دینی مدارس کی اہمیت و افادیت

قاری محمد عبد المقتدر

اسلام کی ترقی و بقاء، تعلیمات اسلامیہ کی نشر و اشاعت اور قرآن و حدیث کی تبلیغ و تشہیر کے لئے دنیا بھر میں دینی مدارس و مکاتب کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دین اسلام اور عقیدۂ توحید کی حفاظت و بقاء تعلیمات دینیہ پر منحصر ہے۔ جس قوم میں دینی تعلیم اور اسلامی تربیت کا نظام اہل دین و دانش اور فکرمند حضرات کی زیر نگرانی چلتا ہے، وہ قوم اپنے دین و ایمان میں نہ صرف سچی اور راسخ ہوتی ہے، بلکہ رہنمایانہ و مصلحانہ زندگی بھی گزارتی ہے۔

ایمانیات، عبادات، معاشرت و معاملات اور اخلاقیات میں سے ہر پہلو اور ہر رخ قابل تعریف و تحسین بلکہ لائق تقلید ہوتا ہے، برعکس اس کے جس طبقہ میں تعلیمات اسلامیہ و ایمانیہ کا نظام نہ ہو یا اہل حق اور درد و سوز رکھنے والوں کی نگرانی میں نہ ہو تو وہ طبقہ اور گروہ زمین پر بوجھ بن کر رہ جاتا ہے۔ اسی لئے حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے علم دین سیکھنے اور حاصل کرنے کو فرض فرمایا ہے اور علم دین کے پڑھنے و پڑھانے والوں کو امت کا سب سے بہتر طبقہ بتایا ہے۔ علاوہ ازیں جو بچہ علم دین کے حصول کے لئے اپنے گھر سے نکلے، اس کو اللہ کے راستے میں بتایا ہے، یہاں تک کہ وہ گھر واپس ہو۔ علم دین ایک رہبر اور رہنمائے صادق ہے۔ علم دین ہی سے احقاق حق اور ابطال باطل کا کام ہوتا ہے۔ علم ہی سے اللہ تعالی شانہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان ہوتی ہے۔ علم ہی سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی عظمت و احترام، اولیاء کرام سے حقیقی عقیدت اور ائمہ عظام و اسلاف کی قدر و منزلت کا سبق ملتا ہے۔ علم، انسانیت و آدمیت کا عظم درس دیتا ہے۔

علم امت کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام کا بیش بہا قیمتی تحفہ اور وراثت ہے، سرمایہ نجات اور مدار کامیابی ہے۔ یہ علم ماں باپ کو اولاد کی صحیح اور اسلامی تربیت پر ڈالتا ہے اور اولاد کو والدین اور اپنے بزرگوں کا سچا تابعدار و فرماں بردار بناتا ہے۔ علم بھائی بہنوں کے حقوق بتاتا ہے اور ان کے ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
ایمان و اسلام کی صداقت و حقانیت طالب علم دین میں راسخیت کے ساتھ جاگزیں ہو جاتی ہے۔ علم ہی دین اور اسلام پر آئے دن ہونے والے اعتراضات، بے جا شکوک و شبہات اور فرقہ باطلہ و ضالہ کا ڈٹ کر سامنا کرتا ہے اور یقیناً علم دین ہی دنیا و آخرت کی عافیت و سلامتی کا سامان اور ذخیرۂ نجات ہے۔

واضح رہے کہ اسلامی تعلیم کی ساری جدوجہد اور محنت مدارس دینیہ کے ذریعہ کی جاتی ہے، تاکہ یہ اللہ پاک کا پسندیدہ دین (اسلام) اور اس کی تعلیمات عام سے عام ہوں، ہر مسلم بچہ اس سے بہرہ ور ہو، ہر صاحب اسلام اپنی زندگی کے مقصد کو اچھی طرح سمجھے اور احکام شریعت کا پابند رہ کر زندگی گزارے۔ علاوہ ازیں تمام مرد و خواتین اور امیر و غریب دینی تعلیم سے کم سے کم اتنے واقف ہو جائیں کہ ان کے روز مرہ کے معمولات اور عبادات، قرآن و حدیث اور طریقہ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو جائیں، تاکہ ان کا رب ان سے راضی ہو جائے۔ لہذا بہت ضروری ہے کہ والدین اور سرپرست حضرات اپنی اولاد اور ماتحتوں کو اسلامی تعلیمات سے آراستہ و پیراستہ کریں، قرآن و حدیث سے اچھا واقف اور اسلامی و ایمانی ذہنیت کا حامل بنائیں۔ یقیناً دینی مدارس دین اسلام کے قلعے ہیں، ان میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تقسیم ہوتی ہے، عقائد اسلام سے باخبر کیا جاتا ہے، اعمال کے مسائل و فضائل سے روشناس کراکے اعمال پر ابھارا جاتا ہے اور تاریخ و ادب اسلامی سے واقف کروایا جاتا ہے۔ لہذا اہل اسلام کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ ان مدارس دینیہ کی طرف توجہ فرمائیں اور اسلام کی نشر و اشاعت میں ہر طرح سے شریک ہوں۔