہمارے دل پہ آئی آپ کیوں روئے
درد و کرب میں ڈوبا ہوا یہ شعر روح کے آرپار ہوجاتا ہے ۔ سوز و گداز سے معمور غزلوں نے راجہ مہدی علی خاں کو ہند و پاک کا صف اول کا شاعر بنادیا ۔ ان کی مقبولیت کے چراغ جلتے چلے گئے ۔ انہوں نے اردو غزل کو ایک نیا آہنگ ، نیا ڈکشن اور نیا حسن و جمال عطا کیا ۔ خیالات کی پاکیزگی ، تصورات کی نیرنگی اور اظہار کی اثر انگیزی نے غزل کو ایک نئی بلندی سے ہمکنار کیا ۔ راجہ مہدی علی خاں کا نام تاریخ ادب میں درخشاں رہے گا ۔ راجہ کے فلمی مکھڑوں میں مٹھاس اور شیرینی پائی جاتی ہے ۔ وہ فلمی بھی ہیں اور علمی بھی ۔ معیار کہیں بھی گرنے نہیں پاتا ۔ ان کی ادبی اہمیت کم نہیں ہوتی ۔ ان میں نغمگی اور رس رنگ ہے ۔ انہوںنے غزل کو ایک نئی آب وتاب عطا کی ۔ وہ غالب کے اس شعر کے ہمنوا معلوم ہوتے ہیں ۔
جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں نہ ہو رشک فارسی
گفتہ غالب ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ یوں
راجہ کی سنجیدہ و ظریفانہ تخلیقات لاریب رشک فارسی ہوچکی ہیں ۔ راجہ مہدی علی خاں کا دورنگی کلام ادب کی ترازو کے دو پلڑوں میں رکھا جاسکتا ہے ۔ دونوں ہم وزن ہوں گے ۔ ان کی شخصیت کے دو روپ تھے متانت و ظرافت کے حسین امتزاج کا نام راجہ مہدی علی خاں تھا ۔ یہ دو خصوصیات بڑی مشکل سے یکجا ہوتی ہیں ۔ ان کی ایک ہستی میں تجسیم کرشمہ ہوجاتی ہے ۔ راجہ صاحب بھی ایک یگانہ روزگار اور کرشماتی شخصیت کے حامل تھے ۔ انہوں نے غزل کی صنف سخن پر کامل انصاف کیا ۔ انہیں زبان و بیان پر اچھی قدرت تھی ۔ وہ عجز بیان کا شکار نہیں ہوئے۔ انہوں نے نثری غزل یا آزاد نظم کا سہارا نہیں لیا ۔ غزل کی جمالیات کو برقرار رکھا ۔ نظم کے تقاضوں کو بہ حسن و خوبی نبھایا۔ دونوں اصناف کی لاج رکھی ۔ روایت کی زلفیں نکھاریں اور بغاوت کو دور رکھا ۔ میر وغالب کی وراثت کو آگے بڑھایا ۔ فنی رموز و نکات کا پاس و لحاظ رکھا ۔ کہیں بھی بھولے سے بھی غزل کی نزاکت و رعنائی و برنائی کو مجروح ہونے نہیں دیا ۔ ترسیل و ابلاغ کا بحران پیدا ہونے نہیں دیا ۔ شعری صنعتوں سے شعریات کو بوجھل ہونے نہیں دیا ۔ جو کچھ کہا وہ براہ راست قاری کے دل میں اتر جاتا ہے ۔ شاعر و قاری کے تال میل کی بہترین مثال راجہ مہدی علی خاں کی شاعری ہے ۔ اسی وصف سے ان کی عوامی مقبولیت مسلمہ رہی ۔ آج بھی برصغیر کی فضاؤں میں ان کی غزلیں لتا کی کوئل جیسی آواز میں گونجتے ہیں تو ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور روح وجد کرنے لگتی ہے ۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے کا محاورہ راجہ کی شاعری پر صادق آتا ہے ۔