ظفر آغا
ہندوستان اور اس ملک کی عظیم عوام کو ہمارا سلام ! دہلی میں جو کچھ ہوا وہ ہندوستان میں ہی ہوسکتا تھا ۔ دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج محض ایک پارٹی کی ہار اور دوسری پارٹی کی جیت نہیں تھے بلکہ دہلی نے ایک بار پھر سے وہ تاریخ رقم کی ہے جس پر ہندوستان کو صدیوں سے ناز ہے ۔ وہ تاریخ کیا ہے؟ ہندوستان دنیا کا وہ عظیم الشان ملک ہے جس نے اپنی آغوش میں ہر کسی کو پناہ دی ۔ یہاں کبھی آرین آئے تو کبھی ہون آئے ۔ کبھی پارسی آئے تو کبھی عیسائیوں نے اس ملک کو اپنا مسکن بنایا ۔ اس طرح عرب ، ترک ، پٹھان اور مغل اسلام کا پیغام لے کر آئے تو ہندوستان نے ان کو بھی اپنے دامن میں بسالیا ۔ یہاں جو بھی آیا وہ یہیں رچ بس گیا اور ہندوستان پھولتا اور پھیلتا رہا ۔ آج امریکہ اور یوروپ فخر سے کہتے ہیں کہ وہ Multi cultural اور Plural ملک ہیں ۔ ہندوستان تو صدیوں سے Multi cultural اور Plural ملک ہے ۔ تب ہی تو اس ملک میں درجنوں زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ یہاں کبھی مندر کے گھنٹے گونجتے ہیں تو کبھی اذان کی صدا بلند ہوتی ہے ۔
اس ملک میں کبھی ، عیسائی چرچ میں دست بہ دعا ہوتے ہیں تو کبھی سکھ گرودوارہ میں ماتھے ٹیکتے ہیں ۔ اس ملک کے ہر خطے میں لباس بدل جاتا ہے ، زبان بدل جاتی ہے ، گیت سنگیت بدل جاتا ہے ۔ کھان پان بدل جاتا ہے ۔ بھلا اس سے بڑھ کر کون دوسرا Multi cultural اور Plural ملک ہوسکتا ہے اور یہی ہندوستان کی روح ہے ۔
لیکن افسوس کہ ہندوستان میں کچھ سرپھرے ایسے بھی ہیں جو ہندوستان کی روح سے انکار کرنا چاہتے ہیں ۔ ایسے ہی افراد کبھی ’’گھر واپسی‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو کبھی یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہندوستان محض ہندوؤں کا ملک ہے اور کبھی چرچ جلا کر یہ پیغام دیتے ہیں کہ اس ملک میں محض ایک مذہب اور ایک زبان اور ایک تہذیب رہے گی ۔ ایسے عناصر یہ بھول جاتے ہیں کہ خود ہندو مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا ۔ ہندو مذہب تو درجنوں دیوی دیوتاؤں کا مذہب ہے ۔ اس مذہب میں کوئی شیو کا پجاری ہے تو کوئی وشنو کا پجاری ۔ کوئی کرشن کی بنسی بجاتا ہے تو کوئی رام نام جپتا ہے ۔ لیکن یہ سب ہندو ہیں ۔ جس مذہب میں اتنے مت ہوں بھلا اس ملک کو محض ایک دھرم کے نام پر کیسے برقرار رکھا جاسکتا ہے ۔ تب ہی تو ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ۔ یہاں جمہوریت اور سیکولرازم محض آئین میں لکھا ایک قانون نہیں ہے ۔ جمہوریت اور سیکولرازم تو ہندوستانی تہذیب اور کلچر کا اٹوٹ حصہ ہے ۔ اسی لئے جب جب یہاں ایسی آوازیں اٹھتی ہیں تو ہندوستان کی روح بے قرار ہو اٹھتی ہے پھر جلد ہی ہندوستانی عوام ایک انتخاب کے ذریعہ ہندوستانی تہذیب و تمدن اور اس کی رنگارنگ روحانی روایت کو پھر سے جلابخشتے ہیں ۔
دہلی کے انتخابی نتائج اسی لئے محض انتخابی نتائج نہیں ہیں ۔ یہاں کے انتخاب میں محض ایک پارٹی کی جیت اور دوسری پارٹی کی ہار نہیں ہوئی ہے ۔ دہلی کے انتخابات میں تویہ طے ہونا تھا کہ آیا ہندوستان اپنی روحانی نہج پر برقرار رہے گا یا پھر اس ملک کا تہذیب و تمدن بدل جائے گا ۔ یہی سبب تھا کہ سارا دہلی اٹھ کھڑا ہوا ۔ کیا امیر کیا غریب ، کیا ہندو کیا مسلمان ، کیا سکھ اور کیا پارسی ، کیا برہمن اور کیا دلت ، کیا عورت اور کیا مرد ، کیا بوڑھا اور کیا جوان ہر کسی نے جھاڑو پر مہر لگا کر یہ اعلان کردیا کہ ہم ہندوستان کی روح نہیں بدلنے دیں گے ۔ یہ ملک صدیوں سے گنگا جمنی تہذیب کا ملک ہے اور ہمیشہ ویسا ہی رہے گا ۔ یہاں سیکولرازم صرف آئینی ضمانت نہیں ہے بلکہ سیکولرازم تواس ملک کی روح ہے اور کوئی اس کو مار نہیں سکتا ہے ۔ اسی لئے دہلی کے انتخابات میں اروند کجریوال کی ہی جیت نہیں بلکہ ہندوستانی روح کی جیت ہوئی ہے ۔ دہلی نے یہ اعلان کیا ہے کہ اگر کسی نے ہندوستان کے تہذیب و تمدن پر ہاتھ ڈالا تو وہ اس کو ہرگز برداشت نہیں کرے گی ۔
یہی سبب ہے کہ ہندوستان غالباً دنیا بھر کی اقلیتوں کا مسکن ہے ۔ جس شان سے مسلمان یہاں مسجد کی میناروں سے نعرے تکبیر بلند کرتا ہے یا چرچ کے گھنٹوں کی گونج میں عیسائی عیسیٰ مسیح کی عظمت کا اعلان کرتا ہے ۔ ویسے کیا کسی دوسرے ملک میں اقلیتوں کو اپنے مذہب کی تشریح کا حق ہے ؟ یہاں جب جب بھی فساد ہوتا ہے، تب مسلمانوں کے دفاع کی آواز ہندو بلند کرتا ہے ۔ تیستا سیتلواد مسلمان نہیں ہے ۔ آج تیستا مسلمانوں کے حقوق کی جد وجہد کے لئے جیل بھیجی جارہی ہے ۔ مسلمان تو ڈرا سہما اپنی آواز بھی بلند نہیں کرپاتا ہے اور ایک تیستا نہیں درجنوں غیر مسلم ہر فساد کے بعد حق و انصاف کی لڑائی میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ یہ صرف ہندوستان میں ہی ممکن ہے ۔ یقیناً اس ملک میں اقلیتوں پر ظلم بھی ہوتے ہیں لیکن اسی ملک میں اقلیتوں کو ووٹ دینے کا ویسے ہی حق ہے جیسے اکثریت کو ہے ۔ تب ہی تو وہ اس ملک میں جمہوری طور پر ناانصافی کا بدلا اپنے ووٹ سے نکال لیتا ہے ۔ تب ہی تو دنیا بھر میں مسلمان جہاد کا نعرہ بلند کررہے ہوں یہاں اگر کسی مسلمان نے دہشت گردی یا جہاد کی بات بھولے سے بھی کی تو سارے ہندوستانی مسلمان اس کی مذمت کرتے ہیں ۔
یہ عجیب و غریب ملک ہے ۔ کچھ عناصر کو کبھی کبھی یہ گمان ہوجاتا ہے کہ وہ اس عظیم الشان ملک کی تمام روایات کو بدل کر اس ملک کو ایک ’’ہندو پاکستان‘‘ میں تبدیل کرسکتے ہیں ۔ جب جب ایسا موقع آتا ہے تب تب ہندوستانی روح بے چین ہو اٹھتی ہے اور پھر انتخابی نتائج کے ذڑیعہ یہ اعلان ہوجاتا ہے کہ خبردار ہندوستان کی روح کو اگر کسی نے ٹھیس پہنچائی تو اس کو اقتدار سے بے دخل ہونا پڑے گا ۔ دہلی انتخابات نے اسی بات کااعلان کیا ۔ پورے نظام کو ہوشیار کردیا ہے ۔ ایسے عظیم الشان ملک میں بھلا اقلیتوں کوکس بات کا ڈر اور خطرہ ہوسکتا ہے لیکن خاتمہ نہیں ۔ یہاں اقلیتوں کوجو اختیارات حاصل ہیں وہ دوسری جگہ نہیں ہیں ۔ دنیا بھر میں مسلمان ووٹ دینے کی آزادی کے لئے لڑرہا ہے اور یہاں مسلمان شروع سے ووٹ ڈال رہا ہے اور جب متحد ہوجاتا ہے تو اقتدار بھی بدل دیتا ہے ۔
ایسے عظیم الشان ملک کو ہم سب کا سلام ۔ دہلی سے بلند ہونے والی صدا کو ہمارا سلام ۔ ہندوستان ایک سیکولر ملک تھا اور سیکولر ملک ہے اور سیکولر ملک رہے گا ۔ کوئی اس ملک کی روح کو نہیں بدل سکتا ، خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو ۔ یہی دہلی انتخابی نتائج کاسبق ہے جس کے آگے ہر سیاسی گروہ کو سرجھکانا پڑے گا اور تسلیم کرنا پڑے گا ۔ بھلا ایسے عظیم الشان ملک کو کون سلام نہیں کرے گا !