سید جلیل ازہر
ظلم کرنے والے شوہر کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ وہ بھی کسی کا بھائی ہے ، اپنی بہن پر مظالم کا تصور ذہن میں رکھ لے تو ضمیر لالچ کے حصار سے باہر آجائے گا۔
یہ سچائی ہے کہ مردوں کے مقابلہ میں لڑکیوں کو سخت امتحان کا سامنا ہوتا ہے ۔ ایک چوکھٹ چھوڑتی ہے دوسری دہلیز آباد کرتی ہے ۔ اس کے باوجود جہیز کی لعنت کا خوف لڑکی پر اور اس کے والدین پر چھایا ہوا رہتا ہے کیونکہ مسلسل جہیز کی لعنت پر قلمکار اپنے قلم کے ذریعہ نسل نو کو اس بات کا بار بار احساس دلارہے ہیں کہ ظلم کرنے اور جہیز کی مانگ کرنے سے پہلے اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے کہ کہیں تاریخ ایسے واقعات اپنی بہن یا آگے چل کر ا پنی بیٹی کے ساتھ نہ دہرادے۔ پورے ملک میںکمپیوٹر کا جال پھیلتا جارہا ہے ۔ دنیا ایک عالمی گاؤں میں سمیٹی جارہی ہے ۔ بیرونی تجارت کے لئے ملکی دروازے کھل رہے ہیں لیکن ان سب ترقیاتی فروغ اور نشو و نما کے باوجود ہندوستان سماج کے ذہن کے دریچے اب بھی بند ہیں جس کی وجہ سے بیرون ملک کی سماجی کھلے پن کی تازہ ہوا اندر آرہی ہے ۔ ہم ہندوستانی دوسرے سماجوںکیلئے کھلے پن کو فحاشی سے تعبیر کرتے ہوئے اپنے سماج کی ذہنی تنگی کو ہی اپنی ثقافتی وراثت سمجھ کر خوش ہولیتے ہیں مگر سچائی تو یہ ہے کہ جن سماجوں میں کھلا پن ہے وہاں نسوانی طبقہ اتنا مظلوم نہیں ہے جتنا کہ ہمارے یہاں کم از کم دوسرے ملکوں میں جہیز کی لعنت اور اس لعنت سے اٹھنے والے شعلوں میں جلنے جھلنے کی وارداتیں نہیں ہوتی ۔ کچھ واقعات ایسے بھی سامنے آرہے ہیں کہ جس باپ نے اسکول کی گھنٹی تک نہ سنی دن رات محنت مزدوری کرتے ہوئے اپنی اولاد کو تعلیم یافتہ بنادیا لیکن تعلیم یافتہ کا احساس مرچکا تھا اور وہ ملازمت پر اعلیٰ عہدہ پر فائز ہونے کے بعد سماج میں کسی موقع پر اپنے آپ کو ایک تعلیم یافتہ نسل کا چراغ بتانے کیلئے وہاں موجود اپنے باپ کوبھی باپ کہنے سے گریز کر رہا ہے ۔یہ واقعہ نہیں ایک جیتی جاگتی تصویر ہے جسے راقم الحروف ہی نہیں اس کے تمام ساتھی جانتے ہیں۔ ایسی اولاد کی بدتمیزی کو قلمبند کرتے ہوئے ہاتھ تھر تھراتے ہیں ۔ تہذیب صحافت میں اگر گنجائش نکل آتی تو شاید اس کا نام اور پتہ بھی قلمبند کردیتا۔ ا رے اللہ کے خوف سے ڈرو
فلک کے قہر ستاروں کی بدعا سے ڈرو
زمین کے صبر و تحمل کی انتہا سے ڈرو
لوگ بیماری کے خوف سے غذا چھوڑ دیتے ہیں لیکن عذاب الٰہی کے خوف سے گناہ نہیں چھوڑتے جبکہ اسلام کی تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرے اور جنت کا خواہاں ہو تو اسے چاہئے کہ وہ والدین کی عزت کرے اس لئے کہ ماں باپ کی اصل طاقت ان کی نیک اولاد ہے ۔ ماں باپ کمزور بیمار اور بوڑھے تب ہوتے ہیں جب ان کی اپنی اولاد ہی ان کو پریشان کرتی ہے۔ کچھ والدین اپنی لڑکیوں پر سسرالی مظالم سے پریشان ہیں تو کچھ گھرانوں کی فکر اس طرح ہوگئی۔
دو بوڑھے چراغوں کا اجالا نہ چلا جائے
آئے جو بہو تو ہاتھ سے بیٹا نہ چلا جائے
ویسے جہیز کی لعنت کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کے رشتہ بھی اب ایک سوالیہ نشان بن رہے ہیں۔ زمانہ جانتا ہے کہ لڑکی کو ایک گھر روتے ہوئے چھوڑنا پڑتا ہے اور دوسری دہلیز کو پہونچتے ہوئے مبارکباد کہنا پڑتا ہے ۔ ایک جگہ غم ملتا ہے ، دوسری جگہ خوشیاں خیرمقدم کرتی ہیں تو ان کے احساسات کیا ہوں گے ۔ اس کے باو جود رشتوں کے سلسلہ میں حسد اور جلن کی سوسائٹی میں ایک نئی شروعات ہوئی ہے ۔ آج سماجی زندگی کے دوسرے شعبوں میں اتھل پتھل ہوگئی ہے اور اخلاقی قدروں کے چراغ جس تیزی سے بجھ رہے ہیں اسی طرح اس شعبہ میں بھی انقلاب آگیا ہے اور اخلاقی قدروں کے چراغ بجھ گئے ہیں۔
لڑکی کے والدین کیلئے رشتہ سفر نہ صرف طویل ہوگیا ہے بلکہ نہایت ہی دشوار و پیچیدہ کانٹوں بھرا بن گیا ہے اور مصارف بھی ناقابل برداشت حد تک بڑھ گئے ہیں۔ پہلے زمانہ میں رشتے ناطے فیصلہ کرنے میں پورا خاندان کنبہ اور محلہ پڑوسی تک تعاون کرتا تھا اور ایسے موقعوں پر خوشی کا اظہار کیا جاتا تھا ۔اب وقت کی برائیوں کے پیش نظر یہ کام چوری چوری پوشیدہ طور پر کیا جانے لگا ہے ۔ ایک دور تھا جب کسی لڑکی کا رشتہ آتا تھا تو اس کی ماں اور اپنے محلہ کی عورتوں کو اپنے گھر بلایا کرتی تھی تاکہ پورے کنبے اور محلے میں ایک طرح سے اعلان ہوجائے کہ ان کے یہاں ان کی لڑکی کا رشتہ آیا ہے اور یہ عورتیں بڑی خوشی کا اظہار کیا کرتیںاور لڑکی کی تعریف بھی کرتی تھیں۔ غرض لڑکی والوں کو ہرطرح کا تعاون دیتی تھیں۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ عام طور پر اس وقت عورتوں کے دلوں میں کسی طرح کا بغض یا حسد نہیں تھا لیکن اب معاملہ قطعی اسکے برعکس ہوگیا ہے ۔ آج کل عورتیں چاہتی ہیں بلکہ کوشش کرتی ہیں کہ رشتے اور پیغام کی کسی کو کانوں کان بھی خبر نہ ہو کیونکہ گھریلو سیاست کا گھناونا جوڑ توڑ شروع ہوجاتا ہے اور آنے والے رشتے کو لے کر فریقین کے کان بھرے جانے لگتے ہیں کیونکہ ایسے لوگوں کی رگوں میں بے جا مخالفت کا زہر سرایت کرگیا ہے ۔ جب تک سوچ اور فکر کے ان دائروں کو وسیع سے وسیع تر نہیں کیا جائے گا جب تک مسلمان کو ذات پات برادری سے اوپر اٹھ کر صرف مسلمان کی نظر سے نہیں دیکھا جائے تب تک تو نہ ہی جہیز کی لعنت کا خاتمہ ہوگا نہ ہی رشتوں کا یہ سفر آسان ہوسکتا ہے ۔ اس لعنت نے موجودہ دور میں ایسے پھن پھیلائے ہیں جس سے غریب والدین زندہ درگوا ہورہے ہیں ۔ انسانیت کا فرض نبھانے کیلئے ہر تنظیم کو ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے قدم اٹھانا چاہئے اور قلمکاروں کو بھی چاہئے کہ دانشوران ملت کو احساس دلاتے ہوئے اس جانب توجہ مبذول کرنے کیلئے مجبور کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ورنہ بقول شاعر ؎
طالب جہیز نے چھین لیں ان کی تمام شوخیاں
دیکھو اداس بیٹھی ہیں حوا کی بیٹیاں
9849172877