دینی معاملات میں میانہ روی

سوال : شریعت مطھرہ میں عبادات کو کافی اہمیت ہے لیکن کبھی یہ خیال آتا ہے کہ ہم کو ساری مصروفیات ترک کر کے صرف اور صرف عبادت الہی میں مشغول ہونا چاہئے۔ اگر ہم ساری زندگی عبادت الہی میں ‘ سر بسجود رہیں تب بھی ہم اس کی عبادت کا حق ادا نہیں کرسکتے۔ شادی بیاہ ‘ کاروبار کیا یہ اعمال دنیوی ہیں۔ سب چیزوں کو چھوڑ کر کیا ہمیں عبادت الہی کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوجانا چاہئے یا نہیں۔ اس سلسلہ میں شرعی احکام سے رہنمائی فرمائیں ۔
محمد علی ، وجئے نگر کالونی
جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر چیز میں میانہ روی کی تعلیم دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دین اور دینی مسائل کے بارے میں اتنے اہتمام کے باوجود آپؐ کو رہبانیت (ترک دنیا) کا اسلوب قطعی ناپسند تھا۔ اگر کسی صحابی نے اپنے طبعی میلان کی وجہ سے آپؐ سے اجازت مانگی بھی تو آپؐ نے سختی سے منع فرمادیا ۔ خود آپؐ کا جو طرز عمل تھا اسے آپؐ نے یوں بیان فرمایا : ’’ میں اللہ سے تم سب کی نسبت زیادہ ڈرنے والا ہوں ‘ مگر میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا‘ نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور اسی طرح عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ‘‘ پھر فرمایا : ’’ یہی میرا طریقہ (سنت) ہے۔ جس نے میرے طریقے کو چھوڑا وہ میری امت میں سے نہیں‘‘ (البخاری ‘ 411:3 ‘ کتاب النکاح ‘ باب 41 ‘ مطبوعہ لائیڈن) ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ و بن العاص نے آپؐ سے ’’ مسلسل اور ہمیشہ روزے ‘‘ رکھنے کی اجازت مانگی تو فرمایا : ’’ زیادہ سے زیادہ تم صوم داؤد ‘ یعنی ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھ سکتے ہو‘‘ پھر فرمایا : ’’ تیرے بدن کا بھی حق ہے‘ تیرے گھر والوں کا بھی تجھ پر حق ہے‘‘ (کتاب مذکور ‘ 1 : 443 ‘ کتاب الصوم ‘ باب 56 ‘ 57 ) ۔ ایک اور موقع پر حضرت ابو ہریرہ ؓ اور بعض دیگر صحابہؓ نے عدم استطاعت نکاح کی وجہ سے اپنے آپ کو جسمانی طور پر ازدوای زندگی کے ناقابل بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تو آپؐ نے سختی سے منع فرمادیا ( کتاب مذکور ‘ 3 : 413 تا 414 ) ۔ ایک صحابیؓ نے دنیا کے تمام بندھنوں سے الگ ہوکر ایک غار میں معتکف ہوکر عبادت الٰہی کرنے کی اجازت طلب کی تو فرمایا : ’’ میں یہودیت یا عیسائیت کی طرح رہبانیت کی تعلیم نہیں لے کر آیا‘ بلکہ مجھے تو آسان اور سہل دین ‘ دین ابراہیم ملا ہے ‘‘ (احمد بن حنبل : مسند 266:5 )
کتب حدیث و سیرت میں مذکور اس طرح کے بے شمار واقعات سے اس بات کی بخوبی شہادت ملتی ہے کہ آپؐ کو عیسائیت کے راہبوں اور بدھ مت کے بھکشوؤں کی طرح دنیا اور اس کے رشتوں سے قطع تعلق کرنا ہرگز گوارا نہ تھا ۔ آپؐ اسے ایک طرح کا عملی زندگی سے فرار اور قنوطیت سمجھتے تھے اور آپؐ کے نزدیک زندگی کی طرف یہ منفی رویہ کسی عالمگیر اور پائیدار مذہب(اور اس کے بانی) کے شایان شان نہیں تھا۔ اس کے بالمقابل آپؐ کے رویے میں امید و رجا کا پہلو بہت نمایاں تھا ۔ آپؐ کا مسلک یہ رہا کہ دنیا میں رہکر دنیا کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ اگر آپؐ کا کام رہبانیت یعنی خود کو برائی سے بچانے تک محدود ہوتا تو آپؐ کو اپنی عملی زندگی میں اتنی مشکلات اور مصائب و آلام کا ہرگز سامنا نہ کرنا پڑتا۔

نکاح میں دینداری کو ترجیح
سوال : میری آپ سے درخواست ہے کہ ان مسلمانوں کو تاکید کریں جو لوگ اپنے لڑکے کی شادی کیلئے ایسی لڑکی تلاش کرتے ہیں جو مالدار ہو اور حسن سے مالا مال ہو۔
محمد عیسیٰ تاڑبن
جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عورت سے نکاح چار وجوہات کی بناء کیا جاتا ہے۔ (1) اس کے حسب نسب کی بناء (2) اس کے حسن و جمال کی بناء (3) اس کے مال دولت کی بناء (4) اس کی دینداری کی بناء ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیندار عورت کو ترجیح دیتے ہوئے فرمایا تم دیندار عورت سے نکاح کر کے دین اور دنیا میں کامیاب ہوجاؤ۔ حسن و جمال ‘ مال و دولت عارضی ہیں۔ دینداری دنیا و آخرت میں کام آنے والی ہے۔
بدگمانی
سوال : آج کل مسلم معاشرہ میں پیار و محبت، اُلفت و شفقت کے بجائے نفرت، عداوت، بغض و مخالفت عام ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے سے بدگمانی کے شکار ہیں اور مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو بدگمان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔آپ سے گزارش ہے کہ آپ اسلامی نقطہ نظر اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل مبارک سے واضح فرمائیں تو عین نوازش و کرم ہوگا۔
سید عظمت علی، مشیر آباد
جواب : اسلام نے مسلمانوں، اپنے دوستوں اور اپنے عزیزوں کے متعلق حسن ظن کا حکم دیا ہے، خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ دوسروں کے متعلق حسن ظن رکھتے تھے۔ اسی بناء پر آپ ﷺ کو کسی سے کوئی ایسی بات سننا گوارہ نہ تھی جس سے آپؐ کے دل میں اپنے کسی صحابی کے خلاف کوئی کدورت پیدا ہونے کا احتمال ہوتا (الترمذی ، 710:5 حدیث 3896) ۔ آپ ﷺ کا ہمیشہ اس آیۂ کریمہ پر عمل رہا : ’’یایھا الذین امنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم‘‘ (49 (الحجرات) : 12) ’’یعنی اے اہل ایمان (دوسروں کے متعلق) بہت بدگمانی کرنے سے بچو کہ بعض گمان محض گناہ ہیں‘‘۔ آپ ﷺ کا ارشاد تھا : ’’حسن ظن اچھی عبادت ہے‘‘ (ابوداؤد ، 366:5، حدیث 4993) ۔ ایک مرتبہ ایک شخص حاضر ہوکر کہنے لگا : ’’یا رسول اللہ! میری بیوی کے ہاں سیاہ رنگ کا لڑکا پیدا ہوا ہے‘‘ (یعنی شک کا اظہار کیا) آپ ﷺ نے فرمایا : ’’کیا تیرے پاس ایک کوہان والے اونٹ ہیں‘‘؟ اس نے کہا ’’ہاں‘‘ فرمایا : ’’ان کا کیا رنگ ہے؟‘‘ کہا : ’’سرخ‘‘ فرمایا : ’’کیا ان میں مٹیالے رنگ کے بھی ہیں؟‘‘ کہا : ’’ہاں‘‘ فرمایا : ’’وہ کہاں سے آئے؟‘‘ اس نے کہا : ’’شاید کسی رگ نے اپنی طرف کھینچ لیا ہو‘‘ (یعنی کسی رشتہ دار کا رنگ لے لیا ہو) ، فرمایا : ’’اپنے ہاں بھی یہی سمجھ لو‘‘ (الترمذی ، 439:4 ، حدیث 2128) ، آپ ﷺ کا فرمان ہے : ’’تم خاص طور پر بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی بہت ہی بُری بات ہے‘‘ (مسلم، البر، 4 : 1980) ۔ ’’بدگمانی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے تمام افراد ایک دوسرے سے خواہ مخواہ بدظنی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کی لپیٹ میں آنے سے کوئی شخص بھی نہیں بچ سکتا۔ آپ ﷺ اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ تھے۔ اسی بناء پر خود بھی بدگمانی سے بچتے اور دوسروں کو بھی بدگمانی سے بچنے کی تلقین فرماتے۔
اس کے ساتھ ہی آپ ﷺ کا یہ فرمان تھا کہ ان موقعوں سے بھی بچو جن سے دوسروں کو بدگمانی کا موقع مل سکتا ہے۔ اسی بناء پر آپ ﷺ عورت کو تنہا سفر کرنے یا کسی اجنبی مرد کے ساتھ خلوت کرنے سے روکتے تھے۔ (البخاری ، 453:3، النکاح ، باب 111، 112)

بیت الخلاء کی نشست کا رخ
سوال : نئے مکان کی تعمیر میں جگہ کم ہونے سے بیت الخلاء کی نشست اس طرح بنانا پڑ رہا ہے کہ بوقت قضاء حاجت قبلہ کو پشت ہورہی ہے۔ اس طرح مجبوراً بیت الخلاء بنایا جائے تو شرعاً کیا حکم ہے کیونکہ جگہ کی قلت کے باعث اس کے علاوہ کوئی صورت ہی نہیں ہے ؟
نذیر خان، وٹے پلی
جواب : بوقت قضاء حاجت سمت قبلہ استقبال (رخ کرنا) استدبار (پشت کرنا) دونوں مکروہ تحریمی ہیں۔ اضطراری صورت یعنی شدید مجبوری کی حالت ہو تو استقبال یا استدبار مکروہ نہیں۔ لیکن اضطراری صورت ہو تو استدبار کو اختیار کرے کیونکہ استدبار کے مقابلہ میں استقبال زیادہ قبیح (سخت ناپسندیدہ و برا) ہے۔ و یکرہ تحریما استقبال القبلۃ و استدبارھا ولو فی البنیان ( نورالایضاح) مذکورہ عبارت کے حاشیہ ص : 3 میں ہے … فان الاستقبال والا ستدبار لایکرھان للضرورۃ و اذا اضطرالی احدھما ینبغی أن یختارالاستدبار لان الاستقبال اقبح فترکہ ادل علی التعظیم ۔ افادہ القسطلانی۔
مذکورہ در صورت میں حتی الامکان و حتی المقدور اس طرح تعمیر کی کوشش و تدبیر کی جائے کہ رخ یا پشت قبلہ کی سمت نہ ہو۔ بصورت مجبوری بجائے رخ کرنے کے پشت کر کے بیت الخلاء کی نشست بٹھائی جاسکتی ہے۔

ولادت کے چالیس دن بعد نماز کا حکم
سوال : حال ہی میں میری زچگی ہوئی‘ اللہ کے فضل سے مجھے لڑکا ہوا ۔ چھلے کے بعدبھی میں ناپاکی کی حالت میں ہوں۔ ایسی صورت میں میرے لئے نماز کے بارے میں کیا حکم ہے۔ میں کب سے نماز ادا کروں۔ خون کے رکنے کا انتظار کروں یا میرے لئے شرعی حکم کیا ہے ؟
اسلامی بہن
جواب : زچگی کے بعد عورت کو جو خون جاری ہوتا ہے اس کو نفاس کہتے ہیں۔ نفاس کی کم سے کم مدت مقرر نہیں اور زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے ۔ اگر کسی خاتون کو بعد زچگی چالیس دن کے بعدبھی خون جاری رہے تو شرعاً ’’مستحاضہ ‘‘ کہلاتی ہے ۔ ایسی صورت میں حکم یہ ہے کہ وہ چالیس دن کے بعد غسل کر کے پاک ہوجائے اور ہرنماز کے وقت کیلئے علحدہ علحدہ وضو کرے اور ایک نماز کے وقت کے فرائض سنن اور نوافل تمام نمازیں ایک ہی وضو سے ادا کرے گی پھر دوسری نماز کا وقت آجائے تو اس کے لئے علحدہ وضو کرے۔
بے جا تعریف کی ناپسندیدگی
سوال : مسلم معاشرہ میں غیر ضروری کسی کی تعریف کرنا عام ہوتے جارہا ہے اور لوگ اپنی تعریف کو پسند کرنے لگے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان کی تعریف کریں۔ براہ کرم اسلامی مزاج اس سلسلہ میں واضح کریں تو مہربانی۔
سید رحمت اللہ، ملک پیٹ
جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تمام اوصاف وکمالات کے حامل تھے۔ اس کے باوجود آپ ﷺ اپنی طبعی عاجزی و انکساری اور فرط تواضع سے بے جا مدح و ستائش کو قطعاً ناپسند فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے: ’’میری اس طرح مدح نہ کرو جس طرح عیسائی حضرت عیسیٰ کی کرتے ہیں، میں تو محض اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول ہوں‘‘۔ (بخاری جلد 2، صفحہ 329، کتاب الانبیائ)
ایک مرتبہ بعض صحابہ کرام نے آپ ﷺ سے سجدہ تعظیمی کی اجازت طلب کی ہے جو شام و عراق کے سرداروں میں رائج تھا تو آپ ﷺ نے سختی سے فرمایا کہ اگر سجدہ مباح ہوتا تو میں حکم دیتا کہ عورت اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ابوداؤد، 2 : 605) ایک مرتبہ ایک شخص نے گفتگو کے دوران یہ کہہ دیا کہ جو اللہ اور اُس کا رسول چاہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اُس شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تم یہ کہو کہ جو اللہ چاہے۔ (بخاری، ادب المفرد)
آپ ﷺ اپنی ذات ہی کے لئے نہیں بلکہ اپنے صحابہ کے متعلق بھی یہی طرز عمل اختیار فرماتے۔ ایک روز آپ ﷺ کے روبرو کسی صحابی نے ایک دوسرے صحابی کی تعریف کی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم خفا ہوگئے اور فرمایا تو نے اُسے ہلاک کردیا۔ (یا یہ کہا : ’’تو نے اُس کی گردن توڑ ڈالی‘‘۔) (بخاری 4 ،127)