راجا وینکٹ راما ریڈی ریاست حیدرآباد کے کوتوال بلدہ عمدہ کارگزاری کا اعتراف

آرکائیوز کے ریکارڈ سے       ڈاکٹر سید داؤد اشرف
راجا بہادر وینکٹ راما ریڈی کوتوال، بلدہ ، ریاست حیدرآباد کے ان گنے چنے عہدیداروں میں سے ایک تھے جن کی ملازمت میں عمدہ کارگزاری کی وجہ سے ریاست حیدرآباد کے آخری حکمران نواب میر عثمان علی خان آصف سابع نے طویل مدت کے لئے توسیع دی تھی ۔ وینکٹ راما ریڈی مستعد ، فرض شناس اور ڈسپلن کے پابند تھے ۔ انہیں اچھے اور کامیاب ایڈمنسٹریٹر کے طور پر نیز نمایاں سماجی و فلاحی خدمات کی انجام دہی کی وجہ سے بھی یاد رکھا جائے گا ۔
وینکٹ راما ریڈی 16 اردی بہشت 1279 ف م 27 مارچ 1870 ء کو دیہات راین پیٹھ ، سمستان ونپرتی ، ضلع محبوب نگر میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم کی تکمیل پر انہوں نے امین (سب انسپکٹر) کی خدمت سے سرکاری ملازمت کا آغاز کیا ۔ انہوں نے محکمہ جات پولیس ، مال اور عدلیہ کے امتحانات امتیاز سے کامیاب کئے اور سخت محنت و اچھی کارکردگی کے باعث اعلی عہدوں پر ترقیاں پائیں ۔ عماد جنگ ثانی کوتوال بلدہ (سرنظامت بہادر کے چچازاد بھائی) کی سفارش پر وینکٹ راما ریڈی ان کے اول مددگار مقرر کئے گئے ۔ جب عماد جنگ کا انتقال ہوا تو آصف سابع نے اس اہم منصب پر ان کا انتخاب کیا اور وہ 19 اردی بہشت1329ف م 23 مارچ 1920 ء کو رجوع بہ خدمت ہوئے ۔ وہ اس عہدے پر زائد از 14 برس کارگزار رہے ۔ وینکٹ راما ریڈی کو 55 سال کی عمر کی تکمیل پر ملازمت سے سبکدوش نہیں کیا گیا ۔ آصف سابع نے انہیں کوتوال بلدہ کی حیثیت سے 9 سال 3 ماہ کی توسیع دی ۔ ان کے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہونے پر آصف سابع نے انہیں صرف خاص میں اسپیشل آفیسر مقرر کیا ۔

وینکٹ راما ریڈی نے عہدیداروں میں سے ایک تھے جن پر آصف سابع کو مکمل اعتماد تھا ۔ آصف سابع نے متعدد بار ان کی اچھی کارگزاری پر خوشنودی کا اظہار کیا ۔ ان کی اہم ترین خدمات کے اعتراف میں آصف سابع نے اپنی سالگرہ رجب 1348 کے موقع پر انہیں راجا بہادر کا خطاب دیا ۔ انہیں حکومت برطانوی ہند کی جانب سے بھی او بی ای (آڈر آف برٹش ایمپائر) کا خطاب ملا ۔ شہر میں امن و ضبط کے اچھے انتظامات کی وجہ سے حکمران اور عوام راجا بہادر سے خوش تھے ۔ ان کے کام کرنے کے انداز کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ تنازعات کے خواہ وہ حکومت اور عوام کے مابین ہوں یا عوام کے آپسی تنازعات ہوں ، قانونی کارروائیوں کی بجائے افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنا چاہتے تھے ۔
جہاں تک امن و ضبط کی برقراری اور قانون کی حکمرانی کا تعلق ہے اس زمانے میں ریاست حیدرآباد میں وزیراعظم (صدراعظم) کے بعد سب سے زیادہ اختیارات کوتوال بلدہ کو حاصل تھے ۔ اس عہدے کا تعلق انسپکٹر جنرل پولیس یا کسی وزیر (صدر المہام) سے نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کا تعلق راست حکمران سے ہوتا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ وینکٹ راما ریڈی کو کوتوال بلدہ کی حیثیت سے ہر روز آصف سابع کو تفصیلی رپورٹ پیش کرنی پڑتی تھی ۔ ان کی کوتوالی کے دور میں شہر میں خفیہ پولیس کا انتظام (جاسوسی نظام) بہت موثر اور کارکرد تھا ۔ جوش ملیح آبادی دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ میں ملازمت کے سلسلے میں 1924ء تا 1934ء حیدرآباد میں مقیم تھے ۔ انہوںنے اپنی خود نوشت ’’یادوں کی برات‘‘ میں حیدرآباد سے اخراج کے تحت لکھا ہے کہ حیدرآباد میں جاسوسی نظام بڑا سخت تھا ۔ حیدرآباد میں جوش کے قیام کی دس سالہ مدت کے دوران وینکٹ راما ریڈی ہی کوتوال بلدہ تھے ۔

پرنس آف ویلز ، لارڈ ہارڈنگ ، لارڈ ریڈنگ اور لارڈ ارون کے دورہ حیدرآباد کے موقع پر راجا بہادر سیکورٹی انتظامات کے انچارج تھے ۔ ان کے انتظامات کی بڑی ستائش ہوئی اور بیرونی مہمانوں نے ان کے انتظامات سے خوش ہو کر انہیں قیمتی تحائف دئے ۔ ان میں ہمدردی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا ۔ جب شہر میں انفلوائنزا اور طاعون کی وبا پھیلی تھی تو انہوں نے نہ صرف مریضوں کے علاج کے لئے اپنی جیب سے پیسہ خرچ کیا بلکہ جان کو خطرہ میں ڈال کر تیمار داری بھی کی جس کی وجہ سے عوام کے دلوں میں ان کے لئے احترام اور محبت کا جذبہ پیدا ہوا ۔ انہوں نے اپنی کمیونٹی کی فلاح و تعلیمی ترقی کے لئے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں ۔ انھوں نے اس راہ میں سارا مال و متاع خرچ کرڈالا ۔ ذاتی مفاد پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دینے کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ زندگی کے آخری دنوں میں ان کے پاس علاج کے لئے اور انتقال پر آخری رسومات کی انجام دہی کے لئے پیشہ نہیں تھا ۔
آصف سابع نے ابتداء میں ایک سے زیادہ بار وینکٹ راما ریڈی کی ملازمت میں توسیع منظور کی ۔ اس بارے میں انہوں نے ایک موقع پر اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ بار بار ان کی ملازمت میں توسیع دینے سے دوسروں کے حقوق پر اثر پڑرہا ہے لہذا توسیع شدہ مدت کے ختم پر انہیں سبکدوش ہونا پڑے گا لیکن وہ اپنے اس فیصلے پر قائم نہیں رہے ۔ تنظیم جدید کوتوال بلدہ کی اسکیم کو کامیابی کے ساتھ نافذ کرنے کی ضرورت تھی ۔ دوبار وائسرائے ہند ، شہر حیدرآباد کا دورہ کرنے والے تھے  ۔ان موقعوں پر عمدہ سیکورٹی انتظامات درکار تھے ۔ نیز ملک میں انتشار اور گڑبڑ کا دور دورہ تھا جس کے اثرات ریاست حیدرآباد پر بھی پڑرہے تھے ۔ اس موقع پر شہر میں امن و امان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی برقراری کو یقینی بنانا تھا ۔ ان حالات میں آصف سابع ، وینکٹ راما ریڈی جیسے نہایت کارکرد اور وسیع تجربہ رکھنے والے عہدیدار کو ملازمت میں برقرار رکھنا ضروری سمجھتے تھے ۔ چنانچہ آصف سابع نے ان حالات کا خیال کرتے ہوئے اپنی تحریری رائے  کے برخلاف راجا بہادر کی مدت ملازمت میں توسیع کا سلسلہ جاری رکھا ۔

آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز کی ایک مسل سے اخذ کردہ مواد کی بنیاد پر ذیل میں راجا وینکٹ راما ریڈی کی ملازمت میں توسیع کی سرکاری کارروائی کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے جس سے اس بارے میں تفصیلات کا علم ہوتا ہے ۔
راجا بہادر وینکٹ راما ریڈی 27 مارچ 1925 ء کو پچپن سال کے ہوچکے تھے لیکن انہیں سبکدوش کرنے کی بجائے ان کی ملازمت میں توسیع دی گئی ۔ راجا بہادر توسیع شدہ مدت کے ختم ہونے پر اپریل 1928ء میں وظیفے پر سبکدوش ہونے والے تھے کہ صدرالمہام (وزیر)  پولیس (کرنل ٹرنچ) نے فبروری 1928ء میں ان کی ملازمت میں ایک سالہ توسیع کی سفارش کی تحریک کی ۔ انہوں نے یہ سفارش اس وجہ سے کی تھی کہ اس وقت کوتوال بلدہ کی تنظیم جدید کی جو اسکیم زیر غور تھی راجا بہادر ہی اس کے لئے موزوں تھے ۔ ان کی اس تحریک کی باب حکومت (کابینہ) نے تائید کی ۔ باب حکومت کی جانب سے اس بارے میں ایک عرضداشت آصف سابع کی خدمت میں روانہ کی گئی جس پر آصف سابع نے فرمان مورخہ 7 رمضان 1346ھ م 29 فبروری 1928ء کے ذریعہ ان کی ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع منظور کی ۔ اس فرمان میں یہ بھی کہا گیا کہ ان کی ملازمت میں بار بار توسیع دینے سے دوسروں کے حقوق پر اثر پڑتا ہے اس لئے اس توسیع کی مدت ختم ہونے پر انہیں اپنی خدمت سے سبکدوش ہونا پڑے گا ۔
چونکہ صدر المہام کوتوال رخصت پر جانے والے تھے اور ان کی واپسی سے قبل راجا بہادر کی توسیع شدہ مدت ختم ہونے والی تھی اس لئے اس سے قبل ان کے جانشین کے تقرر کا مسئلہ طے پاجانا مناسب تھا ۔ چنانچہ اس سلسلے میں باب حکومت کی جانب سے ایک عرضداشت آصف سابع کی خدمت میں روانہ کی گئی جس پر آصف سابع نے بذریعہ فرمان مورخہ 15 ذی قعدہ 1346ھ م 6 مئی 1928ء یہ حکم جاری کیا کہ صدر المہام کوتوالی کے رخصت سے واپس ہونے تک وینکٹ راما ریڈی کوتوال بلدہ کا کام کرتے رہیں ۔ صدر المہام کوتوالی کی رخصت سے واپسی کے بعد باب حکومت نے یہ قرارداد منظور کی کہ راجا بہادر کے جانشین کے طور پر سکنڈ حیدرآباد امپیریل سرویس لانسرز کے کرنل عظمت اللہ نہایت موزوں شخص ہیں لیکن اس بارے میں آصف سابع کی خدمت میں عرضداشت روانہ کرنے سے قبل ہی انکا فرمان مورخہ 15 جمادی الثانی 1347 ء م 28 نومبر 1928ء جاری ہوا کہ وہ راجا بہادر کی جانشینی کے مسئلہ پر غور کررہے ہیں ، اس بارے میں تصفیہ ہونے تک وہی حسب حال کام کرتے رہیں ۔ بعد ازاں جب باب حکومت نے راجا بہادر کی جگہ کرنل عظمت اللہ کے تقرر کی منظوری کے لئے عرضداشت پیش کی تو آصف سابع نے کرنل عظمت اللہ کے تقرر کی منظوری دینے کی بجائے فرمان مورخہ 7 رمضان 1347 ھ م 18 فبروری 1929ء کے ذریعے راجا بہادر کی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع منظور کی ۔ یہ توسیع تنظیم جدید کوتوالی بلدہ کی اسکیم کو کامیابی کے ساتھ نافذ کرنے کی ضرورت نیز وائسرائے ہند لارڈ ارون کے دورۂ حیدرآباد کے پیش نظر دی گئی تھی ۔ راجا بہادر کی ملازمت میں فبروری 1930 ء تک توسیع مل چکی تھی ۔ اس دوران کرنل عظمت اللہ کا انتقال ہوگیا ۔ اس لئے باب حکومت نے اس مسئلہ پر غور کیا کہ راجا بہادر کی سبکدوشی کے بعد ان جانشین کون ہوگا ۔ باب حکومت نے مارچ 1930ء میں آصف سابع کی خدمت میں ایک عرضداشت پیش کی جس میں کہا گیا کہ کوئی موزوں مقامی عہدیدار دستیاب نہیں ہے اور بیرون ریاست سے کسی شخص  کی خدمات حاصل کرنا مناسب نہ ہوگا  ، اس لئے آصف سابع اس مسئلے سے متعلق پالیسی کے بارے میں احکام صادر کریں ۔ آصف سابع نے اس مسئلے کو اس طرح حل کیا کہ فرمان مورخہ 10 شوال 1348ھ م 12مارچ 1930ء کے ذریعے راجا بہادر کی مدت ملازمت میں دو سال کی توسیع مرحمت کی جس کی رو سے انہیں فبروری 1932ء تک توسیع ملی ۔ راجہ بہادر کی اس دو سالہ توسیع کے ختم ہونے سے تقریباً  آٹھ ماہ قبل باب حکومت نے یہ عرضداشت پیش کی کہ رحمت اللہ پولیس کی ٹریننگ حاصل کریں تاکہ وہ راجا بہادر کے وظیفے پر سبکدوش ہونے پر ان کے جانشین ہوں ۔ آصف سابع نے فرمان مورخہ 25 صفر 1350ھ م 12 جولائی 1931ء کے ذریعے عرضداشت کو منظوری دی ۔ اس فرمان میں یہ کہا گیا کہ راجہ بہادر کی توسیع ختم ہونے پر رحمت اللہ کے تقرر سے متعلق غور کیا جائے گا ۔

باب حکومت نے عرضداشت مورخہ 5 رمضان 1350ھ م 14 جنوری 1932ء کے ذریعے رحمت اللہ کے بارے میں اپنی سابقہ سفارش کا حوالہ دیتے ہوئے اس کا اعادہ کیا ۔ اس پر آصف سابع نے فرمان مورخہ 7 رمضان 1350ھ م 16جنوری 1932ء کے ذریعہ اس بنیاد پر کہ ہندوستان میں چاروں طرف خلفشار مچا ہوا ہے جس کا اثر ہندوستانی ریاستوں پر پڑرہا ہے اور عنقریب رزیڈنسی علاقہ بھی ریاست کے علاقے میں آنے والا ہے ۔ راجا بہادر کی ملازمت میں ختم دسمبر 1932ء تک توسیع منظور کی ۔ اس کے علاوہ رحمت اللہ کو شریک کوتوال کی حیثیت سے کام کرنے کی اجازت دی گئی ۔ اس توسیع شدہ مدت کے ختم ہونے سے قبل ہی آصف سابع نے فرمان مورخہ 14 جمادی الثانی 1351ھ م 15 اکتوبر 1932ء کے ذریعے راجا بہادر کی ملازمت میں مزید ایک سال کی توسیع عطا کی ۔ اس وقت چاروں طرف انتشار کا دور دورہ تھا اور موسم سرما میں وائسرائے ہند کا دورۂ حیدرآباد طے تھا اسی لئے راجا وینکٹ راما ریڈی کی سبکدوشی نامناسب سمجھی گئی ۔ اسی فرمان میں یہ بھی کہا گیا کہ راجا بہادر دسمبر 1933 تک خدمت سے ہٹ نہیں سکتے البتہ اس کے بعد اس مسئلہ پر پھر غور کیا جائے گا ۔
بعد ازاں آصف سابع نے فرمان مورخہ 20 جمادی الاول 1352م 11 دسمبر 1933ء کے ذریعے احکام جاری کئے کہ وائسرائے کے دورے کے بعد راجا بہادر اپنی خدمت کوتوال بلدہ سے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوجائیں گے ۔ راجا بہادر کے سبکدوش ہونے سے ایک ہفتہ قبل باب حکومت نے ایک عرضداشت بطور اطلاع آصف سابع کی خدمت میں پیش کی جس میں کہا گیا کہ آصف سابع کے احکام کی تعمیل میں نواب رحمت یار جنگ (رحمت اللہ) راجا بہادر سے جائزہ حاصل کریں گے ۔ اس عرضداشت پر آصف سابع کا جو فرمان مورخہ 12 رمضان 1352ھ م 30 دسمبر 1933ء جاری ہوا اس کا متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے ۔ ’’گوان کو اواخر دسمبر میں توسیع ختم کرکے جنوری میں ریٹائرڈ ہونا تھا تاہم بعض امور کے مدنظر میں مناسب سمجھتا ہوں کہ چھ ماہ مزید توسیع دی جائے جو جون 1934ء میں ختم ہوگی  ۔ اس کے بعد ان کے جانشین کے تقرر سے متعلق فرمان جاری ہوگا‘‘ ۔
بالآخر آصف سابع کے فرمان مورخہ 5 ربیع الاول 1353ھ م 18 جون 1934ء کے ذریعے راجا بہادر وینکٹ راما ریڈی یکم جولائی 1934ء کو کوتوال کے عہدے سے سبکدوش ہوئے اور رحمت یار جنگ نے ان سے خدمت کوتوالی کا جائزہ حاصل کیا ۔

راجا بہادر کی خدمات کو آصف سابع بڑی پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے ۔ اس کا اظہار اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ آصف سابع نے ان کی ملازمت میں طویل مدت تک توسیع دینے کے علاوہ وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہونے پر انہیں صرفخاص (ریاست کا وہ علاقہ جو حکمران کی ذاتی ملکیت تھا) میں اسپیشل آفیسر مقرر کیا تھا ۔ اس ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد راجا بہادر کی ساری توجہ سماجی اور فلاحی خدمات پر مرکوز رہیں ۔
ریاست حیدرآباد کی اس نامور شخصیت کا 83 برس کی عمر میں انتقال ہوا جسے بہت سی خوبیوں کے باعث مدتوں یاد رکھا جائے گا ۔ رہنمائے دکن مورخہ 4 مئی 1953ء کے مطابق وینکٹ راما ریڈی کا انتقال 3 مئی 1953ء کو ہوا ۔ جلوس جنازہ میں چیف منسٹر ، وزراء و ممتاز سرکاری اور غیر سرکاری افراد کی کثیر تعداد شریک تھی  ۔آصف سابع نے راجا بہادر کے انتقال پر تعزیتی پیام روانہ کیا ۔
ایم وانی نے عثمانیہ یونیورسٹی سے وینکٹ راما ریڈی پر ایم فل کیا ہے ۔ وہ اپنے مقالے (Raja Bahadur Venkat Rama Reddy- A Study) میں لکھتے ہیں کہ وینکٹ راما ریڈی نے اپنے ذاتی فائدے کے لئے بھی سرکاری عہدے کا استعمال نہیں کیا ۔ انہوں نے اپنی ذات کے لئے کچھ نہیں رکھا ۔ جب وہ بیمار پڑے تو علاج کے لئے ان کے پاس پیسہ نہیں تھا ۔ انہوں نے اپنی تمام جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنادیا تھا جس کی آمدنی ان اداروں کو ملتی تھی جن کی انہوں نے زندگی بھر دیکھ بھال کی تھی اور جنہیں انہوں نے پروان چڑھایا تھا ۔جب ان کا انتقال ہوا تو آخری رسومات کی انجام دہی کے لئے فنڈ اکٹھا کرنے پڑے ۔