تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ عوام کو اب نگرانکار چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی فراست پر اعتبار ہے یا نہیں یہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں بتادیا جائے گا ۔ ٹی آر ایس سربراہ اور ان کے رفقاء نے کانگریس کو نادانی سے ایک مشت غبار سمجھا ہے تو ریاست کا سیاسی منظر نامہ سرعت کے ساتھ بدلتا دکھائی دے گا ۔ تلنگانہ پر حکومت کرنے کا شوق اور مزاج سیاسی روزگار نے کے سی آر کو 9 ماہ قبل ہی اسمبلی تحلیل کرنے کی ترغیب دی ہے ۔ اقتدار کا نشہ واقعی لیڈر کو بدمست کردیتا ہے اور وہ ایک سیاسی ابلیس بن کر اپنی آتشیں آرزوں کو بروے کار لانے کے ہر پینترے آزماتا ہے ۔ اس میں کیا شک ہے کہ تلنگانہ کے رائے دہندے ہی کامل محکم ہیں ۔ وہ ابلیسی نظام کے جھانسوں میں نہیں آئیں گے ۔ تلنگانہ کے غریب اور بے روزگار نوجوانوں کے مقدر میں درد اور امید ہی باقی رہ گئی ہے ۔ ان کے لیڈر نے روزگار دینے کے لیے ذرا سا جھوٹ ہی تو کہا تھا اس پر عوام کا دل بہل گیا تھا اور پھر ایک بار اس دل کو بہلانے والے جھوٹ کہے جائیں گے اور پھر وہ مکر جائے گا ۔ اس مکرنے کی عادت کے باوجود عوام اس لیڈر سے محبت کا دم بھریں گے ۔ ایک ہی لیڈر کو محبوب بناکر رکھیں گے ۔ عوام کی محبت کا نشہ ہی تو ہے کہ ان پر انتخابات مسلط کردئیے گئے ۔ اگر 9 ماہ تک حکومت کے فرائض انجام دے کر وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی تو کیا لیڈر کا خسارہ ہوتا ۔ اسمبلی تحلیل کر کے انتخابات کا سامنا کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے تو اب شکوے اور حکومت سے رابطے میں آنے والے وقفہ کے درمیان عوام کو بہت کچھ غور و فکر کرنے کا موقع ملا ہے ۔ جی ہاں آپ نے اس حکومت کی نشانیاں تو دیکھ لی ہیں ۔ اب اسے دور کرنے کی مہر ثبت کرنے میں آپ کی صلاحیتوں کا امتحان ہوگا ۔ عوام کی زندگی میں جب صبر آتا ہے تو بے شمار تکالیف برداشت کرنے کی قوت بھی آجاتی ہے ۔ الیکشن کمیشن نے بھی صبر کا مظاہرہ کیا ہے اور عاجلانہ انتخابات کا اشارہ دیدیا ہے ۔ ٹی آر ایس امیدواروں کی فہرست جاری ہونے کے بعد سیاسی انتخابی مہم بھی شروع ہوچکی ہے ۔ تلنگانہ میں اپنی قسمت آزمانے والی تمام پارٹیوں کے لیے یہ انتخابات ایک زور کے دھکے کے مانند ہیں کیوں کہ اپوزیشن پارٹیوں نے ٹی آر ایس کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو متحد نہیں کیا ہے ۔ انتخابات کروانے کے اعلان کے بعد برسوں سے ایک دوسرے کی حریف رہنے والی پارٹیوں کانگریس اور تلگو دیشم کو ایک دوسرے کے قریب کردیا ہے ۔ اگر یہ دونوں پارٹیاں تلنگانہ کے رائے دہندوں کو بے وقوف بنانے کے لیے آپس میں ہاتھ ملاتی ہیں تو اس اتحاد میں شامل ہونے والی دیگر پارٹیاں بھی ہاتھ صاف کر کے اتحاد میں شامل ہوں گی لیکن سوال یہ ہے کہ آیا قومی پارٹی کانگریس کو ایک علاقائی پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے چھوٹی چھوٹی سیاسی ٹولیوں کا سہارا لینا پڑے گا ۔
ٹی آر ایس کی دوست کہلانے والی جماعتوں نے بھی اپنے امیدواروں کا اعلان کیا ہے ۔ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں ٹی آر ایس نے 63 حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی اب اس نے 100 حلقوں میں کامیابی کا نشانہ مقرر کیا ہے ۔ کانگریس کو صرف 22 نشستیں ملی تھیں اور وہ ایوان اسمبلی میں اپوزیشن کا موثر رول ادا کرنے میں ناکام دکھائی دی ۔ اس ناکامی کا فائدہ حکمراں قائدین نے خوب اُٹھایا ہے ۔ تحلیل شدہ اسمبلی میں تلگو دیشم کے 15 ، مجلس کے 7 ، بی جے پی کے 5 ، وائی ایس آر کانگریس کے 3 اور بی ایس پی کے 2 ارکان تھے ۔ ریاست میں اگرچیکہ بائیں بازو پارٹیوں کا بظاہر اچھا اثر ہوا کرتا تھا لیکن وہ بھی اپنی گرفت کمزور کرچکی ہیں ۔ سابق میں ٹی آر ایس کو تلنگانہ رائے دہندوں نے 34.3 فیصد ووٹ دئیے تھے ۔ کانگریس کے حق میں 25.2 فیصد ووٹ ملے تھے اور تلگو دیشم کو 14.7 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے ۔
اب اگر کانگریس اور تلگو دیشم متحد ہو کر ٹی آر ایس کا مقابلہ کرتے ہیں تو ان کے 2014 کے ووٹ فیصد کو جمع کردیا جائے تو 39.5 فیصد ووٹ ہوں گے یعنی ٹی آر ایس کے مقابلہ اس اتحاد کو زائد 5 فیصد ووٹ حاصل ہیں ۔ 2014 کی طرح 2018 نومبر یا دسمبر میں رائے دہندوں کے ووٹوں کا رجحان ان دونوں پارٹیوں کانگریس اور تلگو دیشم کے حق میں جاتا ہے تو پھر ٹی آر ایس کواپوزیشن میں بیٹھنا پڑے گا ۔ سابق میں بی جے پی کو 7.1 فیصد ووٹ ملے تھے اور مجلس کو 3.8 فیصد ماباقی پارٹیوں کو ان میں آزاد امیدوار بھی ہیں ۔ جملہ ووٹوں کا 14 فیصد حصہ حاصل ہوا تھا لیکن حکمراں پارٹی کا ساتھ دینے والے کئی ارکان اسمبلی میں جو اپنی اصل پارٹیاں چھوڑ کر اقتدار والی پارٹی میں شامل ہوئے تھے اس لیے تحلیل شدہ اسمبلی میں ٹی آر ایس کے ارکان اسمبلی کی تعداد 82 ہوگئی تھی ۔ لیڈروں کی دل بدلی اور انحراف پسندی کی عادت کسی بھی پارٹی کو بادشاہ سے صفر اور صفر سے بادشاہ بنا سکتی ہے ۔ ریاست میں بائیں بازو پارٹیوں کو پسند کرنے والے رائے دہندوں کی تعداد میں کمی آتی جارہی ہے تو اس گروپ کو اپنے سیاسی منصوبوں پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ سی پی آئی ایم نے 18 اکٹوبر 2016 کو پانچ ماہ طویل 4000 کیلو میٹر کا مہاجنا پدیاترا نکالی تھی اس کا اصل ایجنڈہ سماجی انصاف کا حصول اور عوام کی جامع ترقی تھا لیکن وہ اس ایجنڈہ کے باوجود عوام کی بڑی تعداد کو حامی بنانے سے قاصر دکھائی دیتی ہے ۔ تلنگانہ تحریک کے روح رواں سمجھے جانے والے پروفیسر کودنڈا رام نے بھی ٹی آر ایس قائدین سے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے 29 اپریل 2018 کو اپنی پارٹی تلنگانہ جنا سمیتی پارٹی قائم کی تھی ۔ اس کو اپنے قدم جمانے کا موقع ہی نہیں ملا اور اس کے سر پر انتخابات آ کھڑے ہوگئے ۔ پروفیسر کودنڈا رام کا دعویٰ ہے کہ وہ ٹی آر ایس کے امکانات کو دھکہ پہونچائیں گے لیکن یہ تو نتائج ہی سے پتہ چلے گا ۔ کسی بھی اپوزیشن پارٹی نے ٹی آر ایس کے انتخابی وعدوں کی عدم تکمیل کی پر زور طریقہ سے مہم نہیں چلائی ۔ اس کا راست فائدہ ٹی آر ایس کو ہوگا ۔ نگرانکار چیف منسٹر کے سی آر نے ایک حکمت عملی یہ بھی اختیار کی کہ اپنے تقریبا موجودہ ارکان اسمبلی کو ہی ٹکٹ دیا ہے ۔ اگرچیکہ ان ارکان اسمبلی میں سے کئی ایک کی کارکردگی سے کے سی آر ناخوش بھی تھے اس کے باوجود وہ ارکان کو ناراض کر کے کوئی جوکھم لینا نہیں چاہتے تھے اس لیے سیدھے طور پر چند ایک ارکان اسمبلی کو چھوڑ کر تمام کو دوبارہ امیدوار بنادیا ۔ کے سی آر اپنی موجودہ نشست گجویل سے مقابلہ کریں گے اور ان کے فرزند کے ٹی راما راؤ بھی دوبارہ سرسلہ سے ہی امیدوار ہوں گے ۔ وزیر آبپاشی ہریش راؤ کو بھی ان کی سابق نشست سدی پیٹ دی گئی ہے ۔ اس مرتبہ کئی منحرف قائدین کو ٹی آر ایس کے بیانر تلے الیکشن لڑنے کا موقع دیا گیا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ اس میں کے سی آر کی سیاسی حکمت عملی ہو اور وہ اپنی اس حکمت میں کامیاب بھی ہوجائیں لیکن عوام کے ساتھ کی جانے والی حکمت عملی اور پینترے بازی کیا رنگ لائے گی یہ تو انتخابات میں رائے دہندوں کے فیصلے سے ہی پتہ چلے گا ۔ تلنگانہ کا رائے دہندہ اتنا معلوم ہے کہ وہ معاف کرو اور ووٹ دو کی روش اختیار کرتا ہے ۔ یہی عادت پرانے شہر کے رائے دہندوں کو بھی بہت عزیز ہے ۔ عادت بدلنے کے لیے حالات کے بدلنے کا انتظار کون کرے گا ؟ اب تک عوام اپنے لیڈروں کی باتوں اور وعدوں کی جنت میں سوجانے کے شوق پورا کرتے آرہے ہیں ۔ ہر بار اس محبت میں اجڑ کر بھی اپنی عادت نہیں بدلی ۔
kbaig92@gmail.com