دہلی میں کسان کی خودکشی اور کجریوال

ظفر آغا
پچھلے ہفتے دہلی میں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا ۔ ٹی وی اور اخباروں کے ذریعہ قاری کو اس واقعہ کی تمام تفصیل تو معلوم ہی ہے ۔ یعنی ایک کسان نے دہلی کے وزیراعلی اروند کجریوال کی جانب سے کسانوں کی ہمدردی میں بلائی گئی ایک ریلی کے دوران ایک پیڑ پر چڑھ کر خودکشی کرلی ۔ اس خودکشی کی سب سے دلچسپ بات ہے کہ وہ کسان پیڑ پر لٹک کر دم توڑتا رہا اور اس دوران دہلی کے وزیراعلی اروند کجریوال تقریر کرتے رہے ۔ عام آدمی پارٹی کی اعلی قیادت کے سامنے ایک کسان نے خودکشی کرلی اور اروند کجریوال سمیت پارٹی کے تمام اہم لیڈران کھڑے تماشہ دیکھتے رہے ۔ ظاہر ہے کہ عام آدمی پارٹی قیادت کی اس بے حسی پر میڈیا اور سیاسی حلقوں میں ہنگامہ برپا ہوگیا ۔ پہلے تو اس واقعہ پر عام آدمی پارٹی کے لیڈران ادھر ادھر کے بیان دیتے رہے لیکن آخر اروند کجریوال نے اس واقعہ پر اظہار افسوس کے ساتھ ساتھ معافی بھی مانگ لی ۔

بیچارہ غریب کسان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا اور اروند کجریوال نے پیشہ ور ’’نیتا‘‘ کی طرح معافی مانگ کر اس پورے واقعہ سے دامن جھاڑ لیا ۔ پتہ یہ چلا کہ اروند کجریوال اور ان کی عام آدمی پارٹی بالکل ہی عام پارٹی ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی کوئی خاص بات نہیں ہے اور جہاں تک اروند کجریوال کا سوال ہے تو وہ بھی بس بالکل عام لیڈر ہی ہیں اور ان میں بھی کوئی خاص بات قطعاً نہیں ہے ۔ سچ جانیئے تو اس بات سے محض دہلی والوں کو ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کو دھکا لگا ہے ۔ کیونکہ اروند کجریوال نے اپنی قلیل سیاسی زندگی میں محض دہلی ہی نہیں بلکہ سارے ہندوستان کے دلوں میں امید کی ایک کرن پیدا کردی تھی ۔ تب ہی تو کوئی تین چار سال قبل انا ہزارے کے ساتھ دہلی کے جنتر منتر پر ایک چھوٹی سی ریلی سے شروعات کرنے والے اروند کجریوال دیکھتے ہی دیکھتے ایک نہیں دو بار دہلی جیسی جگہ پر وزیراعلی بن گئے ۔ دوسری بار ابھی فروری کے مہینے میں کجریوال نے دہلی کا چناؤ جیت کر تو کمال ہی کردیا تھا کیونکہ اس چناؤ میں انکا مقابلہ کسی اور سے نہیں بلکہ خود نریندر مودی سے تھا ۔ وہ بھی کون سے نریندر مودی ، وہی مودی جو کچھ ماہ قبل 33 فیصد ووٹ جیت کر وزیراعظم بنے تھے ۔ یوں تو دہلی کے چناؤ اسمبلی چناؤ تھے لیکن اس چناؤ میں بذات خود مودی نے اروند کجریوال کو للکارا تھا اور دہلی میں بی جے پی کے لئے اپنے نام پر ووٹ مانگا تھا ۔ مودی اور کجریوال کی اس ٹکر میں اروند کجریوال نے مودی کو غضب کی پٹخنی دی تھی ۔ دہلی کی ستر سیٹوں میں سے عام آدمی پارٹی کو 67 سیٹوں پر کامیابی ہوئی جبکہ بی جے پی کو محض تین سیٹیں ملی تھیں ۔

مودی کے خلاف اتنی بڑی جیت کے بعد عام آدمی پارٹی کا لیڈر اروند کجریوال ملک کا خاص لیڈر بن گیا تھا ۔ سارے ہندوستان کو یہ امید ہوگئی تھی کہ کجریوال ہی مودی کو ملک گیر پیمانے پر ہراسکتا ہے ۔ کیونکہ ان دنوں کانگریس کا برا حال ہے ۔ راہول گاندھی ملک کو متاثر نہیں کرپارہے تھے ۔ سونیا بھی کانگریس کی ہار کے بعد کچھ انڈر گراؤنڈ تھیں ۔ اس لئے ملک کا سیکولر ووٹر اروند کجریوال کو نیا سیکولر نعم البدل سمجھ کر امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔ لیکن کجریوال کے دوسری بار وزیراعلی بننے کے کوئی دو ماہ کے اندر ہی ہندوستان کی اس امید پر پانی پھرنا شروع ہوگیا ۔ پہلے تو کجریوال کی پارٹی کے اند رہی جنگ شروع ہوگئی ۔ اس خانہ جنگی میں پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو جیسے عام آدمی کے قد آور لیڈڑ پارٹی سے باہر کردئے گئے ۔ سچ تو یہ ہے کہ پرشانت اور یوگیندر وہ لوگ ہیں جن کے سبب عام آدمی پارٹی کو پڑھے لکھے میڈل کلاس میں مقبولیت حاصل ہوئی تھی ۔ پرشانت بھوشن ملک کے نامور وکیل اور قدآور سیول رائٹس کارکن تھے اور آج بھی ہیں ۔ ادھر یوگیندر یادو ملک کے مشہور سیاسی تجزیہ کار کی حیثیت سے ٹی وی پر اپنی دھاک جماچکے تھے ۔ دراصل پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو کو اس وقت سارا ہندوستان جانتا اور پہچانا تھا جب اروند کجریوال کو کوئی بھی نہیں جانتا تھا ۔ اگر یوں کہئے کہ کجریوال ، انا ، پرشانت اور یوگیندر جیسوں کے کاندھوں پر سوار ہو کر ہی کجریوال بنے تو غلط نہ ہوگا ۔ لیکن واہ رے کجریوال واہ ! وزیراعلی بنتے ہی کجریوال نے سب سے پہلے پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ۔ بات صرف اتنی تھی کہ بھوشن اور یادو بی جے پی کے خطرے سے نمٹنے کے لئے سارے ہندوستان میں عام آدمی پارٹی کو پھیلانا چاہتے تھے ۔ کجریوال صاحب کو اس خیال سے ڈر لگنے لگا ۔ غالباً وہ اس بات سے ڈر گئے کہ دہلی کا وزیراعلی بن کر وہ تو دہلی کے لیڈر رہ جائیں گے جبکہ پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو قومی لیڈر بن جائیں گے ۔ چنانچہ کجریوال نے اعلان کردیا کہ عام آدمی پارٹی محض دہلی تک ہی محدود رہے گی اور اشوتوش جیسے حامی نے کجریوال کی ہاں میں ہاں ملانی شروع کردی اور بس یہ جا وہ جا پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو جیسے پارٹی کے باہر ہوگئے ۔ اور اب عام آدمی پارٹی دو ٹکڑوں میں بٹنے کے قریب ہے ۔ یعنی وہ اروند کجریوال جو چند ماہ قبل سارے سیکولر ہندوستانیوںکی امید کی کرن بن گئے تھے اب محض دہلی کے دامن میں سمٹ کر رہ گئے ۔ ابھی اس واقعہ کو مشکل سے ہفتہ گزرا تھا کہ دہلی میں بھی عام آدمی پارٹی کو گہن لگ گیا ۔ عام آدمی پارٹی ریلی میں ایک کسان کی موت نے دہلی میں بھی اروند کجریوال کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگادیا ۔ اب یہ عالم ہے کہ بیچارے کجریوال معافی مانگتے پھر رہے ہیں اور دہلی والے کان دھرنے کو بھی تیار نہیں ہیں ۔

لب لباب یہ کہ کجریوال کھوٹا سکہ نکلے اور عام آدمی پارٹی بالکل ہی عام پارٹی نکلی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی کوئی تین ماہ پرانی حکومت میں اندر کجریوال نے دہلی والوں کا بجلی ، پانی بل کا بوجھ توکم کردیا لیکن اس کے علاوہ کجریوال حکومت دہلی والوں اور دہلی کے لئے کچھ کرنے سے قاصر ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کرنے کے لئے ان کے پاس نہ تو کوئی پلان ہے اور نہ ہی کوئی ویژن جس سے دہلی والوں کو راحت ملے ۔ بس ایک کرپشن دور کرنے کی ڈفلی تو کجریوال بجارہے ہیں لیکن کچھ کر نہیں رہے ہیں ۔ وہ بھی کرپشن کیسے دور ہوگا ! دہلی حکومت کچھ نہیں کریں گی۔ دہلی والے رشوت مانگنے والے کا ویڈیو بنا کر لائیں تو دہلی حکومت ایکشن لے گی ۔ یعنی جب تک ویڈیو نہ بنے سرکاری ملازمین رشوت کھاتے رہیں اور شری کجریوال منہ موڑے دیکھتے رہے گے ۔ بھائی بہت خوب یہ رشوت ختم کرنے کا اچھا طریقہ نکالا کجریوال نے !
دراصل کجریوال ایک انتہائی ambitious شخصیت کے حامل ہیں ۔ ایک چھوٹے سے نامعلوم سرکاری افسر سے لے کر دہلی کے وزیراعلی کی حیثیت تک جلد ہی پہونچ گئے ۔ وہ بھی کبھی انا ہزارے تو کبھی پرشانت بھوشن کے کاندھوں پر سوار ہو کر ۔ لیکن خود ان کے اندر ایسی کوئی صلاحیت تو تھی نہیں ۔ اس لئے اعلی عہدے پر پہونچنے کے بعد ان کو خود اپنی پارٹی کے قدآور لوگوں سے ہی ڈر لگنے لگا ۔ پہلے ان کو پارٹی سے باہر کیا اور پھر وہ اپنے پرانے مشغلے یعنی سڑکوں پر جلسے جلوس نکالنے کی نوٹنکی پر واپس لوٹ آئے ۔ لیکن اس بار ایک بے گناہ کسان کی موت نے ان کی نوٹنکی کے رنگ میں بھنگ ڈال دیا ۔ لیکن یہ طے ہوگیا کہ کجریوال اور عام آدمی پارٹی کا ڈرامہ زیادہ چلنے والا نہیں ہے ۔ کسان کے گلے کا پھندہ اب کجریوال کی پھانسی بنتا جارہا ہے ۔ بیچارے برے پھنسے کجریوال !