دہلی میں بالادستی کی جنگ

قومی دارالحکومت دہلی کا شہر حالیہ عرصہ میں کسی نہ کسی وجہ سے سرخیوں میں رہا ہے ۔ یہاں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے ۔ اس کے علاوہ سیاسی سرگرمیوں کیلئے بھی دہلی کو مرکزی مقام حاصل ہے ۔ ملک بھر کے حالات کا دہلی میں اثر ضرور دکھائی دیتا ہے ۔ اب گذشتہ تقریبا چھ ماہ سے یہاں عام آدمی پارٹی حکومت اور لیفٹننٹ گورنر نجیب جنگ کے مابین بالا دستی کی جنگ چھڑ گئی ہے ۔ تقریبا ہر مسئلہ پر لیفٹننٹ گورنر اپنی بالادستی دکھانے کا موقع ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتے وہیں چیف منسٹر اروند کجریوال عوام کی تائید کے بھرم میں اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کے درمیان سرد جنگ اب کھلے عام اختلافات کی صورت اختیار کرچکی ہے اور یہ اختلافات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہ گئے ہیں۔ انسداد کرپشن کیلئے مہم ہو یا پھر بہار کیڈر کے عہدیداروں کا دہلی میں تقرر ہو ‘ پولیس پر کنٹرول کا مسئلہ ہو یا پھر اب تازہ ترین مسئلہ دہلی خواتین کمیشن کیلئے تقررات کا مسئلہ ہو تقریبا ہر مسئلہ پر دونوں کے مابین اختلافات ہیں ۔ دونوں کے درمیان ایسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جس کو انانیت سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ کوئی بھی دوسرے کی اہمیت اور اس کی بالادستی کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ اب دہلی خواتین کمیشن میں تقرر کے مسئلہ پر تازہ ترین تنازعہ میں لیفٹننٹ گورنر نے یہاں تک کہدیا کہ دہلی میں حکومت کا مطلب لیفٹننٹ گورنر ہیں۔ یقینی طور پر گورنر کو ریاست کے سربراہ کا موقف دستور میں دیا گیا ہے لیکن اسی دستور میں عوامی منتخبہ حکومت کی اہمیت اور اس کے اختیارات کو بھی واضح کردیا گیا ہے ۔ دہلی کے عوام نے جس طرح سے عام آدمی پارٹی کی حمایت کرکے اسے اقتدار بخشا ہے اس سے بھی انکار کی کسی کو گنجائش نہیں ہے ۔ گورنر کو اپنے عہدہ کی بالا دستی کے آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا تو وہیں اروند کجریوال کو عوام کی تائید کا نشہ ہے ۔ اسی وجہ سے دونوں کسی کی بھی اہمیت کو تسلیم کرنے کیلئے عملا تیار نہیں ہیں۔ اس سارے عمل میں عوام کہیں پس منظر میں چلے جا رہے ہیں۔ گورنر بھی دستوری طور پر عوام کو راحت پہونچانے کیلئے کام کرتے ہیں اور چیف منسٹر کو بھی اسی مقصد سے منتخب کیا جاتا ہے لیکن اب عوام ہی کہیں پس منظر میں چلے گئے ہیں۔

دہلی میں لیفٹننٹ گورنر کو جو اختیارات حاصل ہیں ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ریاست میں گورنر کو سربراہ ریاست کا درجہ حاصل ہے ۔ دہلی کا مسئلہ ملک کی عام ریاستوں سے قدرے مختلف ہے لیکن اس کے باوجود عوامی رائے کا احترام اپنی جگہ برقرار ہے ۔ ملک میں جمہوری طرز حکمرانی ہے اور اس طرز میں عوام کی رائے اور ان کے ووٹوں کی اہمیت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ جس انداز سے حکومت کے قیام کیلئے دہلی کے عوام نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا تھا اس کی سارے ملک میں مثال ملنی مشکل ہے لیکن جس وقت سے حکومت کا قیام عمل میں آچکا ہے اس کے بعد سے ایسا لگتا ہے کہ کسی نہ کسی گوشے سے حکومت کے کام کاج میں مسلسل رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں۔ یہ ساری رکاوٹیں عمدا پیدا کی جا رہی ہیں تاکہ دہلی کے عوام کو حکومت سے بدظن کیا جاسکے ۔ خود عام آدمی پارٹی کا الزام ہے کہ دہلی کے عوام کو کانگریس و بی جے پی کو مسترد کرنے کی سزا دی جا رہی ہے ۔ پارٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی جے پی نے مرکز میں اقتدار کا بیجا استعمال کیا ہے اور گورنر کو دہلی کی حکومت کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی ہو یا مرکزی حکومت ہو دونوں ہی ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں ۔ تاہم وقفہ وقفہ سے گورنر کو مرکزی وزارت داخلہ کی تائید بھی ملتی رہی ہے اور آج گورنر نے جو ادعا کیا ہے کہ دہلی میں اصل حکومت کا مطلب لیفٹننٹ گورنر ہی ہیں وہ بھی مرکزی وزارت داخلہ کی تائید کا ہی نتیجہ ہے ۔ وزار ت نے ماضی میں ایک موقع پر یہ وضاحت کی تھی کہ گورنر کو بالادستی حاصل ہے ۔

دہلی میں سیاسی رسہ کشی کے دوران مرکزی حکومت نے جو رویہ اختیار کیا ہوا ہے وہ بھی ایسا لگتا ہے کہ اختلافات کو ہوا دینے والا ہی ہے ۔ چیف منسٹر اور لیفٹننٹ گورنر کے مابین اختلافات کی یکسوئی میں مرکز خود کوئی رول ادا کرنے کی بجائے گورنر کے دستوری عہدہ کو اختلافات کو ہوا دینے استعمال کر رہا ہے ۔ جہاں دستور میں گورنرکی بالادستی ہے وہیں جمہوری عمل کی اہمیت و افادیت بھی مسلمہ ہے اور اس سے خود مرکزی حکومت بھی انکار نہیں کرسکتی ۔ ایسی صورتحال میں جب دونوں ہی اہمیت کے حامل عہدے ہیں اور اگر ان میں اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں تو مرکزی حکومت کو وفاقی طرز حکمرانی کے اصولوں کے مطابق مصالحت کا رول ادا کرنا چاہئے نہ کہ اختلافات کو ہوا دینے کا ۔ آج خاص طور پر لیفٹننٹ گورنر کے ریمارکس کے بعد مرکز کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یہاں مداخلت کرے اور سیاسی بالادستی کی جنگ کو ختم کرکے حالات کو سازگار بنائے ۔