ذبیحہ گاؤکیلئے 80 فیصد غیر مسلم ذمہ دار

بی جے پی کے سابق نظریہ ساز گویند آچاریہ کا تاثر

نئی دہلی ۔ 2 ۔ نومبر : ( سیاست ڈاٹ کام) : بی جے پی کے سابق نظریہ ساز کے این گویند آچاریہ جو کہ گنگا کی صفائی اور تحفظ گاؤ کی مہم میں مصروف ہیں ۔ نازک حالات کے پیش نظر 7 نومبر سے شروع ہونے والی اپنی تحریک گائے تحفظ کو ملتوی کردی ہے ۔ گویندآچاریہ کا شمار بی جے پی کے بانی ارکان میں کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے 1998 میں اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ اختلافات کی بناء گوشہ گمنامی میں چلے گئے تھے ۔ بتایا کہ تحفظ گاؤ کے مسئلہ کو سیاستدانوں نے متنازعہ بنادیا ہے ۔ لہذا موجودہ حالات میں احتجاجی تحریک شروع کرنے کا ارادہ ملتوی کردیا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ تحفظ گائے کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے کیوں کہ مسلخ کو گائے اسی وقت پہنچتی ہے جب کسان اسے فروخت کرتا ہے ۔ ذبیحہ گاؤ کے عمل میں 80 فیصد غیر مسلم ذمہ دار ہیں جو کہ اس کاروبار سے وابستہ ہیں ۔ مسلمان ، مسلخ سے باہر آنے کے بعد گوشت کا استعمال کرتے ہیں انہیں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔ انہوں نے بتایا کہ راشٹریہ سوابھیمان اندولن نے اپنا احتجاج ملتوی کردینے کا فیصلہ کیا کیوں کہ اس کے لیے فی الحال سازگار حالات نہیں ہیں ۔ مسٹر گویند آچاریہ نے نشاندہی کی کہ ذبیحہ گاؤ کو مسلمانوں سے جوڑنا بالکلیہ غلط ہے ہندوستان میں مسلم حکمرانوں سے زیادہ برطانوی حکومت نے ذبیحہ گاؤ کو فروغ دیا تھا ۔ 1957 میں غدر کے بعد بڑے پیمانے پر ذبیحہ گاؤ شروع کیا گیا تھا کیوں کہ برطانوی حکمرانوں نے دونوں فرقوں میں دراڑ پیدا کرنے کے لیے اسے حربہ کے طور پر استعمال کیا تھا گو کہ مغلیہ دور حکومت میں ذبیحہ گاؤ تھا لیکن یہ محدود تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ذبیحہ گاؤ کا مسئلہ عقائد سے زیادہ معیشت سے جڑا ہوا ہے کیوں کہ ہمارے کسان ، مویشیوں کی افزائش تجارتی نقطہ نظر سے کرتے ہیں اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا معاشی اور زرعی نظام چاہتے ہیں جو کہ فطرت اور عقائد سے ہم آہنگ ہو یا پھر مغربی ممالک کی اندھا دھند تقلید کرنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے موجودہ صورتحال رونما ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گائے کی نسل کے تحفظ کے لیے ایک پالیسی وضح کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مویشیوں کی دولت اور زرعی معیشت کو فروغ دیا جاسکے ۔۔