ڈاکٹر مجید خاں
اکثر مریضوں کی روزمرہ کی کیفیات جب میں سنتا ہوں تو ان کے نازیبا حرکات میں جلد بازی بھی ایک پہلو ہوتا ہے؟ لوگ جلد بازی کے علاج کیلئے نہیں آتے ہیں بلکہ مجموعی طور پر ان کی دماغی کیفیت کے لئے آتے ہیں۔ جب شخصیت کو چیرا اور تراشا جاتا ہے تو یہ پہلو باہر آتا ہے؟ آج کل لوگ اپنی شخصیتوں کو سمجھنے اور سدھارنے میں دلچسپی لے رہے ہیں تو اس عمل پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی جائے تو آگہی اور بڑھے گی۔
انگریزی میں اس کو Impulsivilityکہا جاتا ہے اور اس سے جڑے ہوئے نفسیاتی مرض کو Poor Impulse Control کہا جاتا ہے۔ نوجوانوں میں یہ عام طور پر دیکھی جاتی ہے۔ غصہ اس کا جزو لاینفک ہے۔ چڑچڑاپن اور بے صبری ان کا روزمرہ کا طور طریقہ بن جاتا ہے اور والدین مجبور اور بیزار ہوجاتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ اس کو کس طرح سے قابو میں لایا جائے۔ متاثرہ شخص خود نہیں جانتا کہ یہ ایک دماغی مرض ہے جو قابل علاج ہے گوکہ بعض دماغی بیماریوں میں یہ علامت بھی موجود ہوتا ہے مگر چونکہ شخصیت کی تربیت سے ہم واقف نہیں ہیں، اپنے اس کے تدارک پر کوئی توجہ نہیں جاتی۔ اب اس پر کافی تحقیقات ہورہی ہیں اور اس پر قابو پانا ممکن ہے۔ سب سے پہلے میں اس مقدمہ نفسیاتی مرض کی تفصیلات پیش کرنا چاہوں گا اور اس کے بعد اس کی مزید تشریح کروں گا۔
چڑچڑاپن اور غصیلا مزاج، ٹیڑھی بحث و تکرار کی عادت، نافرمانی اور باغیانہ روش اور انتقامی جذبہ اور تنک مزاجی، انتہائی حساس طبیعت، خود کی غلطیوں کا نہ اعتراف کرتے ہوئے دوسروں پر الزام لگانا اور خفا ہونا۔
ویسے تو ہر خاندان میں یہ حالات دیکھے جاتے ہیں مگر اس کی وجہ سے قریبی لوگوں کو تکلیف ہونے لگے اور خود مریض کو یہ احساس ہو کہ لوگوں سے اس کے تعلقات کشیدہ ہورہے ہیں اور وہ خود بھی بعد میں پچھتائے تو اس کے لئے نفسیاتی مشورہ مناسب ہے، مگر عجلت پسندی آخر کیا عمل ہے، اس کا تجزیہ کچھ اہم روشنی اس موضوع پر ڈالتا ہو۔
جلد بازی اس شخص میں زیادہ ہوتی ہے جس میں صبر کا مادہ نہیں ہوتا۔ آخر صبر کیا ہے۔ بچپن ہی سے بچوں کو صبر کی تلقین کی جاتی ہے مگر آج کل کے زمانے میں اس نعمت سے ماں باپ اور اولاد دونوں محروم ہوتے جارہے ہیں۔
کیا انتظار کرنے میں اور صبر میں کوئی فرق ہے۔ جی ہاں بے صبری سے انتظار کرنے میں اور صبر سے انتظار کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بغیر صبر کے جو شخص انتظار کرتاہے؟ اس میں کئی طرح کے بے چینی کے علامات کا اظہار ہوتا ہے۔ غصہ بھی آپ کا ایک جزو ہے۔ صبر سکون سے انتظار کرنے کو کہتے ہیں۔ صبر ایک طاقت ہے کمزوری نہیں غوروخوض کے بعد کسی معاملے میں قدم اٹھانے کو صبر کہتے ہیں۔
اپنے خواہشات کو قابو میں نہ رکھنا عجلت پسندی کی ایک علامت ہے، خواہشات روزمرہ کے معمولی ضروریات سے لے کر ناقابل کنٹرول تشدد اور جنسی بھوک کو معمول سے انتہائی حرکات بھی لڑکیوں کو تنگ کرنے سے لے کر ان کے زنابالجبر تک بھی جاسکتے ہیں، نوجوانوں کی شخصیت کی خرابی کا یہ ایک جز ہے۔ اپنے بچے بچپن میں ہی اس خرابی کا اظہار کرتے ہیں، ان کے جو بھی مطالبات ہیں، والدین ان کو یکلخت پورا نہ کریں تو وہ انتہائی تشدد حتی کہ مار توڑ پر اتر جاتے ہیں۔ والدین بحالت مجبوری ان کو پورا کرتے رہتے ہیں اور جب یہ مطالبات ان کی استطاعت کے باہر ہوتے ہیں تو پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں اور نفسیاتی مشورے کی ضرورت پڑتی ہے؟
میں سمجھتا ہوں کہ ابھی بھی لوگ عجلت پسندی کو پوری طرح سمجھ نہ سکے ہوں گے۔ مجھے یہ سمجھانا بہت ضروری ہے۔
یہ سمجھئے کہ ہر شخص میں ایک جذبات کی خاص برقی رو دوڑتی رہتی ہے، اس صلاحیت کو ہر شخص کو اپنے قابو میں رکھنا چاہئے، یہ ایک سرکش گھوڑے کی طرح ہے جو آپ کے قابو میں ہے، غصے میں آکر ایک چابک لگانے پر وہ بہت تیز بھاگ سکتا ہے اور یہ آپ کا ناقابل کنٹرول غصہ ہے۔ اس برقی طاقت کو اپنے قابو میں رکھنا اور صحیح وقت پر صحیح مقدار میں استعمال کرنا ایک سنجیدہ اور سمجھدار انسان کا وصف ہے۔ اس لئے کہا گیا کہ اگر کوئی آپ کے ایک گال پر تھپڑ مارے تو اس کو اپنا دوسرا گال پیش کیجئے۔
اتنا صبر تو آج ممکن نہیں ہے، مگر دوسرا گال پیش کرنے کے بجائے صبر کیجئے، ممکن ہے وہ شرمندہ ہو، مسئلہ اس کا ہے، آپ کا نہیں، رشی منی اور بزرگ ہستیاں اپنے جذبات کو قابو میں پوری طرح لالیتے ہیں۔ اکثر بظاہر مشہور ہستیاں اپنے آپ کو نیک ظاہر کرتی ہیں، مگر عورتوں کے ساتھ اور زبردستی اور جنسی استحصال کرنے میں جس کی حالیہ بہترین مثال آسا رام باپوجی میں کئی مہینوں سے جیل کی ہوا کھا رہے ہیں، یہ لوگ بہت بدنام ہیں۔ چونکہ ہر قسم کی نصیحت اور تربیت انسان کی اس خبیث حرکت کی اصلاح کو نہ سکی ، اس لئے اب ان کالی کرتوت کیلئے سخت سے سخت ترین سزا تجویز کی گئی؟ مثلاً نربھیا ایکٹ Nirbhaya Act اور سزائے موت۔
ہر شخص میں یہ صفت علیحدہ ہوتی ہے، یا تو بہت زیادہ با صبر شخص ہوسکتا ہے اور یا تو پھر اس کے برخلاف۔ عام طور پر لوگ ان دونوں کیفیات میں جو انتہائی ہیں، ان کے بیچ میں ہوا کرتے ہیں۔ یعنی اپنے نفس کو اپنے اقتدار میں رکھنا۔ اسلامی تعلیمات میں تو اس پر کافی مواد ہے مگر مدرسوں وغیرہ کے جو جنسی بے راہ روی کے واقعات ہمارے سامنے آرہے ہیں،ان سے ہم واقف تھے اور واقف ہیں۔ اس لئے کہتے ہیں کہ آدمی فرشتہ نما، اپنے آپ کو ظاہر کرسکتا ہے مگر اس کے اندر ایک شیطان، اس کے نفس کو چلاتا ہے۔ موقع ملنے پر جنسی ہوس کے شیطان کو تو وہ روک نہیں سکتا۔ جیسے ہی موقع ملا یہ لوگ اپنی گھناؤنی حرکات کر بیٹھ سکتے ہیں۔ یہ ایک قسم کی دیوانی عجلت پسندی ہے۔ ان لوگوں کو ہمیشہ اس خطرے سے واقف رہنا چاہئے اور اس لئے مجرمانہ نتائج کو جانتے ہوئے ہر کام کرنے سے پہلے اس پر غور کرنا چاہئے۔ میں نے اس مضمون کا موضوع دیوانی عجلت پسندی رکھا ہے۔ غیرعجلت پسندی کی بھی ایک کیفیت ہوسکتی ہے، جی ہاں! اگر کوئی شخص انتہائی محتاط ہو اور ہر معاملے میں پھونک پھونک کر قدم رکھنے کا عادی ہو تو وہ پھر زندگی میں ترقی نہیں کرے گا۔ بسااوقات جلد فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ کامیابی لوگوں کی زندگی میں اس کو ہلکا سا خطرہ مول لینے کا عمل کہا جاتا ہے، چاہے وہ شخصی تعلقات ہوں یا پھر سرمایہ کاری۔
اپنی شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کیجئے۔ جو لوگ نہیں کیا کرتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ وہ لوگ دوسرے کامیاب لوگوں اور اداروں کی تقلید کرتے ہیں۔ منہ کی کھاتے ہیں، جس کی کئی مثالیں ہم نے حیدرآباد میں دیکھی ہیں۔ اندھادھند سرمایہ کاری، پولٹری فارمس، گریب گارڈنس وغیرہ وغیرہ۔
نوجوان اپنی پوشیدہ جنسی بالادستی کے معاملے میں گرفتار ہورہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ ان معاملات کیلئے اتنا حساس اور چاق و چوبند ہوگیا ہے کہ آپ جن حرکات کو یہ سمجھتے ہیں کہ پوشیدہ رہیں گے، سیل فونس کی ٹیکنالوجی کی وجہ سے اب ساری دنیا آپ کو دیکھ پارہی ہے اس لئے مدارس میں اس موضوع کو زیربحث لانا چاہئے اور ان تمام واقعات کے Videos جو دستیاب ہیں، دکھانے ہوں گے۔ Nirbhaya Act کی تفصیلات بڑھانی پڑیں گی۔ موقع پرست اکیلا جنسی درندہ جو ایک مشفق، نیک معلم یا بھروسہ مند رشتے دار کے روپ میں معصوم بچے یا بچیوں کو اسی شیطانی ہوس کا شکار بناتا ہے یا پھر اس کی بری فکر و نظر اس سمت میں بھٹکتی ہے ،اب اس کو جان لینا چاہئے کہ انجام سنگین ہے۔ یہ جرم ایسا ہے کہ سالہا سال کے بعد بھی افشاء ہوسکتا ہے۔ تو اندازہ کیجئے کہ سماج میں محنتوں سے حاصل کیا ہوا، یہ عزت دار اور پُراحترام مرتبہ و مقام ملیامیٹ ہوجائے گا۔
یہ کوئی تعجب خیز نئی دریافت نہیں ہے۔ ہر شخص اس کی کمزوری سے واقف ہے۔ بعض لوگوں میں یہ شہوت کم ہوتی ہے تو بعض میں زیادہ ہوجاتی ہے۔ ایسے بے حساب نوجوانوں میں جو خطرناک جنسی جرائم کے مرتکب ہوچکے ہیں اور یہ تجویز بھی ہے کہ ان کی خصی کی جائے اور ان کو قانوناً نامرد بنادیا جائے۔ ان کی شہوت کو کم کرنے کی دوائیں بھی ہیں۔
اس موضوع پر طلباء میں سمینار ہونے چاہئیں۔ اس کے لئے خاص استاد کی ضرورت ہے جو جامع انداز میں جنسی عجلت پسندی کے ہر پہلو پر Audio Visual + Case Video کے ساتھ روشنی ڈالے۔
کوئی رضاکارانہ تنظیم بھی ایسا پروگرام شروع کرسکتی ہے۔ اس قسم کی معلومات ہر لڑکے اور لڑکی کیلئے ضروری ہیں، میں نے جو معلومات پہنچانے کی کوشش زبان کو بہت لگام لگاتے ہوئے کی ہے۔وہ ایک چٹان کا چھوٹا ٹکڑا ہے۔ جنسی خواہشات اور عادات ایک لت کی طرح پڑجاتی ہیں، جس طرح شراب، گٹکھا، انٹرنیٹ پر فحش تفریح وغیرہ وغیرہ، جنسی سراب خیالی دوسری لعنت ہے۔ یہ بہت ہی گمبھیر موضوع ہے اور منتخبہ سیمینار ہی میں اس پر سیر حاصل بحث ممکن ہے۔