ذاکرنائک داؤد ابراہیم نہیں

ابو معوذ
عالم اسلام کے معروف مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائک کے بارے میں ہندوستانی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ انہیں ملائیشیائی حکومت وہاں سے نکال دیگی اور ہندوستانی حکام کے حوالے کردے گی۔ ہندوستان کو ڈاکٹر ذاکر نائک کی حوالگی سے متعلق اطلاعات کو میڈیا نے مختلف انداز میں پیش کیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہندوستان کی سب سے بڑی خبر یہی ہے اور ڈاکٹر ذاکر نائک نے بہت بڑا گناہ کردیا ہے اور وہ داود ابراہیم سے کہیں بڑے دہشت گرد اور انڈرورلڈ ڈان ہیں۔ ایک ایسے وقت جبکہ ہمارے ملک کے ٹی وی چیانلوں پر ذاکر نائک کی متوقع حوالگی سے متعلق اینکرس چیخیں مار مار کر ناظرین کو اطلاع دے رہے تھے اسی دوران ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتر محمد نے شاید یہ تہیہ کرلیا کہ وہ ہندوستانی میڈیا کا جلد ہی جواب دیں گے چنانچہ اندرون 24 گھنٹے انہوں نے ایک بیان دیا جس میں ہمارے ملک کے میڈیا کی تمام رپورٹس کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ مہاتر محمد کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ذاکر نائک کو ہندوستان کے حوالے کرنے حکومت ملائیشیا کا کوئی ارادہ نہیں۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ڈاکٹر نائک نے ملائیشیائی قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی، وہاں کوئی مسئلہ پیدا نہیں کیا، جب تک وہ کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتے انہیں ملائیشیا سے نہیں نکالا جاسکتا اور حکومت کا ایسا کوئی ارادہ بھی نہیں۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک نے ہندوستان کے بشمول دنیا کے اکثر ممالک میں تقابل ادیان پر غیر معمولی لکچرس دیئے ہیں جس کے نتیجہ میں خود ہندوستان میں کئی تعلیم یافتہ غیر مسلم طلبہ و طالبات، ڈاکٹرس، انجینئرس اور پیشہ وارانہ ماہرین نے دامن اسلام میں پناہ لی۔ صرف ہندوستان میں ہی ڈاکٹر ذاکر نائک کی مقبولیت نہیں ہے بلکہ یوروپی ممالک میں بھی ان کے لکچرس کو بڑی دلچسپی کے ساتھ سنا جاتا ہے۔ ان کے لکچر سننے والوں میں دوست اور مخالفین دونوں شامل ہوتے ہیں۔ مغربی ممالک میں کام کررہی غیر مسلم تنظیموں نے ڈاکٹر ذاکر نائک کی مقبولیت سے خائف ہوکر ان کے خلاف معاندانہ مہم چلائی جس کے نتیجہ میں بعض یوروپی ممالک میں ان کی آمد پر پابندی عائد کردی گئی۔ بنگلہ دیش میں پیش آئے دہشت گردی کے ایک واقعہ میں ملوث بعض نوجوانوں کی جانب سے یہ اعتراف کرنے پر کہ انہوں نے ڈاکٹر ذاکر نائک کے لکچر سے متاثر ہوکر یہ حرکت کی ہے، ہندوستان میں بھی ان کے خلاف شکنجہ کسا گیا حالانکہ ڈاکٹر ذاکر نائک اُن کی آئی آر ایف اور پیس ٹی وی کا فرقہ پرستی، دہشت گردی یا انتہا پسندی سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ڈاکٹر نائک کے لکچرس میں ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں جن میں ہندو، مسلم، سکھ ، عیسائی اور دوسرے مذاہب کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ مخالفین اس بات پر پریشان تھے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک کے لکچرس میں شرکت کرنے والوں میں سے کچھ لوگ برابر اسلام قبول کرلیتے ہیں یعنی ان کے ہر لکچر میں اسلام قبول کرنے والوں کی کافی تعداد ہوتی ہے۔ ان کی اسی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے شاید انہیں تعصب و جانبداری کا نشانہ بنایا گیا ہے اور 2016 سے ہی ان کے خلاف میڈیا ٹرائل شروع ہوگیا، حالانکہ ڈاکٹر نائک نے بارہا یہ واضح کیا ہے کہ وہ جانبداری، تعصب اور فرقہ واریت کے خلاف ہے، وہ اپنے وطن واپس ہونے کے خواہاں ہیں لیکن انہیں کئی چیزوں کی طمانیت دینی ہوگی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ممبئی میں پیدا ہوئے ذاکر نائک منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے الزامات میں حکومت ہند کو مطلوب ہیں۔ مہاتر محمد پکتان ہرپن صدارتی کونسل کی صدارت کے بعد ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ واضح رہے کہ ملائیشیا کے انسپکٹر جنرل آف پولیس تانسری محمد فوزی ہارون نے انڈین میڈیا کی ان اطلاعات کو مسترد کردیا جس میں کہا گیا تھا کہ ڈاکٹر ذاکر نائک کو ہندوستان کے حوالے کیا جانے والا ہے۔ یہ بات اور ہے کہ ہندوستانی وزارت امور خارجہ نے باقاعدہ طور پر جاریہ سال کے اوائل میں ڈاکٹر ذاکر نائک کی حوالگی کی درخواست پیش کی تھی۔ 52 سالہ ڈاکٹر ذاکر نائک نے اپنی ہندوستان حوالگی سے متعلق میڈیا رپورٹس کو مکمل طور پر بے بنیاد اور جھوٹی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان واپس ہونے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں۔ جب تک انہیں غیر منصفانہ قانونی کارروائی سے محفوظ نہیں رکھا جاتا وہ ہندوستان واپس نہیں ہوں گے۔ ذاکر نائک کے بارے میں کہا جاتا ہیکہ انہوں نے 2008 میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ پر دہشت گردانہ حملوں کے لئے القاعدہ ذمہ دار نہیں۔ یہ واقعہ 11 ستمبر 2001 کو امریکہ کے نیویارک میں واقع ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور دوسرے مقامات پر پیش آیا تھا جس میں 3000 سے زائد افراد مارے گئے۔ ذاکر نائک کو ملائیشیا میں مستقبل رہائش کا پرمٹ یا اجازت نامہ (PR) حاصل ہے۔ ڈاکٹر نائک کے خلاف ہندوستان اور بنگلہ دیش دونوں ممالک میں تحقیقات جاری ہیں۔ قومی تحقیقاتی ایجنسی NIA اور انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ED) نے نائک اور ان کی رضاکارانہ تنظیم کے خلاف منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے الزامات کے تحقیقات کررہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وزارت امور خارجہ نے ان کا پاسپورٹ منسوخ کردیا ہے اور حکومت ملائیشیا پر زور دیا ہے کہ وہ مبلغ اسلام کو ہندوستان کے حوالے کردے اگرچہ ڈاکٹر نائک ہائی کورٹ سے رجوع ہوئے تھے لیکن ہائی کورٹ نے انہیں کوئی راحت نہیں دی۔