پچھلے ہفتہ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ایک افسوسناک واقعہ ہوا جس میں دو مسلح نوجوانوں نے وہاں سے شائع ہونے والے ایک ہفتہ وار کے دفتر میں گھس کر اخبار کے عملہ اور دو پولیس عہدہ داروں پر گولیاں برسائیں اور وہیں موقع واردات پر ان کی ہلاکت ہوگئی ۔ ساری دنیا اور خاص طور پر مغربی ممالک نے اس واقعہ کو بربریت سے تعبیر کیا ۔ بے شک قتل انسان ناقابل معافی گناہ ہے ۔ دونوں حملہ آوروں کا تعلق اسلام سے بتایا جاتا ہے ۔ واقعہ کی یقیناً مذمت کی جانی چاہئے لیکن ایسا عمل کرنے کے اسباب و علل کو سراسر نظر انداز کرکے اس کو دہشت پسندی سے تعبیر کرنا بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا کہ یہ عمل ہے ۔ آج کے ماڈرن دور میں ہر بات کے اسباب تلاش کئے جاتے ہیں ۔ کسی مرض کا علاج اس وقت تک شافی نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے اسباب تلاش نہ کئے جائیں ۔ آج کسی ڈاکٹر کے پاس کوئی مریض رجوع ہوتا ہے تو اس کے خون ، پیشاب اور جانے کیا کیا معائنے کروائے جات ہیں ۔ ان کی رپورٹ کی بنیاد پر علاج معالجہ شروع کیا جاتا ہے ، مرض کی بہتر تشخیص کی جاتی ہے ۔ فوراً علاج شروع نہیں کردیا جاتا ۔ دہشت گردی بھی آج عالمی معاشرہ کا سب سے خطرناک اور سب سے بڑا مرض ہے ۔ انسانیت اس مرض سے ایسی متاثر ہے جیسے کینسر سے کوئی مریض متاثر ہوتا ہے ۔ لیکن دہشت پسندی کے علاج کے لئے کبھی اس کی حقیقی وجوہات کا پتہ چلانے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ کچھ ہوا تو بس یہ کہ امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک نے دہشت پسندوں کے خلاف ہلاکت خیز جنگی کارروائیںا شروع کردیں ۔ افغانستان ، عراق ، لیبیا ، شام میں تو گو یلغار ہوئی یہ سب مغربی ممالک نے کیا اور اس کو مخالف دہشت گردی مہم کا نام دیدیا ۔ سارے عالم اسلام میں دہشت گردوں کے شبہ کی بنیاد پر ان میں سے بعض متذکرہ بالا ممالک کو تاراج کردیا گیا ۔ بے شک القاعدہ ، طالبان اور بوکوحرام جیسی تنظیمیں اتنہا پسند ضرور ہیں لیکن انتہا پسندی ایک اور چیز ہے اور اپنے مذہب کی سختی سے پیروی دوسری بات ہے ۔
ان انتہا پسند تنظیموں نے کبھی مغربی دنیا کے مذہبی عقیدہ کا مذاق نہیں اڑایا ، کبھی کسی مذہب کی توہین نہیں کی جبکہ مغربی دنیا میں آزادی اظہار خیال کے پرفریب نعرہ کی آڑ لیکر مذہب اسلام کا تمسخر اڑایا گیا ۔ فرانس ہی کے تازہ واقعہ کو لیجئے ۔ یہاں کے متنازعہ ہفتہ وار ’’شارلی ہیبڈو‘‘ نے حضور والا مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون شائع کئے اور ایسا اس ہفتہ وار نے پہلی مرتبہ نہیں کیا ۔ اس سے پہلے 2011 میں بھی آپؐ کی شان میں گستاخی اسی اخبار نے کی تھی ۔ اس وقت بھی مسلمانوں نے شدید احتجاج کئے تھے ۔ اب دوسری مرتبہ جب ایسا ہوا تو ا سکے دفتر پر حملہ ہوا ۔ 17 افراد ہلاک ہوگئے ۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ اپنی اگلی اشاعت میں جس کی ضخامت بہت زیادہ تھی ایسے کئی کارٹون پر مشتمل ایک خاص نمبر شائع کیا اور اس کی 30 لاکھ کاپیاں ساری دنیا میں فروخت ہوئیں ۔ صرف مسلم ممالک نے ایسا نہیں کیا ۔ اپنے عملہ کی دردناک موت کے باوجود اس نے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ دوسری اشاعت میں تو اور بھی بڑھ چڑھ کر اپنی اسلام دشمنی کا مظاہرہ کیا ۔ منشاء گفتگو ہفتہ وار پر قاتلانہ حملہ کی تائید کرنا نہیں ہے بلکہ یہ واضح کرنا ہیکہ ’’اگر حملہ دہشت گردی کا جیتا جاگتا نمونہ تھا تو دوسری اشاعت اسلام دشمنی اور ذہنی دہشت گردی کا شرمناک نمونہ تھا ۔ کسی مغربی ملک نے اس دوسری اشاعت پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور نہ ہفتہ وار کی تقسیم اور فروخت پر کوئی پابندی عائد کی ۔ اس کا تو یہی ایک مطلب ہوسکتا ہے کہ اہل مغرب اسلام دشمنی کو بری بات نہیں سمجھتے ہیں ۔ ایک دہشت گردی کو روکنے کے لئے دوسری قسم کی ’’نفسیاتی دہشت گردی‘‘ برابر کا جرم ہے لیکن ان ممالک کو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ دنیا کی دوسری بڑی آبادی یعنی مسلمانان عالم کی دل آزاری کا جرم کس تسلسل کے ساتھ ان سے سرزد ہورہا ہے ۔ اظہار خیال کی آزادی کی اپنی کچھ حدیں ہوتی ہیں۔ اظہار کی آزادی کا ہرگز یہ مطلب نہیںکہ دوسروں کے عقیدہ ، ان کے رسم و رواج ان کی تہذیب ان کی زبان ان کی ثقافت کا مضحکہ اڑایا جائے ۔ اپنے آپ کو متمدن ممالک کہلانے والے یہ ممالک تمدنی اعتبار سے کتنے بڑے فریب میں مبتلا ہیں کہ انھیں یہ تک سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اعلی درجہ کا تمدن تو یہ ہوتا ہیکہ ہر عقیدہ کا احترام کیا جائے ۔ ہر ثقافت و تمدن کے تمسخر سے گریز کیا جائے ۔ اگر یہ نہیں ہوگا تو پھر دنیا میں مذہبی احترام باقی نہیں رہے گا ۔ ہر گروہ دسرے مذہب کے عقیدہ کا مذاق اڑائے گا ۔ مغربی ممالک کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ اپنے عقائد کے لئے ہر انسانی گروہ انتہائی حساس ہوتا ہے ۔ یہ حسیت اتنی شدید ہوتی ہیکہ اس کی توہین واہانت وہ گروہ برداشت نہیں کرسکتا ۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیاکبھی کسی مسلم ملک نے عیسائیت یا کسی اور مذہبی عقیدہ کی توہین کی ہے ؟کیا دنیا ایسی کوئی مثال پیش کرسکتی ہے کہ کسی عقیدہ کے خلاف کبھی ان ممالک کے ذرائع ابلاغ نے اہانت آمیز مواد شائع کیا ۔ پھر کیوں ایسے کارٹون شائع کئے جاتے ہیں جن سے اس ذات والا مرتبتؐ کی تضحیک و اہانت کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے ؟
اگر ایسا کبھی ہوا ہو جو راقم کے علم میں تو نہیں ہے تو اہل اسلام نے اس کی سختی سے روک تھام کی ۔ کیونکہ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں یہ درس بھی دیا گیا ہے کہ وہ دوسروں کے مذہبی عقیدہ کے بارے میں کوئی اہانت آمیز بات نہ کرو ، مبادا کہ وہ تمہارے خدا کو برا کہیں ۔ یہ بھی قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ تم اپنے دین پر رہو انھیں اپنے دین پر رہنے دو‘‘ یعنی دین اسلام کسی مذہب کی مخالفت ، توہین اہانت کی ہرگز اجازت نہیں دیتا تو پھر کیوں نام نہاد عصری تہذیب یہ خود ساختہ امام مغربی ممالک اسلام کو ہی نشانہ بناتے ہیں ۔ ان اسباب کا دیانت داری سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ دہشت گردی کسی شکل میں ہو اس کی مذمت کی جانی چاہئے ۔ خواہ یہ دہشت گردی پشاور میں ہو یا ہندوستان کے کسی شہر میں ۔ دنیا کے کسی خطہ میں ہو ۔ فرانس کے واقعہ کے بعد ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے کہ بعض گوشوں کی جانب سے درپردہ دہشت گردی کی حمایت کی جارہی ہے ۔ اسکا جواز پیش کیا جارہا ہے اس کو justify کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ایسا کام کوئی انسان دشمن ہی کرسکتا ہے ۔ دہشت گردی کو حق بجانب قرار دینے کی کوشش ہر صورت میں قابل نفرت ہے ۔ لیکن دہشت گردی کے مرض کی جو اب وبائی شکل اختیار کرتا جارہا ہے اسباب کی تلاش کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی ۔ اسباب کی تلاش کو حق بجانب قرار دینے کی کوشش سمجھنا مغربی ممالک کی نادانی یا پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ممالک اسلام یا کسی بھی عقیدہ کی توہین کو اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ یہ ذہنیت انتہا درجہ کی حماقت ہوگی ۔ دہشت گردی کے واقعات کیوں ہوتے ہیں کیوں کسی مذہبی عقیدہ (کسی بھی مذہبی عقیدہ) کی تضحیک کی جاتی ہے تو یہ صورتحال بہرحال پیدا ہوگی ۔ اس کو کوئی اور نام یا justification ہرگز نہیں کیا جانا چاہئے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ساری دنیا اور بالخصوص مغربی ممالک اپنے دامن میں جھانک کر دیکھیں ۔ اپنی ہٹ دھرمی کا جائزہ لیں تو علاج ممکن ہے ۔ ایک اور بات بھی ضروری ہے آزادی اظہار خیال کی از سر نو تعریف متعین کی جانی چاہئے ۔ آزادی اگر دل آزاری کو کہتے ہیں تو اس پر پابندی لگائی جانی چاہئے تاکہ ایسے واقعات کا تدارک کیا اسکے ورنہ دنیا جس امن کا خواب دیکھ رہی ہے وہ کبھی پورا نہیں ہوگا ۔